عارف علوی کا انتخاب ، مثبت پیغام
***سجاد وریاہ***
پاکستان تحریک انصاف کے نامزد امیدوار ڈاکٹر عارف علوی353 ووٹ لے کرصدرپاکستان منتخب ہو چکے۔ ڈاکٹر صاحب پاکستان کے تیرھویں صدر بنے ہیں۔ان کے مخالف امیدواروں ،مولانا فضل الرحمان اور چوہدری اعتزاز احسن نے بالترتیب185 اور124 ووٹ لئے۔پیپلز پارٹی نے کمال کی چال چلی کہ اعتزاز احسن کو اپنا امیدوار نامزد کر دیا ۔ متحدہ اپوزیشن کے حامی بھی رہے۔پچھلے ہفتہ وار کالم میں یہ تجزیہ پیش کر چکا ہوں کہ زرداری اپنا امیدوارکبھی واپس نہیں لیں گے ،کیونکہ اگر انہوں نے واپس لینا ہوتا تو متحدہ اپوزیشن کے ساتھ مشورے کے بعد ہی کوئی متفقہ امیدوار نامزد کرتے۔زرداری سیاسی شطرنج کے ماہر کھلاڑی ہیں۔ان کی چالیں بہت معنی خیز اور سمجھدار ہوتی ہیں۔ان چالوں کے بعد وہ بارگین کی پوزیشن کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور بالآخر اپنے مشکل وقت کو ٹالنے میں کامیاب رہتے ہیں۔اس بار بھی انہوں نے مولانا اور شہباز شریف کے شدید ترین اصرار کے باوجود اپنا امید وار واپس نہیں لیا۔دو نشستوں پر شکست کے بعد مولانا بہت اپ سیٹ نظر آتے ہیں۔خاص طور پر کے پی کے میں مولانا کی جماعت کی بھر پور ناکامی کے بعد مولانا کو اپنا سیاسی مستقبل مخدوش نظر آنے لگاہے۔ سمجھتا ہوں کہ نئی حکومت مسلسل اچھی خبریں دے رہی ہے جو ابتدائی وقت میں حوصلہ افزا ہی کہی جا سکتی ہیں۔
مقامِ صد مسرت و اطمینان ہے کہ25 جولائی کو شروع ہونے والا تبدیلی کا سفرمسلسل جاری ہے۔تبدیلی کارواں،حیرتیں سمیٹے ،مسلسل امیدوں ،خوشیوں اور دلفریب اُمنگوں کی وادیوں میں داخل ہو چکا ہے۔تحریک ِانصاف کا یہ اعجاز ہے کہ اس نے اپنے کارکنوں ،رہنماوٗں اور ساتھیوں پر اعتماد کا اظہار کیا اور ان کی مسلسل22 سالہ جدوجہد کی قدر کی ۔ان کو قابل اعتماد عہدوں اور باعثِ عزت قلم دان سونپے۔ ڈاکٹر عارف علوی کا پاکستان کے تیرھویں صدر کی حیثیت سے منتخب ہونا ،تحریک انصاف اور عمران خان کی نظریے کی سمت کا پختہ ثبوت ہے۔ عمران خان کی ابتدائی تقریر اور بعد میں ان کے اقدامات سے تو یہی لگتا ہے کہ درست جانب قدم اُٹھا رہے ہیں۔ عارف علوی تحریک ِانصاف کے دیرینہ کارکن ہیں اور صاف شفاف شہرت کے مالک ہیں۔سب سے بڑی بات ان کا تعلق پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے ہے۔کراچی ،خوبصورت ،پڑھے لکھے اور باشعور لوگوں کا شہر ہے۔اس شہر نے پاکستان کو پہچان دی ،ادیب دئیے۔ عالمی شہرت یافتہ فنکار دئیے۔کراچی نے ہمیں ذہین لوگ دئیے جنہوں نے پاکستان کو سنوارنے میں بہت اہم اور بنیادی کردار ادا کیا۔کراچی نے معیشت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ بدقسمتی سے کراچی کئی حوالوں سے نظر انداز ہو تا رہا ہے۔کراچی کو برباد کرنے میں ایم کیو ایم نے بڑا ظلم کیا اور پاکستان کے اداروں نے بھی کراچی کو بے سہارا چھوڑ دیا ۔الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے رحم و کرم پر چھوڑے رکھا ،جس سے کراچی کے غیور عوا م مشکل حالات میں دھنستے چلے گئے۔ایم کیو ایم کے بانی نے مہاجروں کا نام استعمال کیا اور ایجنڈا غیر ملکی نافذ کرنے کی کو شش کی۔الطاف حسین نے جہاں کراچی کے عوام پر ظلم کیا اور نفرتیں پیدا کیں،وہاں عالمی سطح پر بھی پاکستان کی بدنامی ہوئی۔بلاشبہ پاکستان میں طبقاتی تفریق کے باعث محرومیاں موجود ہیں جن کو مثبت سوچ اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ایم کیو ایم کے دورِفتن کے بعد کراچی کے حالات بہتر ہونے شروع ہو چکے ہیں تمام طبقات ایک دوسرے کے قریب آچکے ہیں اور اداروں کی کارکردگی اور اعتماد بحال ہو چکا ہے۔ایسے میں نئی سیاسی سرگرمیوں نے کراچی کے ماحول کو بد ل دیا ہے۔تحریک انصاف سندھ کی دوسری بڑی پارٹی بن کے اُبھری ہے۔تحریک انصاف شروع سے ہی کراچی کے حالات کو بدلنے کا ارادہ رکھتی تھی ،اس نے اپنے وعدے پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے۔
