پاکستان کی 71سالہ تاریخ میں امسال 6ستمبر کویوم دفاعِ پاکستان کے موقع پر انتہائی پروقار تقریب منعقد ہوئی جسے ملکی تاریخ میں سنہری حروف سے رقم کیاجائیگا۔اس تقریب میں جس نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا گیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ہمارے سیاسی ہوش سنبھالنے کے بعد سے آج تک یہی ہوتا رہا کہ ہر قومی دن پر بیانات داغے جاتے تھے کہ پاکستان کی فوج اور سیاستداں دونوں ایک پیج پر ہیںتاہم ایسا صرف سنا جاسکتا تھامگر دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ہمیں عام جھام پاکستانی ہونے کے ناتے اپنی پیدائش سے لے کر 5ستمبر 2018ء تک وہ ’’پیج‘‘ کہیں نظر ہی نہیں آ سکا جس پر فوج اور سیاستداں دونوں آگے پیچھے یا ساتھ ساتھ دکھائی دیتے مگر پھر یوں ہوا کہ اپنی ادھیڑ عمری میں 6ستمبر 2018ء بھی آگیااور ہم نے زیر آسماں ’’قرطاسِ وطن‘‘ پرسیاسی اور فوجی سربراہوں کو شانہ بشانہ دیکھا۔ یہ ایسی تقریب تھی جس میں عوام بھی تھے، خواص بھی، عسکری بھی تھے اور شہری بھی، سہاگنیں بھی تھیں اور شہدائے وطن کی بیوائیں بھی،اس کے باوجود تخصیص کوئی نہیں تھی کیونکہ یہاں سب کے سب صرف اور صرف پاکستانی تھے جو یک زباں ہو کر کہہ رہے تھے کہ ’’ہمیں پیار ہے پاکستان سے‘‘۔اس تقریب کے مناظر دیکھ کر ہمارے دل کے جزیرے میں حب الوطنی کا سونامی اٹھا اور خرد کے ساحلوں سے ٹکرا گیا۔ ہم نے پاکستان کے ہم عمر، صاحب فہم و فراست، انتہائی نفیس انسان ،ذی شان خان کو اپنی کیفیت سے آگاہ کیا اور ان سے سوال کیا کہ ہم نے اپنی زندگی میں ان گنت تقاریب دیکھیں، متعدد میں شرکت کی مگرآج ہمارے احساسات و جذبات پر جو کچھ بیتی، ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا ، اس کا سبب کیا ہے ؟انہوں نے کہا کہ آج تک آپ نے قوم اور وطن کے حوالے سے جتنی تقاریب دیکھیں یا سنیںوہ سب کی سب تشکیل پاکستان کے اظہار کیلئے تھیں،امسال یوم دفاع پر بپا کی جانے والی تقریب تکمیل پاکستان کے عزم کی پہلی تقریب تھی۔یہ اس حقیقت کا اعلان تھا کہ ’’تبدیلی آ چکی ہے ‘‘ اور نیا پاکستان بھی وجود میں آچکاہے ، آئندہ قومی ایام پر جو بھی جشن ہوگا وہ تکمیل پاکستان کی جانب کامیاب سفر کا اظہار ہوگا۔
6ستمبر کے یوم دفاع سے ایک روز قبل 5ستمبر کو امریکی وزیر خارجہ پومپیو اپنے وفد کے ہمراہ پاکستان کے دورے پر آئے۔ انہیں جہاز کی سیڑھیوں سے اسلام آباد کے ہوائی اڈے پرقدم رکھنے سے پہلے ہی پتا چل گیا کہ پاکستان میں ’’تبدیلی‘‘ آ چکی ہے۔ 25جولائی، پرانے پاکستان کا آخری اور نئے پاکستان کا پہلا دن تھا۔پومپیو دل میں سوچ رہے ہوں گے کہ کاش آج24جولائی ہوتی تاکہ ہم اس نئے انداز کے استقبال کا شکار ہونے سے محفوظ رہتے ۔
پومپیو اور ان کے ہمراہی وفد کوپاکستان کے چند گھنٹے کے دورے کے موقع پرقدم قدم پر یہ احساس دلایا گیا کہ آپ نئے پاکستان کے دورے پر ہیں۔ ماضی میں کسی بھی سپر ڈوپر پاور کے کسی بھی عہدیدار کا دورۂ پاکستان ہوتا تو وہ حکومت، حزب اختلاف اور اسٹیبلشمنٹ ، تینوں کے ذمہ داران سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کرتے۔ ان ملاقاتوں کا انجام یہ ہوتا کہ تینوں ذمہ داران کے مابین بداعتمادی پیدا جاتی۔ پومپیو یہی سمجھ کرآئے تھے مگر یہاں توانہیں ایسی صورتحال سے پالا پڑا جو سپر پاور کے عہدیداران نے خواب میں بھی نہیں سوچی تھی۔پومپیو اور ان کے ساتھی وفد کے ارکان ایک کمرے میں تشریف فرما تھے، ان سے ملاقات کرنے کیلئے پہلے عمران خاں داخل ہوئے، ان کے ساتھ آرمی چیف اور دیگر اہم عہدیداران آن موجود ہوئے۔ مہمان حیران تھے کہ میزبان تو اکٹھے ہیں، یہ تو سنتے بھی ایک ساتھ ہیں ، بولتے بھی ایک ساتھ ہیں، سمجھتے بھی ایک ساتھ ہیں اورسمجھاتے بھی ایک ساتھ ہیں۔
امسال یوم دفاع کی عظیم تقریب میں وزیر اعظم عمران خان نے جب اپنی تقریر کی ابتداء میں ہی 6ستمبر 1965ء کا ذکر کیا تو ہمیں ایسا لگا جیسے روسٹرم سے عمران خان کی نہیں بلکہ ہم جیسے محب وطن پاکستانی کی صدا بلند ہو رہی ہے۔ انہوں نے وہی کچھ کہا جو ہم آج سے پہلے بھی کہہ چکے اور لکھ چکے ہیں ۔ وہ بھی لاہور میں تھے اور ہم بھی لاہور میں۔ وہ زمان پارک میں تھے اور ہم مزنگ میں۔انہوں نے جب دشمن کی جانب سے لاہور میں چھاتہ بردار اتارے جانے کی ’’افواہ‘‘ سنی تو وہ دفاع وطن کے جذبے سے معمور ہو کر ہتھیارلئے زمان پارک میں چھاتہ بردارکو تلاش کرنے کیلئے نکل کھڑے ہوئے ، ادھر ہم بھی دفاع وطن کے جذبے سے سرشار ہو کر لوہے کا پائپ اٹھا کرمزنگ کی گلیوں میں دشمن کے چھاتہ بردار کو ٹھکانے لگانے کے لئے نکل پڑے ۔
ہمیں بے حد خوشی ہوئی کہ ہمیں ایک ایسے وزیر اعظم ملے ہیں جن میںوطن عزیز سے والہانہ محبت جیسی ’’عوامی کیفیات‘‘ پائی جاتی ہیں۔یہ سوچ کر ہمارا دل بلیوں اچھلنے لگتا ہے کہ ہم میں اور وزیر اعظم میں حب وطن کے حوالے سے کتنی مماثلت پائی جاتی ہے۔وہ تو یوں ہو گیا کہ ادھرہم اچھے ریڈر بنے اور اُدھر عمران خان اچھے لیڈر بنے، پھر یوں ہوا کہ ہم صحافی بن گئے اور عمران خان وزیر اعظم۔
ہم نے آج اپنی دلی کیفیات ذی شان خان کے سامنے بیان کیں تو وہ کہنے لگے کہ یہی تو نیا پاکستان ہے جس میں وزیر اعظم بھی وہی سوچتا ہے جو عوام سوچتے ہیں۔وزیر اعظم اپنے آپ کو عوام سمجھتے ہیں اور عوام خود کو وزیر اعظم۔ یہی تو ہے تشکیل پاکستان سے تکمیل پاکستان کی جانب سفر۔نیا پاکستان مبارک۔