عمران خان کی حکمرانی کےلئےسازگار ماحول
***ڈاکٹر منصور نورانی ***
وطن عزیز کو معرض وجود میں آئے تقریباً 70 سال بیت چکے ہیں لیکن اِس تمام عرصے میں ہماری قوم کو بہت ہی مختصر مدت کیلئے احساس خوش فہمی کے یہ مسحورکن لمحات میسر ہوئے ہیں کہ ہمارا ملک معاشی گرداب یا اقتصادی مشکلات سے باہر نکل آیا ہے۔اُن میں سے ایک دور سابق فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کاوہ غیر جمہوری دور تھا جس میں گرچہ ہمارے لوگوں کے سیاسی اور انسانی حقوق تو ضرور سلب کئے گئے مگر ملک کی ترقی و خوشحالی کے ایسے بڑے بڑے منصوبے نہ صرف تشکیل دئیے گئے بلکہ مکمل بھی کئے گئے اور جن کی بدولت پاکستان اُس وقت اِس خطہ کاایک بہت ہی خوشحال ملک گردانا جانے لگا۔ایوب خان کے تمام اقدامات سے قطع نظراِس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اُن کے 10سالہ دور میں ملک نے بے مثال ترقی کی۔پانی ذخیرہ کرنے کے بڑے بڑے ایسے کئی ڈیم بنائے گئے جن سے ہم ابھی تک استفادہ کررہے ہیںاور جن کے بعد آج تک 50 سال میں ہم کوئی نیا ڈیم نہیں بناسکے۔ ذوالفقار علی بھٹو ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف جیسے کئی طاقتور حکمراں برسراقتدار آئے لیکن کوئی بھی اِس کام کو آگے نہیں بڑھاسکا۔جب کبھی کوئی نیا ڈیم بنانے کی بات کی گئی ہمارے باہمی اختلافات اورصوبائی منافرت کھل کر سامنے آ نے لگی۔ایک دوسرے پرعدم اعتماد اورشک و شبہات نے منصوبوں کی ساری اہمیت و افادیت پرپانی پھیر کر رکھدیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک اِس معاملے میں وہیں کھڑے ہیں جہاں جنرل ایوب خان نے ہمیں چھوڑا تھا۔
ٓ ایوب خان کے اُس دور میں ہمارے یہاںایک زبردست صنعتی انقلاب بھی برپاکیاگیا تھا۔سارے ملک میں انڈسٹریز کاجال بچھایاگیا تھا۔ایوب خان جانتے تھے کہ یہ کام حکومتی لیول پر کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا لہذا اُنہوں نے پرائیویٹ اورنجی شعبے کو اِس کام کیلئے حوصلہ افزامراعات دیں اور اِس مشکل ٹاسک کو ممکن بنایا مگر بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اِن کامیابیوں کے تسلسل کو برقرار نہیں رکھا بلکہ اُنہیں تہہ وبالا کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھ چھوڑی۔سوشلزم اور کمیونزم کے اُصولوں کے تحت ہر شے کو سرکاری تحویل میں لئے جانے کے عمل نے نجی شعبہ کی ایسی حوصلہ شکنی کی کہ سارا اسٹرکچر ہی ٹھپ ہوکررہ گیا۔وہ دن ہے اورآج کادن ہمارا نجی شعبہ اپنے یہاں سرمایہ کاری کرنے میں ابھی تک تذبذب اور پس وپیش کاشکار ہے۔ یہ درست ہے کہ بھٹو نے اِس ملک کو ایٹمی پروگرام دیاجس نے آگے جاکے اُسے ایک طاقتور ایٹمی ریاست کادرجہ دلایا لیکن ساتھ ہی ساتھ اُن کی سرکاری تحویل میں لئے جانے والی پالیسی نے اِس ملک کی معاشی و اقتصادی ترقی کو بہت نقصان پہنچایا۔انڈسٹریز اوربینکوں سمیت کئی اداروں کے تباہی کا سلسلہ وہیں سے شروع ہوا جو آج تک سنبھل نہیں پایا۔بھٹو صاحب کے بعد جنرل ضیاء الحق اِس ملک کے اقتدار و اختیار کے واحد اکیلے مالک و مختار بنے۔ اُنہیں 11سال بلا شرکت غیرے حکمرانی کرنے کا سنہری موقع نصیب ہوا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اُنہوں نے اِس سنہری موقعے سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا۔وہ چاہتے تو اُن 11سالوں میں بہت سے اہم اور ضروری کام کرجاتے۔ افغان وار کی وجہ سے امریکہ اُن کا بہت بڑا دوست اور مہربان تھا۔وہ اُن دنوں ہمارے سارے ناز اور نخرے اُٹھانے کو تیارتھا۔جنرل ضیاء جو چاہتے امریکہ سے منواسکتے تھے۔سویت یونین کے خلاف معرکہ آرائی میں اُس وقت صرف ہماری قوم ہی ساری دنیا میں واحد ایک ایسی قوم تھی کو جو امریکہ کی مدد کرسکتی تھی اور ہم نے یہ کام بڑی تندہی اور جانفشانی سے سرانجام بھی دیا۔ہم چاہتے تو اُس وقت ایٹمی دھماکے کرکے خود کو دنیا کی ایٹمی طاقتوں میںشمار کرواسکتے تھے ۔ امریکہ اُن دنوں ہمارے خلاف کوئی تادیبی کاروائی کرنے اور اقتصادی پابندیاں لگانے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھا۔اُسے اُس وقت ہماری مدد اور تعاون کی اشد ضرورت تھی مگر جنرل ضیاء نے یہ سنہری موقع ہاتھ سے گنوادیا۔ جنرل ضیاء اُس افغان وار کو اپنی جنگ سمجھ کرلڑتے رہے اور قربانی دیتے رہے۔
ایٹمی دھماکے کرنے کا یہ کام بعد ازاں سابق وزیراعظم نواز شریف نے سر انجام دیا۔اُنہیں گرچہ اِس کام کاخمیازہ قبل ازوقت اقتدار سے محرومی اور جلاوطنی کی صورت میں بھگتناپڑا لیکن اُنہوں نے بہرحال یہ کام کردکھایا۔میاںنواز شریف ہمارے اُن حکمرانوں میں سے ایک ہیں جنہیں جب جب حکومت کرنے کا موقع ملا اُنہوں نے اِس ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پرگامزن کرنے کی کوشش اورجستجو ضرور کی۔اُن کی راہ میں بے شمار مشکلیں آئیں اور روڑے اٹکائے گئے لیکن وہ اپنی اِ س خصلت سے بازنہیں آئے۔اِس ملک میں موٹروے بنانے کا منصوبہ بھی اُنہوں نے اپنے سب سے پہلے دورحکومت میں شروع کیا۔وہ 2,2 اور ڈھائی ڈھائی سالوں میں محروم اقتدار کئے جاتے رہے لیکن وہ اپنے اِس مشن کو بھی آگے بڑھاتے رہے۔موٹروے کے بعد ایک اور عظیم الشان منصوبہ" سی پیک" کی شکل میں اُنہوں نے بالآخر اِس قوم کو دیا۔سی پیک منصوبے کے دعویدار تو بہرحال اور بھی لوگ ہیں لیکن عملی شکل میں اِس منصوبے پرکام شروع کرنے کاکریڈٹ صرف نواز شریف کو ہی جاتا ہے۔
خان صاحب کو آج اگر حکمرانی کرنے کیلئے ایک سازگار اور پرسکون ماحول میسر ہے تووہ بھی میاں صاحب کی اُن کاوشوں او ر کوششوں کی بدولت ہے جو وہ اپنے دور میں کرگئے ہیںورنہ اگر 2013ء والاماحول اور فضا موجود ہوتی توخان صاحب کی ترجیحات بھی وہ نہ ہوتیں جو آج دکھائی دے رہی ہیں۔آج ملک میں بجلی اور گیس کا وہ بحران ہرگز نہیں جو 2013ء میں موجود تھا۔سی این جی اسٹیشنوں پر گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاروں کا وہ منظر آج کسی شہر میں بھی نہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ ملک بھر کے شہروں اور قصبوں میں وہ بم
دھماکے اور خود کش حملے آج نہیں ہورہے جو اُس وقت روزانہ کی بنیادوں پر ہورہے تھے۔ کراچی شہر کے امن و امان کا فائدہ بھی آج خان صاحب کی پارٹی کو حاصل رہا کہ وہ وہاں سے قومی اسمبلی کی 14نشستوں پر کامیاب ہوپائی ورنہ اگر حالات پرانی ڈگر پر چل رہے ہوتے تو ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ شاید ایک سیٹ بھی نہ مل پاتی۔معاشی واقتصادی حوالے سے یہ بھی ایک ٹھوس اور روشن حقیقت ہے کہ میاں صاحب کے اِن 4سالوں میں وطن عزیز مالی مشکلات سے باہر نکل کر ایک بار پھرکامیابیوں اور کامرانیوں کی جانب بڑھنے لگا تھا۔ہماری اسٹاک مارکیٹ کاشماردنیا کی بہترین مارکیٹوں میں ہونے لگاتھا۔ زرمبادلہ کے ذخائر پہلی مرتبہ بلندیوں کوچھونے لگے تھے۔مایوسیوں اور نااُمیدیوں کے بادل چھٹ چکے تھے۔ہم نے آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہہ کر خود کو اُس کے شکنجے سے باہر بھی نکال دیا تھا۔ایوب دور کے بعد میاں صاحب کا سابقہ دور ایساگزرا ہے جس میں ہمیں اپنے مستقبل کے حوالے سے سارے خطرات اور خدشات زائل ہوتے دکھائی دینے لگے تھے اور یہ اُمید بندھنے لگی تھی کہ ہم آئندہ چند سالوں میں ایک ترقی یافتہ قوم کے طور پر دنیا میں اپنامقام منوانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔یہی وجہ تھی کہ سیاسی دانشوروں اور تجزیہ کاروں کے سارے اندازے یہی عندیہ دے رہے تھے کہ اگلا الیکشن بھی مسلم لیگ (ن) ہی جیت جائیگی مگر سیاسی رزم آرائی پر اپنی گرفت قائم رکھنے والوں نے ساری بساط ہی اُلٹ کررکھدی۔