Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حج کے شعائر کی تعظیم بچوں میں کیسے پیدا کریں؟

بچوں کو سکھانا ہے کہ حج میں مختلف اقوام و ممالک سے تعلق رکھنے والے یکجا  ہوتے ہیں ،یہ سب ایک پرچم تلے اکٹھے ہوتے ہیں
 
 * * *ڈاکٹرظہور انجم ۔ جدہ* * *

 

اِن دنوں حاجیوں کے قافلے میقاتوں کا رخ کررہے ہیں ۔سب ہی مسجد الحرام کی جانب متوجہ ہیں، احرام کی چادرزیب تن کرکے خانہ کعبہ کا طواف ، صفاء و مروہ کی سعی کررہے ہیں۔ گناہوں کا تصور کرکے ندامت و پشیمانی کا اظہار و گریہ وزاری کررہے ہیں۔
    حج کے چند ایام بہت ساری عبرتوں اور بہت سارے اسباق سے معمورہیں۔ ہم جدید ترین ذرائع ابلاغ کے ماحول میں سانس لے رہے ہیں۔ ہمارے بچے ہم سے سوال کرسکتے ہیں کہ آخر اتنی بڑی تعداد میں لوگ ارض مقدس میں کیوں جمع ہورہے ہیں، وہ ہم سے پوچھ سکتے ہیں آخر سب کے سب 2سفید چادریں کیوں پہنے ہوئے ہیں، عام لباس سے سب کے سب آزاد کیوں ہیں؟ یہ لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ کیوں آجارہے ہیں؟ یہ اور اس طرح کے دیگر سوالات بچوں کے ذہنوں میں پیدا ہوسکتے ہیں اور وہ والدین سے ان کے جوابات طلب کرسکتے ہیں لہذا والدین، بھائیوں اور بڑی بہنوں کا فرض ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاکر بچوں میں دینی شعائر کی تعظیم کا شعور بیدار کریں۔اللہ تعالیٰ نے سورۃالحج کی آیت نمبر 32میں ہمیں اس امر کی تلقین بھی کی ہے:
    ’’ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے شعائر کی تعظیم کرینگے تو وہ ایسا دلوں میں خداترسی کی تحریک پر کرینگے۔‘‘
    ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کوبتائیں کہ یہ عازمین حج ہیں جو اپنا گھربار، اپنا وطن اور اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی ندا پر لبیک کہتے ہوئے ارض مقدس پہنچے ہیں۔ دیکھو! اللہ تعالیٰ نے بابائے انبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا تھا :تم لوگوں میں حج کا اعلان کردو ،وہ تمہارے پاس پاپیادہ بھی آئیں گے اور دبلی پتلی اونٹنی پر سوار ہوکر دنیا کے ہر دور دراز علاقے سے پہنچیں گے۔اس کا تذکرہ قرآن کریم میں موجود ہے۔
    بچوںکو بتایا جائے کہ ذرا سوچوکہ ان لوگوں نے اپنا گھر ، اپنا وطن ، اپنے رشتے دار اور احباب کو چھوڑا ہوگا تو انہیں کتنا دکھ ہوا ہوگا۔ یہ کیسی کیسی مشقتیں برداشت کرکے یہاں پہنچے ہونگے۔ اس کے باوجود غور طلب بات یہ ہے کہ یہ سب کے سب خوش نظر آرہے ہیں۔ ان کے چہروں سے خوشی بکھری پڑ رہی ہے۔ یہ حج کی توفیق عطا ہونے پر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں۔ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہاں آنے کی سعادت بخش کراپنی رحمت اور اپنی مغفرت نیز جنت سے نوازنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
    بچوں کوبتایا جائے کہ پیغمبر اسلام کے ایک صحابی ابوہریرہ ؓ تھے۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا تھا کہ ایک عمرہ سے دوسرے عمرے تک دونوں کے درمیان ہونے والے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے اور حج مبرور کا اجر جنت کے سوا کچھ نہیں۔اسی وجہ سے یہ لاکھوں لوگ احرام پہن کر اللہ کے گھر آرہے ہیں۔ یہ لوگ سلے ہوئے کپڑے ترک کئے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ نفرت، عداوت اور کینے کو پس پشت ڈالے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ زیب وزینت اور خوشبویات چھوڑے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ خواہشوں اورمختلف رغبتوں سے کنارہ کش ہوچکے ہیں۔ یہاں ان کی آمد کا مقصد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا حصول اور اس کی رضامندی کے سوا کچھ نہیں۔
    یہاں آنیوالے چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے ان کا سفر حج قبول کرلے اور حج کے مناسک کو قبول کرلے۔ یہ لوگ آرزومند ہیں کہ یہاں سے اپنے اہل و عیال کے پاس جائیں تو گناہوں سے بالکل پاک صاف ہوں۔ یہ آرزو وہ اس بنیاد پر کررہے ہیں کہ پیغمبراسلام محمد مصطفی  کاارشاد ہے:
    ’’جس شخص نے حج کیا اور اس دوران اس نے نہ تو بدکلامی کی اور نہ فحاشی کا مظاہرہ کیا تو یہاں سے وہ ایسا واپس ہوگا جیسا کہ اُس روز تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا۔‘‘
    بچوں کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ دیکھو اس میں کتنا بڑا درس ہے ہم سب لوگوں کو نفرت ، عداوت ،جھوٹ ،دھوکہ دہی اور فریب کاری چھوڑدینی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم معصیت کا کوئی کام نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم برے اخلاق سے اپنے آپ کو آلودہ نہ کریں، جو لوگ ایسا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بڑاا جردیتا ہے۔
    ہمیں اپنے بچوں کو یہ بھی بتانا ہے کہ حج کے ایام اس قدر عظیم اور مبارک ہیں کہ ان ایام میں جو لوگ حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور گناہوں سے پاک حج کرتے ہیں ،بدکلامی ،بدزبانی اور لڑائی جھگڑے سے پاک ایام گزارتے ہیں ،کسی کی دل آزاری کے بغیر حج ایام میں رہتے ہیں ایسے لوگوں کو نئی زندگی اور نیا جنم مل جاتا ہے۔ وہ حج کی بدولت معصوم بچوں کی طرح ہوجاتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ چند روز کے اندر اندر انسان اتنا بڑا ہدف حاصل کرلیتا ہے تو آخر ہر انسان کو یہ کوشش کیوں نہ کرنی چاہئے کہ وہ نیا جنم پانے کیلئے تگ و دوکرے۔
    ہمیں اپنے جگر گوشوں کو یہ سمجھانا ہے کہ حج کے دنوں میں دل اور جسم ایک ہوجاتے ہیں، تمام انسان آسائشی ملبوسات سے آزاد ہوجاتے ہیں ،آرائش اور خوشبویات سے بے نیازہوجاتے ہیں۔ مردحضرات صرف 2چادریں استعمال کرتے ہیں اس طرح وہ تواضع و انکساری کا نمونہ پیش کرتے ہیں ۔ یہ چادریں ارب پتی بھی پہنتا ہے اور معمولی درجے کا شخص بھی۔سب ایک لباس میں ہوجاتے ہیں سب کے سب ندائے توحید اور ترانۂ بندگی  ’’لبیک اللّٰم لبیک‘‘ دہراتے رہتے ہیں۔
    ہمیں اپنے پیارے بچوں کو یہ بھی سکھانا ہے کہ رسول اللہ  کاارشاد ہے:
     ’’جس نے قدرت کے باوجود اللہ کے سامنے عاجزی کے اظہار کیلئے لباس ترک کیا ، اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے روز اسے تمام بندوں کے سامنے طلب کرکے اختیار دیگا کہ وہ ایمان کے جس جوڑے کو بھی زیب تن کرنا چاہے کرسکتا ہے۔‘‘
