اگر کوئی شخص متوفی کی جانب سے حج کرنا چاہے تو بالاتفاق جائز ہے، خواہ انتقال کرگئے شخص نے اپنی زندگی میں حج کیا ہو یا نہیں
* * * ڈاکٹرمحمد نجیب قاسمی سنبھلی۔ ریاض* * *
عازمین حضرات کو دوسرے کی جانب سے حج یا عمرہ کرنے کے مسائل سے واقفیت کی اشد ضرورت ہے، اس لئے اس موضوع سے متعلق چند احادیث نبویہ اور پھر ان احادیث کی روشنی میں علمائے کرام کی آراء تحریر کررہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مسائل سے واقفیت کے ساتھ حج وعمرہ کی ادائیگی کرنے والا بنائے، آمین ثم آمین۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے حجۃ الوداع کے موقع پر نبی اکرم سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حج فرض کیا ہے،میرا باپ بوڑھا ہے، سواری پر سوار نہیں ہوسکتا، کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کرسکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں! کرسکتی ہو (مسلم ،کتاب الحج)۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم نے ایک شخص کو شبرمہ کی طرف سے لبیک کہتے ہوئے سنا تو نبی اکرم نے اس شخص سے پوچھا: ’’شبرمہ کون ہے؟ ‘‘ اس شخص نے عرض کیا : میرا بھائی( یاکہا میرا رشتہ دار)۔ آپ نے پوچھا: ’’کیا تم نے اپنا حج ادا کرلیا ہے؟ ‘‘ اس شخص نے عرض کیا : نہیں۔ آپ نے فرمایا : ’’پہلے اپنا حج ادا کرو پھر شبرمہ کی طرف سے حج ادا کرنا۔ ‘‘(ابوداؤد ،کتاب المناسک، ابن ماجہ، صحیح بن حبان)۔ حضرت ابو رزین عقیلیؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ سے سوال کیا: ’’میرا باپ بوڑھا ہے، حج کی طاقت نہیں رکھتا ہے، نہ عمرہ کی اور نہ ہی اونٹ پر سوار ہونے کی (ان کیلئے کیا حکم ہے؟) ‘‘ آپ نے ارشاد فرمایا : ’’ اپنے باپ کی طرف سے حج اور عمرہ ادا کرو۔ ‘‘(نسائی،کتاب الحج، ترمذی)۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی لیکن مرنے سے قبل حج نہیں کرسکی ، کیا میں ماں کی طرف سے حج کروں؟۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’ہاں! ان کی طرف سے حج کرو، دیکھو اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تم ادا نہیں کرتیں؟ پس اللہ کا قرض ادا کرو، اللہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔‘‘ (بخاری،الحج والنذورعن ا لمیت)۔ حضرت عبداللہ بن بریدہ ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم کے پاس آئی اور سوال کیا کہ میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے اور انہوں نے زندگی میں کوئی حج ادا نہیں کیا، کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کرلوں؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا : ’’ ہاں! اپنی ماں کی طرف سے حج ادا کرو۔ ‘‘ (ترمذی)۔ حضرت جابر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ (حج بدل میں) ایک حج کی وجہ سے 3 آدمیوں کو جنت میں داخل فرماتا ہے، ایک مرحوم (جس کی طرف سے حج بدل ادا کیا جارہاہے)، دوسرا حج کرنے والا اور تیسرا وہ شخص جو حج کو بھیج رہا ہو (یعنی جو رقم خرچ کررہا ہے) ۔‘‘ (الترغیب والترہیب)۔ مذکورہ بالا ودیگر احادیث کی روشنی میں علمائے کرام کی رائے یہ ہے کہ : جس شخص پر حج فرض ہوچکا ہے اور ادا کرنے کا وقت بھی ملا لیکن ادا نہیں کیا تو حج کی ادائیگی اس کے ذمہ ہے۔ زندگی میں حج کی ادائیگی نہ کرنے پر موت سے قبل حج بدل کرانے کی وصیت کرنا واجب ہے، اگر بلا وصیت کرے مرجائے گا تو گنہگار ہوگا۔ اگر کوئی شخص‘ کسی انتقال کرگئے شخص کی جانب سے حج بدل یا عمرہ بدل کرنا چاہے تو یہ بالاتفاق جائز ہے، خواہ انتقال کرگئے شخص نے اپنی زندگی میں حج یا عمرہ ادا کیا ہو یا نہیں البتہ حج بدل یا عمرہ بدل کرنے والا اپنا حج یا عمرہ ادا کرچکا ہو۔ اگر کوئی شخص‘ کسی ایسے زندہ شخص کی جانب سے حج یا عمرہ کرنا چاہے جو انتہائی بوڑھا اور کمزور ہوچکا ہے یا دائمی مریض ہے جس کا سفر کرنا مشکل ہے تو یہ بھی بالاتفاق جائز ہے خواہ وہ معذور شخص پہلے حج یا عمرہ ادا کرچکا ہو یا نہیں البتہ حج یا عمرہ بدل کرنے والا اپنا حج یا عمرہ ادا کرچکا ہو۔ اگر کوئی شخص‘ کسی زندہ، صحت مند وتندرست شخص کی جانب سے حج یا عمرہ کرنا چاہے تو اس سلسلہ میں علمائے کرام کا اختلاف ہے مگر احتیاط اسی میں ہے کہ زندہ، صحت مند وتندرست شخص کی طرف سے حج یا عمرہ بدل نہ کیا جائے۔ عورت ،مرد کی طرف سے اور مرد ،عورت کی طرف حج یا عمرہ بدل کرسکتا ہے۔ حج بدل کی ادائیگی کا طریقہ وہی ہے جو اپنی طرف سے حج کی ادائیگی کا ہے سوائے نیت کرتے وقت کم از کم یہ ذہن میں رہے کہ کس کی جانب سے حج بدل کیا جارہا ہے۔جس کی جانب سے حج کی ادائیگی کی جارہی ہے احرام کے وقت اُس کی جانب سے زبان سے نیت کرنابہتر ہے۔ حج بدل میں قربانی اُس شخص کی جانب سے ہوگی جس کی جانب سے حج کی ادائیگی کی جارہی ہے۔ حج کی تینوں اقسام (تمتع، قران اور افراد) سے حج بدل کیا جاسکتا ہے البتہ بعض اختلافی مسائل سے بچنے کیلئے حج بدل میں حج افراد کرنے میں احتیاط زیادہ ہے، اگرچہ حج تمتع یا حج قران بھی حج بدل میں جائز ہے۔ حج بدل یا عمرہ بدل کی ادائیگی کی اجرت (یعنی اخراجات کے علاوہ) کا مطالبہ کرنا جائز نہیں البتہ حج بدل کرانے والا حج بدل کرنے والے شخص کو اخراجات کے علاوہ اپنی مرضی سے ہدیۃً کچھ پیش کرے تو اس کا لینا جائز ہے۔ ایک حج یا عمرہ میں ایک ہی شخص کی جانب سے نیت کی جاسکتی ہے، یعنی متعدد اشخاص کی جانب سے ایک حج یا عمرہ نہیں کیا جاسکتا ۔ حج بدل (فرض) کی ادائیگی کیلئے چند شرطیں ہیں جو عموماً کتابوں میں مذکور ہیں لیکن حج بدل (نفل) کیلئے وہ شرائط ضروری نہیں ، مثلاً کوئی شخص اپنے متوفی والد کی جانب سے حج بدل کرنا چاہتا ہے اور والد پر ان کی زندگی میں حج فرض نہیں تھا تو یہ شخص جب چاہے اپنے والد کی جانب سے حج بدل (نفل) کرسکتا ہے خواہ والد نے وصیت کی تھی یا نہیں۔ حج یا عمرہ بدل میں احرام کس میقات سے باندھا جائے؟ حج یا عمرہ بدل کرنے والا اپنی میقات سے احرام باندھے یا پھر جس شخص کی جانب سے حج یا عمرہ ادا کیا جارہا ہے، اس کی میقات سے احرام باندھے ؟ مثلاً کوئی شخص سعودی عرب میںمقیم ہے، اپنے بوڑھے والد جو ہندوستان یا پاکستان میں ہیں ان کی طرف سے حج یا عمرہ کرنا چاہتا ہے تو کیا حج یا عمرہ بدل کرنے والے کیلئے ہندوستان یا پاکستان میں رہنے والوں کی میقات یعنی یلملم سے احرام باندھنا ضروری ہے یا وہ اپنی میقات سے بھی احرام باندھ سکتا ہے۔ مسئلہ مختلف فیہ ہے، مگر اختلافات اور ایک میقات سے دوسری میقات پر جانے کی مشقت کو سامنے رکھ کر علمائے کرام نے اجازت دی ہے کہ حج یا عمرہ بدل کرنے والا اپنی میقات سے بھی احرام باندھ سکتا ہے۔