ڈاکٹر عارف علوی کو بطور صدر کامیاب کروانا کئی حوالوں سے پاکستان اور کراچی کے لئے بہت مثبت پیغام ہے ،پہلی بات تویہ کہ صدر پاکستان ایک متحرک شخصیت ہیں اور کراچی کے مسائل کو جانتے ہیں۔ سیاسی کارکن ہیں اور کراچی کی سیاسی پارٹیوں اور شخصیات سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں۔ان کی شخصیت سادہ،عوامی اورآسان ہے۔ان کو سمجھنے میں اور سمجھانے میں کوئی خاص دقت محسوس نہیں ہو گی۔دوسرا یہ کہ سندھ اور کراچی کو ایک قومی وفاقی عہدہ دینا ان کے عظیم کردار کا اعتراف ہے۔تمام قومی سطح کی سیاسی اتحادی پارٹیوں نے تحریک انصاف کے نامزد امیدوار کو ووٹ دے کر اعتماد کا اظہار کیا ہے ،بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ تمام صوبوں کی اتحادی پارٹیوں نے حقیقی معنوں میں تبدیلی کو موقع دیا ہے۔بلوچستان عوامی پارٹی ،اختر جان مینگل،ایم کیو ایم پاکستان،سندھ میں گرینڈ الائنس اور مسلم لیگ قاف کے ممبران نے عارف علوی کو کا میاب کروا کر تحریک انصاف کو مرکز میں مضبوط کر دیا ہے۔
ڈاکٹر عارف علوی نے صدر بننے کے بعد اعلان کیا ہے کہ وہ اتحادیوں کے شکر گزار ہیں اور ان کی امیدوں پر پورا اترنے کی کوشش کریں گے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ عوام کے مسائل حل کرنے اور غربت کو دور کرنے میں بہت اہم کردار اد ا کروں گا ۔مطلب کہ وہ قومی خدمت کے جذبے سے بھر پور ہیں ۔ماضی کے صدور کی طرح ایک ڈمی کاکردار نہیں بنیں گے۔صدر صاحب کو وزیرِاعظم کا اعتماد بھی حاصل ہے ،عمران خان بھی ایک متحرک صدر کو ہی دیکھنا پسند کریں گے۔
صدرپاکستان کے انتخاب سے قبل تحریک انصاف کے قائدین کی چاروں صوبوں میں تمام اتحادی رہنماوٗں سے ملاقاتیں بھی قابل ستائش ہیں ،ایک قومی جذبہ دیکھنے کو ملا ۔لاہور ،کوئٹہ اور کراچی کی ملاقاتیں تو بلاشبہ دوسری سیاسی جماعتوں اور قائدین سے فاصلے کم کرنے میں معاون ثابت ہوئیں۔چوہدری پرویز الٰہی اور اختر مینگل نے صدر پاکستان عارف علوی کو بہت عزت و احترام دیا بلکہ ان کے لئے ووٹ مانگے۔صدر صاحب ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیت ہیں ،بطور صدر تمام اپوزیشن جماعتوں سے بھی بھر پور تعلق رکھیں گے اور جمہوری روایات اور اقدار کے مطابق خود کو صرف تحریک انصاف کا ہی نہیں پورے پاکستان کا صدر تسلیم کروائیں گے۔عارف علوی سے ہم امید کرتے ہیں کہ وہ کراچی کے مسائل کو حل کرنے میں صوبائی حکومت کو مکمل تعاون فراہم کریں گے۔صوبہ سندھ کے عوام کو بھی بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔وہاں تعلیمی ،معاشی اور فلاحی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔تحریک انصاف کے مخالفین بھی اب چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف کو کچھ عرصہ موقع دیا جائے اور جو غلطیاں کریں ان کو ایشو نہ بنایا جائے ۔تحریک انصاف کے خلاف یہ نقطہ اہم ہے کہ ان کے وزراء اور ممبران اسمبلی غیر تجربہ کار اور جذباتی ہیںجبکہ ان کے مخالفین تجربہ کار اور گھاگ ہیں ۔ایک ہی چیز ہے جو ان کو ثابت قدم رکھ سکتی ہے ،کارکردگی اور احتیاط۔ان کی کارکردگی ہی ایک مستقل اور صائب جواب ثابت ہو سکتا ہے۔وزیر اعظم عمران خان اور پارٹی قیادت ،جیت کے بعد بہت عمدگی سے کھیل رہے ہیں۔ان کی کامیابی ہی قوم کی کامیابی ہے۔ہم صدر پاکستان کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور ان کی امنگوں کی تکمیل کے لئے دعا گو ہیں۔