    بچوں کو یہ بھی سکھانا ہے کہ حج میںمختلف اقوام و ممالک سے تعلق رکھنے والے، مختلف بولیاں بولنے والے، مختلف اطوار و عادات رکھنے والے یکجا جمع ہوتے ہیں ۔یہ سب ایک پرچم تلے اکٹھے ہوتے ہیں ۔وہ پرچم ہے لاالٰہ الاللہ   کا ۔ وہ ایسا اسلئے کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے یہ یاد دہانی کرائی ہے کہ تم لوگ اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے ابراہیم کیلئے بیت اللہ کی جگہ ٹھکانے کیلئے اختیار کی تاکہ وہ میرے ساتھ کسی شئے کو شریک نہ ٹھہرائے اور وہ میرے گھر کو طواف کرنیوالوں ،قیام کرنیوالوں اور رکوع و سجود کرنیوالوں کیلئے پاک و صاف کرے۔حاجیوں کا یہ اجتماع ہمیں اسلام کی اس عظمت کی یاد دلاتا ہے جسکے بموجب اسلام دنیا کے تمام لوگوں کے درمیان پائے جانیوالے فرق کو مٹادیتا ہے کہ حج میں کسی کے درمیان کوئی فرق نہیں رہتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی ہدایت ہمیں سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 13میں دی ہے:
    ’’ اے لوگو! یقیناہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمہیں اقوام و قبائل کی صورت میں بنایا تاکہ تم ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرو،یقین رکھوکہ تم میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محترم وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ خداترس ہو،یقینا اللہ تعالیٰ بڑا علم رکھنے والا اور بڑا باخبرہے۔‘‘
    ہمیں اپنے بچوں کو یہ بھی بتانا ہے کہ حج کا اجتماع بڑے فوائد والا اجتماع ہے، اس میں صبر کے معانی اجاگر ہوتے ہیں۔اہل و عیال سے دوری پر صبر، احباب سے فراغ کا صبر، مناسک حج ادائیگی میں پیش آنیوالی مشکلات میں صبر، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہنے پر صبر،مختلف اخلاقیات اور عادات و اطوار پر صبر،یہ سب کچھ ہمیں حج کے اجتماع سے حاصل ہوتا ہے۔ حج ہمیں عزم بھی سکھاتا ہے اور سنجیدگی کا بھی درس دیتا ہے۔ حج ہمیں تازہ دم بھی رکھتا ہے اور کسلمندی سے بھی بچاتا ہے۔ حج میں نہ تو کسی کا مذاق اڑانے کا جواز ہے اور نہ کسی کی تضحیک کی اجازت ہے۔ حج کے دوران انسان کا نفس پاکیزگی کے نقطۂ عروج کو پہنچ جاتا ہے کہ ہر حاجی اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے ہمہ دم دوڑتا رہتا ہے۔
    حج موسم میں خداترسی کے ایسے معانی منکشف ہوتے ہیں جو عام دنوں میں نصیب نہیں ہوتے۔ اس موقع پر حاجی اپنے ہر عمل میں اللہ کی راست نگرانی کا ادراک بڑے اچھے طریقے سے کرتا ہے اسے یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی تمام حرکات و سکنات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی بھی کام کریگا اللہ تعالیٰ اسے دیکھ لیگا ۔اس سوچ کے تحت حاجی ایسا کوئی بھی کام کرنے سے گریز کرتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی لازم آتی ہو۔
    ہمیں اپنے پیارے بچوں کو حج سمیت ہر طرح کی عبادتوں سے روشناس کرانا ہے۔انہیں بتانا ہے کہ حج اسلام کی تمام عبادتوںکا مجموعہ ہے۔اس میں خیروبرکت اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے سوا کچھ بھی نہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے حج پر آنیوالوں کے حوالے سے فخر کا اظہا ر کرتا ہے، ان کی تعریف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے ان کے گناہ معاف کردیئے۔
     دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حج مبرور کی سعادت سے نوازے اور ہمارے اعمال صالحہ قبول فرمالے،آمین۔
مزید پڑھیں:- - - -  -تقبیل و استلام ، گناہوں کا کفارہ

شیئر: