ہمارے وطن عزیز میں تعلیم ہرکسی کو میسر نہیں بلکہ بمشکل 35فیصد لوگ ہی ایسے خوش قسمت ہیں جنہیں اسکولوں، کالجوں تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ الحمدللہ! ہم بھی ان خوش قسمتوں میں سے ایک ہیں جنہیں کسی نہ کسی طور ایسے چپے میں اپنی زندگی کے معصوم و مظلوم ایام گزارنے کا موقع ملاجسے عرف عام میں اسکول کہا جاتا تھا۔ہمارے ہاں کے سارے سرکاری اسکول دنیا بھر کے پسماندہ، غیر ترقی یافتہ اور غریب ممالک کے اسکولوں کی طرح نہیں ہوتے کہ جن میں چہار دیواری لازمی ہو، کمروں کی موجودگی ضروری ہو،چھت کا وجود ناگزیر ہو۔اس کا سبب یہ ہے کہ ہم نخرے کرنے والی قوم نہیں ہیں۔ ہم توکسی در و دیوار و سقف کے بغیر خاک نشیں ہو جاتے ہیں اورچیخ چیخ کر ’’ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار‘‘کہتے ہوئے’’ علم و آگہی ‘‘ کے حصول کی تگ و دو میں جُتنے کا فن جانتے ہیں۔ایسے ہی ا یک ’’چپے‘‘ پر ہم اس طرح براجمان تھے کہ ٹاٹ کا ایک چیتھڑا ہمارے وجوداور ارضِ وطن کے درمیان حائل تھا۔مس شکیلہ ہمیں علم کے نام پر آگہی عطا کر رہی تھیں۔ انہوں نے ہمیں ہماری قومی زبان ’’اردو‘‘ سے آشنا کرتے ہوئے یہ عقدہ وا کیا کہ ہمارے آباء نے اپنی گفتگو کے دوران بعض باتیں اس انداز میں دہرائی اور تہرائی ہیں کہ وہ نہ صرف زباں زدِ عام ہوئیں بلکہ ایک مثال بن کر لغت میں شامل ہوگئیں۔ ان میں سے کچھ کو کہاوت، کچھ کو ضرب المثل اور کچھ کو محاورہ کہا جاتا ہے ۔ مس شکیلہ نے اس روز ہمارے سامنے ایک محاورہ پیش کیا اور پھر اس کی مثالیں بھی دیں۔ انہوں نے ہم سے کہا کہ آپ لوگوں نے اپنے گھر میںیہ جملہ تو ضرور سنا ہوگا کہ ’’تم نے خواہ مخواہ ہی فلاں کو سر پر چڑھا رکھا ہے ‘‘۔ یہاں ’’سر پر چڑھانا‘‘ ایک محاورہ ہے ۔ یہ وہ محاورہ ہے جو عموماً بیگمات اپنے شوہر کو سناتی ہیںاوراس سے مراد اپنے شریک حیات پریہ عیاں کرنا ہوتا ہے کہ ’’آپ اپنی بہن یعنی میری نند کے بہت لاڈ لڈاتے ہیں، آپ نے اسے سر چڑھا رکھا ہے۔‘‘ شوہر نامداریہ محاورہ کسی سزا یافتہ مجرم کی طرح گردن جھکائے سنتے ہیںاور جواباً ایک لفظ بھی نہیں بولتے۔مس شکیلہ نے کہا کہ اصل علم یہ نہیں کہ محاورہ کیا ہے اور اسے کہاں استعمال کرنا ہے بلکہ اصل آگہی تو یہ معلوم کرنا ہے کہ آخر یہ محاورہ وجود میں کیسے آیا۔اب ذرا چوکس ہو جائیے کیونکہ میں آپ کے سامنے اس محاورے کی اختراع کے پس پشت کارفرما ’’حقیقت ‘‘ بیان کر رہی ہوں۔ہوا یوں کہ:
آج سے 137برس قبل ایک راجہ کے ایک انتہائی بدعنوان، بد دیانت،بے ایمان مگر محب وطن وزیر نے ’’منی لانڈرنگ‘‘ کی۔محب وطن اس لئے کہ اس نے قومی خزانے سے رقم لوٹ کروطن میں ہی سہ منزلہ فلیٹ تعمیر کئے۔ اس نے کسی حسینہ، رقاصہ یا گلوکارہ کے ہاتھ خزانے سے چوری شدہ رقم بیرون ملک بھیج کر وہاں فلیٹس، ٹاورز یا بنگلے نہیں خریدے بلکہ اس بد عنوان انسان نے تواپنے ہی ملک میں خریداری کی ہے ۔بہر حال اس نے اپنے سہ منزلہ فلیٹس میں سب سے نیچے اپنے بوڑھے والدین کے رہنے کا انتظام کیا۔ اس سے اوپر پہلی منزل پر اس نے اپنی دلہن کے ساتھ رہنے کا انتظام کیا اور اس سے اوپر کا فلیٹ ایک استانی کو کرائے پر دے دیا۔وہ صبح کو اسکول چلی جاتی اور شام کو گھرواپس لوٹتی تو سیڑھیوں کے ذریعے اپنے فلیٹ میں اوپر چڑھ جاتی۔اس بدعنوان وزیر کی بیوی اکثر اپنے خاوند سے تو تکار کرتی اور کہتی کہ استانی کو تم نے سر پر چڑھا رکھا ہے ۔ ہم نیچے رہتے ہیں اور وہ ہمارے سر پر۔ وہ پنسل ہیل پہن کر اپنے کمرے میں چلتی ہے تو ٹکا ٹک کی آوازیں یوں آتی ہیں جیسے وہ ہمارے سر پر ٹہل رہی ہے ۔ وہ بدعنوان وزیرکہتا کہ استانی اوپر کی منزل میں رہتی ہے ۔ وہ اوپر جائے گی تو سیڑھیاں چڑھ کر ہی جائے گی ۔ وہ سیڑھیاں چڑھتی ہے اور آپ مجھے کہتی ہیں کہ میں نے اسے سر پر چڑھا رکھا ہے ۔ اسی دوران کہتے ہیں کہ بدعنوان وزیر نے اپنی کرایہ دار استانی کا خیال رکھنا شروع کر دیا ۔وہ خود بازار جاتا تو اس کا سودابھی لا دیتا ، کوئی لذیذ پکوان گھر میں بن جاتا تو وہ استانی کو بھی دے آتا۔ یہ عنایات کچھ عرصے جاری رہیں پھر یوں ہوا کہ بدعنوان وزیر نے استانی سے کئے جانے والے ’’عقد ایجار‘‘ کو ’’عقد نکاح‘‘ میں بدل دیا۔اب وہ اپنی پہلی بیوی سے کہتا تھا کہ اب آپ کہہ سکتی ہیں کہ میں نے استانی کو سر چڑھالیا ہے ۔
ہمیں اپنے اسکول کی بنیادی تعلیم آج یوں یاد آ رہی ہے کہ ہم نے جس طرح ’’سر چڑھانے ‘‘ کی حقیقت سے ہمیں مس شکیلہ نے آگہی عطا کی تھی اسی طرح ہمیں ’’تبدیلی‘‘ کی اصلیت بھی ہمیں معلوم ہوگئی ہے۔ تبدیلی سے مراد کسی منظر کا بدل جانا نہیں، کسی عمل کا بدل جانا نہیں، کسی نقشے کا بدل جانا نہیں بلکہ اس کا مطلب ہے سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کہنا شروع کر دینا، یا بڑے کو چھوٹا اور چھوٹے کو بڑا، میاں کو بیوی اور بیوی کو میاں، بچے کو بڈھا اور بڈھے کو بچہ کہنے لگنا، پاگل کو خرد مند اور خرد مند کو پاگل کہنا، گوری کو کالی اور کالی لڑکی کو گوری کہنا، بدعنوان کو ایماندار اور ایماندار کو بدعنوان کہنایہی اصل ’’تبدیلی‘‘ ہے۔ اس کی عملی مثال یوں ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کے ہمراہ ٹیکسی کی چھت پر توپ رکھ کر لے جا رہا تھا، پولیس نے اسے ناکے پر روکا، ٹیکسی سے اتار کر اس کی جیبیں ٹٹو لیں۔ کچھ نہ ملا تو اس کی بیوی کے پرس کی تلاشی لی اور اس میں سے نیل کٹر برآمد کیا جس کا ایک حصہ نوکیلا تھا، یہ دیکھ کر اس نے ’’اسلحہ برآمد گی‘‘ ظاہر کر دی۔ ٹیکسی کی چھت پر رکھی توپ کو اس نے اہم نہیں جانا۔اسے کہتے ہیں ’’تبدیلی‘‘۔ایسی ہی تبدیلی ہمارے الیکٹرانک میڈیا میں بھی آ چکی ہے ۔ اسے دنیا بھر میں پاکستان کی ابھرتی ہوئی باوقار شبیہ دکھائی نہیں دے رہی،پاکستان کے طرزعمل سے عالمی سوچ میں تغیر کا اسے ادراک نہیں، روس، امریکہ، چین ، ہندوستان اور ترکی وغیرہ کی نظر میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی اہمیت کا اسے احساس نہیں، اسے صرف اتنا پتا ہے کہ بنی گالہ سے پی ایم ہائوس تک ’’ہیلی کاپٹر سواری‘‘پراگر 55روپے کے اخراجات آتے ہیں تو عوام کیلئے میٹرو شیٹرو جیسے منصوبوں کی بجائے ہیلی کاپٹرسروس شروع کرنی چاہئے پھرزمین پر چلنے پھرنے والوںکوفضائوںسے آوازیں سنائیں دیں گی ’’گولی مار، واٹر پمپ، سخی حسن، ناگن ، ایک منٹ، دو منٹ، نئی کراچی سرجانی سرجانی۔جی ہاں! اب آپ کوپتا چلا کہ’’ تبدیلی‘‘کے اصل معانی کیا ہیں؟