Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میڈیا با عزت اور لالچی صحافیوں میں منقسم

***سجاد وریاہ***
جان کی امان پاوٗں تو عرض کروں کہ کون سا شعبہ ہے کہ زوال کو نہیں چھو رہا ؟کیا حکومت کیا بیوروکریسی کیا سیاست دان کیا صحافی ،کون ہے جوکرپشن اور زوال کی پاتال کو نہیں چُھو رہا؟چند محترم نام چھوڑ کر ہر کوئی اپنی دہاڑی لگانے کے چکر میں ہے،حیران ہوں کہ ہواوٗں کا رخ بدلتے دیکھ کر انہوں نے اپنے آسمانوں تک لپکتے چراغوں کی لو کو مدھم کر لیا ہے۔کچھ نے چُپ سادھ لی ہے اور کچھ تو ابھی تک حقِ نمک ادا کرنے میں مگن ہیں ۔کئی میرے ’’آئیڈیل ‘‘تو ایسی چالیں چل رہے ہیں کہ ایک کالم پرانی حکومت کے لئے اور دوسرا نئی حکومت کے نام کئے جا رہے ہیں۔ان میں سے کئی تو ڈھٹائی کے مینار کھڑے کیے جا رہے ہیں۔الامان الحفیظ ۔کئی کالم نگار تو باقاعدہ سرکاری عہدوں کے عوض باقاعدہ چاپلوسی کی تاریخ رقم کرتے رہے ہیں،کچھ تو ابھی بھی کر رہے ہیں۔ایک کہانی کار ہیں کہ کہانی کا رخ موڑتے ہوئے اپنی وفاداری کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے مریم نواز،کیپٹن صفدر اور نواز شریف کا نام جپتے رہنے کی پوری مشق کرتے رہتے ہیں ،ایک نے تو بیماری کی کہانی ایسی گھڑی کہ نواز شریف کے گردے ہیں کہ بس فیل ہوا جاتے ہیں،پھر چالاکی سے بیلنس کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں،جناب عطاء الحق قاسمی اینڈ سنز کی تو نسلی اور وراثتی ذمہ داری ہے کہ نمک حلالی کا مشن جاری رکھا جائے ،ان کا تو بنتا ہے وہ کھل کر نمک خوارگی کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔عرفان صدیقی اینڈکمپنی تو سرکاری تنخواہ دار لیکن ملازم ذاتی ہیں،اس اعزاز کو سینے پر تمغے کی طرح سجائے رکھتے ہیں۔کوئی خفت کوئی شرمندگی کوئی ندامت ،مجال ہے نظر آجائے ۔وہ بھی اسی قبیلہ کے تنخوادار اور نمک خوار ہیں جو کرپشن کے مال کو ’’الحمدُللہ ہمارے ہیں ‘‘کہہ کر جسٹیفائی کرتے ہیں۔طلعت حسین خود کو واحد جمہوریت پسند سمجھتا ہے،ایسی تال اٹھاتا ہے کہ جذبہ وفاداری قابل دید ہوتا ہے۔
ایک منظر قابلِ غور ہے کہ جب  نواز شریف اور مریم لندن میں تھے تو محترمہ کلثوم نواز کی بیماری کا ایسا ڈنکا بجایا جاتا کہ جیسے محترمہ کلثوم نواز چند لمحوں کی مہمان ہیں اور یہاں ان کے نمکخوار آسمان سر پر اُٹھا لیتے لیکن جب سے یہ لوگ جیل میں پہنچ گئے تب سے ایسے ہے کہ سب خیریت ہے،کوئی خبر نہیں،کوئی ٹویٹ نہیں اور میڈیائی نمک خوار بھی چپ ہیں ،جب اشارہ ملے گا ان کی پھر تیاں قابل دید ہونگی۔مقامِ حیرت ہے کہ کمال ڈھٹائی سے خود کو تجزیہ نگار بھی لکھتے ہیں ،بھئی کیسے تجزیہ نگار ؟قصیدہ گو کہنا بہت برمحل ہے،تجزیہ نگار تو حالات کا تجزیہ کرتا ہے،مثبت اور منفی پہلووٗں کا ذکر کرتا ہے۔تجزیہ نگار کے نزدیک ملک،ریاست،وطن ،آئین اور جمہوریت بر محل ہوتا ہے جبکہ قصیدہ گو کے نزدیک شخصی خوشنودی اہمیت رکھتی ہے۔ایک صاحب جو عمران خان کے بغض میں ایسی کہانیاں گھڑتے ہیں کہ باقاعدہ ان کو مِرگی کے دورے پڑنے کا’’ گمان‘‘ہوتا ہے ،اپنی مخصوص اردو میں ایسے نمک حلالی کرتے ہیں کہ ان کی حالت پر ترس آنے لگتا ہے کہیں کسی دن عمران خان کے حسد میں خود کو نقصان نہ پہنچا لیں۔اس لئے انکو کسی ذہنی امراض کے اسپتال میں داخل کرا دینا چاہئیے۔بد قستی سے میڈیا اس وقت کئی حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے،ایک حصہ بہت باعزت،دانشور طبقہ اور بیلنس رائے کے اظہار کے حوالے سے اپنا مقام رکھتا ہے ،جس کی پوری قوم عزت کرتی ہے۔دوسرا حصہ ذاتی مفادات،لالچ اور عہدوں کا اسیر ہو چکا ہے۔جس کو نظر آتا ہے کہ عمران خان کی حکومت میں کرپشن،سفارش،اور سہولیات سے محروم ہونا پڑے گا ،جس کی عادت نوازشریف نے ڈال رکھی تھی،اس دکھ میں وہ بھی عمران خان کے خلاف کمر بستہ ہے،کئی ہسپتالوں کے ترجمان بنے ہوئے تھے کئی ریلوے میں پی آر او کی سیٹوں سے چمٹے ہوئی یہ جونکیں اب تلملا رہی ہیں ۔ان بے حس و بے ضمیر لوگوں نے شام کو اخلاقیات کا درس دینے کے لیے اپنی دکانیں بھی سجا رکھی تھیں جہاں بیٹھ کر اپنے آقاوٗں کو خوش کیا جاتا بلکہ خوشامدی کالم بھی لکھے جاتے،پھر متعلقہ مہربانوں کو واٹس اپ کیے جاتے ہیںاور داد وصول کی جاتی ہے۔تحریک انصاف کی حکومت سے ان کی دشمنی بنتی ہے کیونکہ ان کے کھابے بند ہو گئے ہیں اور غیر ملکی دورے بھی۔ان کالم نگاروں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جن کو ہر چیز کے پیچھے فوج نظر آتی ہے،ن لیگ کا کمال یہ کہ انہوں نے سرمایہ کاری کر کے ایسا طبقہ پیدا کر دیا ہے۔کچھ ہیں کہ وفا کے پیکر ہیں۔نوازشریف کی خامی کو خوبی بناتے ہیں اور عمران کی خوبی بھی نظر نہیں آتی۔
میں تو حیران ہوں کہ یہ کس کردار کے لوگ ہیں ،جن کو میں آئیڈیلائز کرتا رہا ہوں۔اب تو گھن آنے لگی ہے ،ان کو دیکھتے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ کیا بات کرنے والے ہیں۔اس زوال کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ایک تو یہ کہ ان کی تحریر کا معیار پست ہو گیا ہے ،لالچ نے رفعت سے نیچے دے مارا ہے  یا پھر میں بڑا ہو گیا ہوں ۔مجھے ان کی دکانداری کی سمجھ آنے لگی ہے،کئی تو ایسے ہیں کہ ان کی رائے کا اختلاف ،ذاتی نفرت میں بدل چکا ہے۔ان کو اپنی رائے نہیں دینی چاہئے کہ وہ تعصب آلود ہوچکی ہے۔۔چند آزاد خیال،اپنی رائے رکھنے والے محترم نام ہیں کہ آج بھی ان کو سلام پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ان کی تحریر ہے کہ سچائی کی خوشبو سمیٹے ایک لمبی پگڈنڈی پر رہنمائی کرتی نظر آتی ہے ،ان شخصیات کو تعصب،لالچ اور عہدہ بالکل بھی اپنی راہ سے متزلزل نہیں کر سکا،قوم بھی ان کو سلام پیش کرتی ہے۔ان کی ہمت کو سلام کہ حکومت وقت کے اوچھے ہتھکنڈوں کے با وجود استقامت سے کھڑے رہے ۔
نوازشریف خاندان نے بیوروکریسی اور میڈیا میں اپنے وفا داروں کے جتھے تیار کئے ہوئے ہیں۔ان کو پلاٹس ،عہدے اور مراعات سے نواز رکھا تھا جس کی وجہ سے ہمارے کالم نگا ر جمہوریت کو نواز شریف میں دیکھنے کے لیے ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ابھی کل ہی واقعہ دیکھ لیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ہیلی کاپٹر سے دورہ پاکپتن کو ایسے اٹھایا کہ جیسے پاکستان کی تاریخ کا پہلا اور انوکھا واقعہ ہو۔  وزیراعظم عمران خان کے ہیلی کاپٹر کے استعمال پر ڈھول بجانے لگے ہیں ۔خاور مانیکا اور ڈی پی او کے تنازعے کو بھی خوب اٹھایا گیا،پہلی بات تو یہ کہ تحریک انصاف کی حکومت کو احتیاط کرنا چاہئے۔میڈیا کو بھی متوازن ،تعمیری اور مثبت کردار ادا کرنا چاہئے۔میں اپنی رائے اس بنیاد پر بھی قائم کر رہا ہوں کہ پنجاب میں حکومت کے لئے مسائل پیدا کئے جا رہے ہیں کیونکہ لاہور ہی پنجاب کی بیوروکریسی اور میڈیا کا مرکز ہے ،لاہور میں ن لیگ کا دس سالہ دور ان جتھوں کو پیدا کر گیا ہے۔پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں میں ایسے مسئلے میڈیا اور کالم نگار پیدا نہیں کر رہے ۔جتنے پنجاب میں پیدا ہو رہے ہیں۔میری رائے اور بھی مضبوط ہو گئی جب ان نمک خواروں نے نئی حکومت کے اچھے اقدامات کو بھی طنز کا نشانہ بنایا،سلیم صافی کو ہی دیکھیں کہ تحریک انصاف سے نفرت لئے بیٹھے ہیں ۔کیا سلیم صافی کا عمران خان سے تعصب کوئی ڈھکا چھپا ہے؟میری رائے میں اس وقت سلیم صافی اور عائشہ گلالئی میں کوئی خاص فرق نہیں رہا ،دونوں ہی عمران خان سے ناراضگی کو کیش کر رہے ہیں ،ایک سیاست میں اور دوسرا صحافت میں۔
میں تو ان محترم کالم نگاروں کو اپنا آئیڈیل سمجھتا ہوں لیکن یہ تو شخصیات کے وفادار نکلے ،ان کے قصیدے ،مجرم لوگوں کے اوصاف بیان کرتے ہیں ،ایسے لگتا ہے کوئی میراثی کسی چوہدری کے قصیدے بیان کر رہا ہو ۔مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ میرے لئے جو کالم نگار ہیں ،اپنے آقاوٗں کے میراثی بنے ہوئے ہیں،میرا گلہ تو بنتا ہے کہ میرے لیے کالم نگار اور تیرے لئے میراثی۔
 

شیئر: