Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’اب یہ بھی پاکستا ن ہے ‘‘

***شہزاد اعظم ***
ترسوں کی بات ہے، ہم اپنے ایک دوست کو بتا رہے تھے کہ پرسوں ہم نے لیپ ٹاپ کھولا اور انٹرنیٹ کی ایک سائٹ پر بطور زائر نمودار ہوئے اور وہاں مختلف نجی چینل ’’ٹٹولنا‘‘ شروع کر ویئے۔ کئی چینلوں کو اسکرین سے نابود کرنے کے بعد ایک نجی چینل پر ہم نے توقف کیااور اسے سننے کے ساتھ ساتھ دیکھنا بھی شروع کر دیا کیونکہ اس چینل پر جاری پروگرام میں ہماری ایک پسندیدہ معمر’’اینکرنی‘‘ موجود تھی۔ اس کو پسند کرنے کی وجہ کچھ اور نہیں صرف اور صرف یہ تھی کہ وہ نہ تو لفظ ’’مُدا‘‘ استعمال کرتی ہیں، نہ وہ ’’ان واقعات سے’’ جڑے‘‘ حقائق‘‘جیسی اصطلاح استعمال کرتی ہیں، نہ خوش آمدید کی جگہ ’’سواگت‘‘کی رٹ لگاتی ہیں اور نہ غصیلے کو ’’کرودھی‘‘ کہہ کر پکارتی ہیںبلکہ وہ خالص اردو بولتی ہیں۔ بہر حال ہم اپنی پسندیدہ اینکرنی کا پروگرام دیکھنے کے لئے اسی چینل پر’’ لنگر انداز‘‘ ہو گئے۔ وہاں ایک ’’نونی سیاستداں‘‘ تشریف فرما تھے جو ’’عمرانی حکمرانی‘‘ پر تابڑ توڑحملے کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تبدیلی کے دعوے کرنے والوں کو دیکھ لیجئے کہ انہوں نے نوجوانوں کو انہونے خواب دکھلا کر ، جھوٹے وعدے کر کے ، ناممکن باتیں کر کے ووٹ تو حاصل کر لئے، حکومت بھی بنا لی مگر دیکھ لیں، ابھی تک انہوں نے ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔ بتائیں انہوں نے جو کچھ کہا تھا اس میں سے کیا پورا کیا ہے ؟اس پر اینکرنی نے حیرت سے چیخیں مارتے ہوئے کہا کہ ’’نونی ‘‘رہنما صاحب، آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ ابھی تو عمرانی حکمرانی کو 96گھنٹے ہی ہوئے ہیں، ابھی سے آپ وعدوں کی تکمیل کا ثبوت مانگ رہے ہیں۔ نونی رہنما نے ایک اور تلملادینے والا جواب دیا کہ محترمہ! دیگ کا ایک چاول ہی دیکھا جاتا ہے ،ہم پاگل نہیں ہیں جو ’’عمرانی دیگ‘‘ کا ایک ایک چاول دیکھنا شروع کر دیں اور پانچ سال گزار دیں۔اینکرنی نے کہا کہ آپ نے تو سالہا سال گزار دیئے، کچھ نہیں کیاتو کوئی بات نہیں۔ انہوںنے کہا کہ اس وقت ہم حکومت میں تھے۔ اگر اپوزیشن نے اُس دور میں ا پنا کام نہیں کیا تو نہ سہی، ہم تو اپوزیشن میں رہ کر اپوزیشن کریں گے۔ابھی یہ پروگرام جاری تھا کہ ہماری آنکھ لگ گئی اور ہم خوابوں کی دنیا میں مصروف ہوگئے ۔ یہ ایک’’ محفل شاعرہ‘‘تھی جس میں قابل دیداور قابل شنیدشاعرات موجود تھیں۔ ان میں کوئی امیر کبیر خاندان کی’’ چشم و چراغ‘‘ تھیں، کوئی سیاسی خاندان کی ’’عین و شمع‘‘ اور کوئی غریب گھرانے کی ’’دیدہ و موم بتی‘‘۔ اس محفل شاعرہ میں ہم بھی ایک کھدرے میں مسند نشیں تھے۔وہاں کسی سیاسی گھرانے کی ’’نیک اختر‘‘نے سوال کیا کہ آپ لوگ موجودہ ’’ عمرانی حکمرانی ‘‘کا ماضی کی ’’نونی کارستانی‘‘سے موازنہ کیسے کریں گی؟ اس کے جواب میں ایک مہ جبیں نے اپنے خیال کو یوں سماعتوں کی نذر کیا کہ بحیثیت شاعرہ میں یہ کہنا چاہوں گی کہ عمرانی حکمرانی میں ہمارے لئے ہے بہت آسانی۔شریفانہ دور میں ہم شرافت سے کوئی شعر کہنے کے قابل ہی نہیں ہو پاتے تھے کیونکہ قافیہ بہت ہی تنگ ہوتا تھا۔ اب آپ ہی بتائیے کہ نونی دور میں یا تو قافیہ’’نواز‘‘ ہو سکتا تھایا ’’شریف‘‘ اور یا پھر’’میاں‘‘۔ اب آپ خود ہی دیکھ لیجئے کہ نواز کے ساتھ قوافی کیا ہوں گے یہی ’’ساز، باز، آواز، راز، نیاز، جہاز، ناز،، وغیرہ اسی طرح شریف کے ساتھ قوافی اور بھی کم ہو جاتے ہیں مثلاًنحیف، ضعیف، ردیف، ظریف اور انگریزی لفظ’’بریف‘‘، بس اس سے آگے شاعری منجمد۔ اب باقی بچا’’ میاں‘‘ تو اس کے قافیے تو ’’ہیاں، چیاں،دھیاں‘‘ ہی ہو سکتے تھے۔اس مہ جبیں نے ایک حیران کن عقدہ یہ وا کیا کہ ان قوافی میں ’’پاکستان‘‘ کہیں  نہیں تھااور نہ ہو سکتا تھا۔ اب ذکر کرتے ہیں ’’عمرانی حکمرانی‘‘کا تو آپ خود ہی دیکھ لیں کہ خواہ عمران کہیں یاخان کہیں یا کپتان کہیں، یہ سب کے سب ’’پاکستان ‘‘ کے ہم نوا ہیں اور قوافی اتنے آسان کے سخن گستروں نے کہا ہے کہ وہ الفاظ جو ’’ن‘‘ پر ختم ہوتے ہیں ، شعرائے کرام کو بہت بھاتے ہیں کیونکہ ’’نون ‘‘ والے قوافی بے شمار ہیں اور یوں ان کی مدد سے بے شمار شعر کہے جا سکتے ہیں۔ ’’نون‘‘ کا قافیہ کتنا سہل ہے ، اس کا ثبوت یہ ہے کہ دوران گفتگو ہی ’’نون‘‘ کے قافیے والا ایک شعر ’’سرزد ‘‘ ہو گیا ہے ، اجازت ہو تو عرض کردوں؟ ساری بزم نے ’’ارشاد، ارشاد ‘‘ کی صدائیں لگا کر چھت سر پہ اٹھا لی۔ وہ مہ جبیں گویا ہوئیں:
چھوڑ دیا ہے بنّی گالہ ، دو کمروں کا مکان ہے 
ساتھ نہیں کوئی نوکر چاکر، ہاتھ میں سب سامان ہے
کہتا ہے کہ جان سے پیارا میرا پاکستان ہے 
یہ ہے وزیر اعظم اپنا، نام اس کا عمران ہے 
یہ کلام سن کر سب نے واہ واہ کے ڈونگرے برسائے اور خواب میں ہی ہماری آنکھ لگ گئی  اور ہم خواب کے اندر ایک اور خواب یعنی ’’خواب در خواب‘‘ دیکھنے لگے ہم نے دیکھا کہ ایک لق و دق صحرا ہے، پو پھٹے کا دھندلکا ہے ،ایک کھجور کے درخت سے ٹیک لگائے ہم تنہا بیٹھے ہیں،اتنے میںایک 71سالہ پیرِ تواںنمودار ہوا ، اس نے ایک ہاتھ میں کتبہ سا ا ٹھا رکھا تھا،اور کہتا آ رہا تھا، میں تو پاکستان ہوں، یہ بھی پاکستان ہے ۔ اس کی یہ آواز چہار دانگ عالم میں گونجتی محسوس ہو رہی تھی ۔ہم نے غور سے دیکھا تو وہ کتبہ نہیں بلکہ عمران کی تصویر تھی۔ ہم نے کہا ، آپ کون ہیں؟ اس نے کہا میں پاکستان ہوں، ہم نے کہا آپ اس عمران سے اتنا خوش کیوں ہیں، اس معمر ہستی نے  تصویر کی جانب اشارہ کر کے جواب دیا کہ مجھے یقین ہے کہ یہ مجھے لوٹے گا نہیں، کھسوٹے گا نہیں، بھنبوڑے گا نہیں، توڑے گا نہیں، کیونکہ یہ بدعنوان نہیں، نادان نہیں، بے ایمان نہیں، یہ نفیس انسان ہے، لائق تقلید حکمران ہے ، یہ قوم کا کپتان ہے ، میں تو ہمیشہ سے پاکستان ہوں مگر اب میرا حکمران بھی پاکستان ہے کیونکہ اس کا نام عمران ہے ۔اس سچے خواب نے مجھے35سال بعد پھر بیدار کر دیا۔
 

شیئر: