شہباز شریف بلاشبہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر ایک اچھے ایڈمنسٹر ضرور ثابت ہوئے ہیں لیکن پارٹی کے سربراہ یا صدر کی حیثیت میں وہ ابھی تک کوئی متاثرکن کارکردگی نہیں دکھاپائے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے توشاید غلط اور بے جا بھی نہیں ہوگا کہ اُن کی لیڈر شپ میں پارٹی نے ابھی تک مسلسل نقصان ہی اُٹھایا ہے۔گذشتہ تقریباً ایک سال میں جب سے وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ بنے ہیں جب جب پارٹی کو انتہائی مشکل اور کٹھن حالات کاسامنا رہا ہے اور قیادت کی جانب سے دانشمندانہ بصیرت افروز فیصلوں کی ضرورت رہی ہے،دیکھا یہ گیا ہے کہ پارٹی کی قیادت لوگوں کی توقعات پر پورا اترنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔اُس نے وہ فیصلے کئے ہی نہیں یااُن کے کرنے میں اتنی سستی او ر کاہلی دکھائی کہ اُن فیصلوں کی اہمیت و افادیت ہی بیکار اور ضائع ہوکر رہ گئی۔جہاں جہاں اور جس جس موقع پر پارٹی کی قیادت کی موجودگی انتہائی اہم اور ضروری تصور کی جاتی تھی وہ وہاں بروقت پہنچنے میں قاصر رہی۔الیکشن سے قبل جب پارٹی کے سابق سربراہ نے احتساب عدالت کے فیصلہ سنائے جانے کے بعد اپنی صاحبزادی کے ہمراہ وطن واپسی کا دلیرانہ اور جرأت مندانہ فیصلہ کیا توخیال کیاجاتا تھا کہ شہباز شریف اِس موقع کو ایک سنہری موقعہ جانتے ہوئے اپنی ساری توانائی اور لیاقت اِس موقعہ پر خرچ کردینگے او رمنظم طور پر عوام کے احساسات اور رائے عامہ کو متحرک کرکے اچھی طرح کیش کروالینگے۔ لیکن افسوس کہ وہ ایسا کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ فلائٹ کے دو ،تین گھنٹے لیٹ ہوجانے کے باجود وہ مقررہ وقت پر جلوس کی قیادت کرتے ہوئے ایئرپورٹ پہنچنے میں ناکام رہے۔اُنہوں نے یہ تاخیر کسی نامناسب اشتعال انگیزی سے بچنے کیلئے حفظ ماتقدم کے طور پرخود اپنی طے شدہ حکمت عملی کے تحت اپنائی تھی یا پھر مصلحتاً کسی انجانے خوف یاکسی مجبوری کے تحت ایسا کیاتھا۔ وہ شاید مقتدر حلقوں کو اپنے بارے میں کوئی اچھا اور بہتر تاثر پہنچانا چاہتے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ میاں صاحب کیلئے بھی اُمید وآس کا ایک در کھلارکھنا چاہتے تھے۔
اُن کا نظریہ اورنقطہ ء نظر شروع ہی سے میاں صاحب کے بیانیہ سے مختلف رہا ہے۔وہ اداروں سے کسی بھی قسم کی محاذآرائی اور لڑائی سے اجتناب کرتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 13ء جولائی کو لاہور شہر میں میاں صاحب کی زبردست حمایت کے باوجوداُن کے استقبال کیلئے آنے والوں کو اُنہوں نے ایک غصیلے اور اشتعال انگیز مجمع میں بدلنے سے روکے رکھا۔ سابقہ قیاد ت قید و بند کی صعوبتیں بھگت رہی ہے اوراُنہیں ابھی تک کوئی ریلیف بھی نہیں ملا ہے۔دوسری جانب عوام میں بھی اب وہ جوش وخروش اور ولولہ ٹھنڈاپڑتا جارہاہے جو میاں صاحب کے جلسے اور جلوسوں میں کچھ دن پہلے تک دیکھا جاتا تھا۔پارٹی نے اگر تمام مشکلات اورر پابندیوں کے باوجوداگر اچھی خاصی تعداد میں حالیہ انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے تو وہ بھی میاں نواز شریف کے بیانیہ اور مخالف قوتوں کے خلاف ڈٹ جانے کی وجہ سے حاصل کی ہے۔ شہبا ز شریف کی پالیسیوں کی وجہ سے نہیں۔میاں شریف کو گرفتار ہوئے تقریباً ایک ماہ کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اُن کی اپیل کی ایک بھی سماعت نہیں ہوپائی ہے۔ اور نہ کسی عدالت سے اُن کی ضمانت پررہائی بھی ممکن ہوپائی۔کبھی کوئی جج چھٹی پر چلا جاتا ہے اور کبھی کوئی جج سماعت کرنے یا کیس سننے سے معذرت کرجاتا ہے۔یا پھر کسی جج کو جانبداری کے خدشات کے تحت کیس کے مقررہ بینچ سے ہی علیحدہ کردیا جاتا ہے۔پہلے سمجھا گیا کہ الیکشن کی وجہ سے یہ سب کچھ ہورہا ہے لیکن اب تو الیکشن کو ہوئے بھی 20روز ہوچکے ہیں مگر شنوائی میں مسلسل لیت ولعل سے کام لیا جارہا ہے۔ جو تیزی اور پھرتی فیصلہ سنانے میں دکھائی گئی تھی وہ اب اُس کے خلاف اپیل کی سماعت میں کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ میاں شہباز شریف کے بجائے آج اگر پارٹی کی قیادت کسی اور شخص کے ہاتھ میں ہوتی تو وہ شاید اِسی معاملے کو لیکر اتنا شور مچا چکا ہوتا کہ پس پردہ کارفرما تمام معزز اور باعزت حضرات کو اپنی رہی سہی ساکھ بچانے کی فکر لاحق کھڑی ہوتی۔
میاں شہباز شریف نے دوسری اہم پسپائی 9 ا گست کو دکھائی جب الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ساری اپوزیشن نے ملکر الیکشن کمیشن اسلام آباد کے دفتر کے سامنے بھر پور احتجاج کا پروگرام بنایا اور وہ اِس موقعہ پر بھی فلائٹ نہ ملنے کا بہانہ کرکے منظر نامے سے غائب رہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے ہمیںاِس لئے گلہ نہیں کہ اُن کی پارٹی پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ ابھی سے سڑکوں پر آنا نہیں چاہتی ۔ فی الحال وہ پارلیمنٹ کے اندر ہی رہتے ہوئے احتجاج کے حامی ہیں۔ویسے بھی پاکستان پیپلز پارٹی کو اِس الیکشن میں توقعات سے کچھ ذیادہ ہی کامیابیاں ملی ہیں لہذا وہ احتجاج کریں تو کیونکر کریں۔فکر تو وہ لوگ کریں جو سمجھتے ہیں کہ اُن کا مینڈیٹ مبینہ طور پر چھینا گیا ہے یاچوری کیاگیا ہے۔میاں شہباز شریف کی سیاسی بصیرت اور قابلیت کااندازہ بھی اُن کی حالیہ کارکردگی سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے جب اُنہوں نے صوبہ پنجاب میں عددی برتری حاصل ہوجانے کے باوجود وہاں اپنی حکومت بنانے کیلئے معمولی سے بھی کوشش نہیں کی اور اپنے مخالفوں کیلئے میدان کھلا چھوڑ دیا۔یہی حال مرکز میں بھی دیکھا گیا۔ سیاست کے کھیل میں رہتے ہوئے جیت جانے کی کوشش نہ کرنایااُس سے اجتناب کرنا کسی بھی پارٹی کی اعلیٰ لیڈر شپ کے شایان شان نہیں ہے۔مجبوریا ں او ر مصلحتیں اپنی جگہ لیکن یوں ہتھیار ڈال دینا اُنہیں کسی طور زیب نہیں دیتا تھا۔اُن کے ہمت ہار جانے کے ایسے ہی رویوں سے مسلم لیگ (ن) کے دیرینہ کارکنوں میں بھی مایوسی اور بدگمانی پھیلی ہے۔
شہباز شریف میں قائدانہ صلاحیتوں کے فقدان کی وجہ سے لوگ یہ محسوس کررہے ہیں کہ انہیں اب کسی حال میں پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر نہیں بننا چاہئے۔ وہ یہ ذمہ داری کسی اور کے حوالے کردیں۔اُنہوں نے ابھی تک صرف حکمرانی ہی کی ہے اور وہ بھی صرف ایک صوبے تک۔ اپوزیشن لیڈر کے طور پر وہ کامیاب نہیں ہوپائیں گے۔اُن کے اندر وہ خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہی نہیں جو اِس منصب کیلئے ضروری اور اہم تصور کی جاتی ہیں۔بلکہ اُنہیں تو پارٹی کی قیادت بھی اب کسی اور کے حوالے کردینی چاہئے۔وہ جتنی دیر اس عہدے پر فائز رہیں گے پارٹی مسلسل خسارے میںجاتی رہے گی۔یہی وجہ ہے شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے ہمارے بہت سے غیر جانبدار تجزیہ اورتبصرہ نگار اُنہیں پارٹی کے بچے کھچے وجود کیلئے ایک خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ امتیاز عالم نے تواُنہیں مسلم لیگ کی سیاست کا گورکن تک کہہ ڈالا ہے۔میاں شہباز شریف کو اب اپنے اِس طرزعمل کوبدلنا ہوگا یا پھر لوگوں کی رائے کوتسلیم کرتے ہوئے پارٹی کی قیادت کسی قابل اورباصلاحیت شخص کے حوالے کردینی ہوگی۔