نبی کریم ﷺ رحمت وشفقت کے حسین پیکر
وہ گھر انتہائی خیر وبرکت والا ہے جس میں کوئی یتیم بچہ پرورش پاتا ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتاہو
* * * * ابو سفیان سعید ندوی۔ جدہ* * *
ایک روزچند غریب و نادار صحابہ کرام ؓبیٹھے باتیں کررہے تھے۔ ان میں حضرت سلمان فارسیؓ ،حضرت صہیب رومیؓ اور حضرت بلال حبشیؓ ؓبھی تھے ۔کفار و مشرکین کا سردار ابو سفیان وہاں پہنچ گیا۔اس کو دیکھ کرانہوں نے کہا :
’’اللہ کی تلواروں نے ا ب تک اپنے دشمن کاکام تما م نہیں کیا ۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے یہ سن لیاا ور ناراضگی کا اظہارکرتے ہوئے کہا :
’’تم لوگ قریش کے سردار کے متعلق ایسی باتیں کہہ رہے ہو؟اور نبی کریم کی خدمت میں پہنچ کر پورا واقعہ بیان فرمادیا۔نبی کریم نے ارشاد فرمایا:
’’ اے ابو بکرصدیق !شاید کہ تم نے ہمارے صحابہ ؓ کو نا راض کردیاہے؟‘‘اور فرمایا:
’’ اگر تم نے ان کو ناراض کیا تو جان لو پھر دونوں جہانوں کا پروردگار تم سے خفا ہوجائے گا۔‘‘
حضرت ابو بکر صدیق ؓوہاں سے اٹھے اور تیزی سے حضرات سلمان فارسی ؓ، صہیب ر ومیؓ اور بلال حبشیؓ کے پاس تشریف لائے اور کہا :
’’ اے میرے بھائیو!کیا آپ لوگ میری باتوں سے خفا ہوگئے ہیں؟اگر ایسا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے واسطے مجھے معاف کردو۔‘‘
آخر وہ بھی تونبی کریمکی تربیت یافتہ تھے ۔ اپنے کسی مسلمان بھائی سے ناراض ہونا جانتے ہی نہیں تھے۔ان لوگوں نے کہا :
’’ اے ابو بکر ! اللہ تعالیٰ آپ کو معاف فرمائے، ہم لوگ آپ سے ناراض نہیں ہیں۔‘‘
آپ کی والدین پر رحمت و شفقت کی تاکید :
قر آن کریم اوراحادیث مبارکہ میں والدین کیساتھ حسنِ سلوک ،اطاعت وفرمانبرداری اوران کا ادب و احترام کر نے کی تاکید کی گئی ہے اوران کی خدمت کو دنیا و آخرت میں سعادت و فلاح کا ذریعہ قرار دیاگیا ہے۔ارشاد ربانی ہے:
’’اللہ کی عبادت کرو ، اس کے ساتھ کسی کو شریک مت کرواور والدین کے ساتھ اچھا برتائو کرو۔‘‘(النساء36)۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
’’ہم نے انسان کو تاکید کی ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا برتائو کرے۔‘‘(العنکبوت8)۔
نیز ارشاد ہے:
’’اور تمہارے پروردگار نے صاف صاف حکم دیا ہے کہ تم اسکے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماںباپ کے ساتھ احسان کرنا،اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف تک مت کہنااور نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنابلکہ ان سے نہایت ادب و احترام سے پیش آنااور عاجزی و محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو جھکائے رکھنااور دعا کرتے رہناکہ اے اللہ ان پر رحم وکرم فرما جس طرح انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔‘‘(بنی اسرائیل23)۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓارشادفرماتے ہیں کہ میں نے کریمسے دریافت کیا کہ اللہ کے یہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کونساہے؟آپ نے ارشاد فرمایا:
’’وقت پر نماز ادا کرنا۔‘‘
پھر میں نے پوچھا۔ پھر کونسا عمل ہے؟،آپنے فرمایا:
’’والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا۔‘‘
تیسری مرتبہ دریافت کرنے پر آپنے فرمایا:
’’ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے۔‘‘
ایک صحابی ؓنبی کریمکی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کیا:
’’ اے اللہ کے رسول!میں جہاد کرنے اور ہجرت پر اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کیلئے آپکے دستِ مبارک پر بیعت کرنا چاہتاہوں۔‘‘
آپ نے دریافت فرمایا:
’’ کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہیں؟‘‘
انہوں نے کہا :
’’ہاں!اے اللہ کے رسول ! دونوں ہی زندہ ہیں۔‘‘
آپ نے فرمایا:
’’ کیا تم اللہ تعالیٰ کی رضاو خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہو؟‘‘
انہوں نے جواب دیا :
’’ ہاں اے اللہ کے رسول!‘‘
آپ نے فرمایا :
‘‘ اپنے والدین کے پاس جائواور ان کی خدمت کرو۔‘‘
نبی کریم کی خدمت میں ایک خاتون روتے ہوئے آئیں ۔ آپنے صحابۂ کرامؓسے دریافت فرمایا :
’’اسے کیا ہوگیاہے؟ ، یہ کیوں رورہی ہیں؟‘‘
دریافت کرنے پر خاتون نے کہاکہ ابواسید نامی شخص نے میرے بیٹے کو مجھ سے چھین لیا اور اسے فروخت کردیاہے۔یہ سن کر نبی کریم کا چہرئہ مبارک غصے سے متغیر ہوگیااور ابو اسید کو بلوایا اور اس سے پوچھاکہ کیا یہ خاتون صحیح کہہ رہی ہیں؟اس نے کہا:ہاں! آپ نے اس سے فرمایا :ابھی اس کے بچے کو واپس لیکر آئوچنانچہ وہ گیا اور اس کے بچے کو لاکر خاتون کے حوالے کیا۔
یتیموں پر شفقت و محبت :
ہرکام میں اللہ تعالیٰ کی حکمت و مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے ۔ اللہ رب العزت نے نبی رحمت کو یتیم پیدا فرمایاتھا۔ آپکی ولادت باسعادت سے قبل ہی آپ کے والد ماجد حضرت عبد اللہ کا انتقال ہوگیا تھااور جب6 سال کے ہوئے توآپ اپنی والدہ ماجدہ بی بی آمنہ کی شفقت و پیار سے محروم ہوگئے۔
ایک بچے کیلئے یتیمی کی حالت انتہائی پریشان کن اور اذیت ناک ہوتی ہے۔ اس کی تعلیم وتربیت ، پرورش و پرداخت اور دیکھ بھال وغیرہ انتہائی مشکل مرحلہ ہوتاہے ۔اسے زندگی کے ہر موڑ پرپریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن جب اس یتیم بچے کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب اور چہیتے رسول بھی یتیم تھے ۔ آپ بھی بچپن ہی میں شفقت پدری سے محروم ہوگئے تھے تو اسے ڈھارس اور حوصلہ ہوتاہے اور اس کے تمام رنج وغم کسی حد تک ہلکے ہوجاتے ہیں۔
نبی کریم کو یتیم بچوں سے بے حد پیار تھا۔آپ کسی یتیم بچے کودیکھتے تو اسے پیار کرتے ۔اس کے سرپر دستِ شفقت پھیرتے اور اس کی ہر ضرورت کو پوری کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ آپ نے امت کے ہرفرد کویتیم بچوں کے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آنے کی تاکید فرمائی ہے۔
حضرت عمربن خطاب ؓسے مروی نبی کریم کا ارشاد ہے:
’’ مسلمانوں کا وہ گھر انتہائی خیر وبرکت والا ہے جس میں کوئی یتیم بچہ پرورش پاتا ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتاہو،اس کو شفقت و محبت اور پیار کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہواور اس گھر کے لوگ انتہائی بدنصیب وبدقسمت ہیں اور خیر وبرکت سے محروم ہیں جہاں یتیم بچے موجود ہوں اور ان کے ساتھ اچھا برتائو نہ کیا جاتا ہو۔‘‘
نبی کریم نے یتیم بچوں کی اچھی پرورش و پرداخت کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی ہے اور فرمایا کہ میں اور وہ جنت میں اس طرح ہو ںگے اور اپنی شہادت اور درمیانی انگلیوں کو قریب فرماکر اشارہ فرمایا۔
حضرت ابو الدرداء ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمکے پاس ایک شخص آیا اور اپنی قساوتِ قلب اور سنگدلی کی شکایت کی تو آپ ارشاد فرمایا :
’’اگر تم نرم دلی اور رقت قلب چاہتے ہو تو یتیم بچوں کے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آؤ،ان سے پیار کرواوران کو کھانا کھلائو۔‘‘
نبی کریم شہدائے کرامؓ کے یتیم بچوں کی غمخواری کرتے ،ان کے احوال دریافت فرماتے، ان کی حاجتیں پوری کرتے، ان کے سروں پر دست شفقت پھیرتے اوران کا ہر طرح خیال رکھتے تھے۔
حضرت اسماء بنت عمیس ؓفرماتی ہیں کہ جب حضرت جعفر بن ابی طالبؓ غزوئہ موتہ میں جام شہادت نوش فرما یا تو نبی کریمان کے گھر تشریف لائے ۔ اس وقت آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں ۔آپ ان کے تمام بچوں کو بلوایا اور ان کو خوب پیار کیا ۔
عورتوں کے ساتھ رحمت وشفقت :
رحمۃ للعالمین کی رحمت وشفقت کا ابرِ کرم یوں تو روئے زمین کے ہر حصے اور ہر طبقے پر برسا ۔اس نے ہر خاص و عام کو سیراب کیا لیکن اس نے سب سے زیادہ غرباء، مساکین ،یتامیٰ، لونڈی، غلام اور خواتین کو فائدہ پہنچا یاجن کی معاشرے میں کوئی عزت و وقعت نہیں تھی ۔
وہ مظلوم و مقہوراورستم رسیدہ تھے ۔حقوق انسانی سے محروم تھے۔ ان سب طبقوں کو نبی رحمت نے بلند مقام عطا کیااور معاشرے میں عزت و عظمت سے سرفرازکیا مگر حقیقت یہ ہے طبقۂ اناث کو نبی رحمت نے جو فیوض و برکات عطافرمائیں دنیا کی کسی تہذیب وتمدن اور مذہب نے عطانہیںکیا ۔
نبی کریمنے اس مظلوم طبقہ کو یہ مژدہ ٔجانفزاسنایا:
’’ مجھے دنیا میں2 چیزیں بہت محبوب ہیںاور وہ ہیں عورت اور خوشبو لیکن میری آنکھوں کی ٹھنڈ ک نماز میں ہے۔ ‘‘
’’عورتوں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا معاملہ کرواس لئے کہ وہ ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلیوں میں بھی سب سے ٹیڑھا
حصہ اوپر کا ہوتا ہے،اگر تم اسے درست کرنا چاہوگے تو توڑ دوگے (یعنی طلاق واقع ہوجائے گی) اور اگر اسے چھوڑ دوگے تو وہ اپنے حال پرقائم رہے گی چنانچہ عورتوں کے ساتھ خیر خواہی اور ہمدردی کا رویہ اختیار کرو۔‘‘( بخاری)۔
غلاموں پر شفقت ورحمت :
ابتداء اسلام سے قبل غلاموں کی کوئی حیثیت نہیں تھی ۔انہیں جانوروں سے بھی بدتر سمجھاجاتا تھا۔انہیں تمام حقوقِ انسانی سے محروم رکھا جاتاتھا۔
ان سے مویشیوں اور چوپایوں کا ساکام لیا جاتااور مال و زر کی طرح ان کی خریدفروخت کی جاتی تھی لیکن نبی کریمکی رحمت و شفقت نے آقا وغلام ،شاہ وگدااور امیر وغریب کے تما م فرق کومٹایااورسب کو برابر کے حقوق دیئے۔ حضرت علی ؓفرماتے ہیں کہ وصال سے پہلے نبی کریم کاآخری کلام نماز وں کا اہتمام کرنے اور غلاموں کے حقوق اداکرنے کے متعلق تھا۔
حضرت ابو مسعود بدری ؓفرماتے ہیں کہ میرا ایک غلام تھا ۔ ایک بار میں کسی بات پر اس سے ناراض ہوگیا اورکوڑے سے مارناشروع کردیاکہ نبی کریم وہاں آن پہنچے اور فرمایا :
’’اے ابو مسعود!خبردار !‘‘
غصے کی وجہ سے میں آوا ز پہچان نہ سکا۔ آپ نے دوبارہ فرمایا:
’’ اے ابو مسعود!خبردار!‘‘
پیچھے مڑ کر دیکھا تو نبی کریمکو پایا۔ آپ کو دیکھتے ہی ڈر اور خوف کی وجہ سے میرے ہاتھ سے کوڑ ا گرگیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا:
’’اے ابو مسعود سنو! جتنی قدرت تجھے اس غلام پر ہے اس سے کہیں زیادہ قدرت اللہ تعالیٰ کو تجھ پرحاصل ہے۔ ‘‘
حضرت ابو مسعودؓفرماتے ہیں کہ یہ سن کر میں نے اسی وقت اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کیلئے اُس غلام کو آزاد کردیا۔نبی کریم نے میرے اُس عمل کو دیکھ کر ارشاد فرمایا:
’’ اگر تم ایسا نہ کرتے توتم جہنم کی آگ سے نہ بچ سکتے۔‘‘
امیرالمؤمنین حضرت علی ؓکا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ ؓنے غلام سے فرمایا کہ ہم دونوں کو کپڑوں کی ضرورت ہے، تم بازار جاکر کپڑے خرید لاؤ ۔وہ گئے اپنے لئے سستا اور امیر المؤمنین کیلئے کچھ قیمتی کپڑے خرید لائے۔
کپڑوں کو دیکھ کرحضرت علیؓ غلام کو لیکر درزی کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ یہ قیمتی کپڑے غلام کیلئے ہیں اور یہ سستے کپڑے میرے لئے ہیں ۔یہ سن کر غلام نے کہا ۔نہیں !یہ عمدہ کپڑے میرے آقا کیلئے ہیں ۔وہ خلیفۃ المسلمین ہیں ، ان کو اچھے کپڑوں کی ضرورت ہے۔میں تو غلام ہوں ۔
مجھے اچھے کپڑوں کی ضرورت نہیں لیکن امیر المؤمنین حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میں تو اب بوڑھا ہو چکاہوں ۔ مجھے اتنے اچھے کپڑوں کی کوئی ضرورت نہیں ۔ تم ابھی جوان ہو، تم کو اچھے اور عمدہ لباس کی ضرورت ہے۔
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقؓ کے سفر شام کاواقعہ زبان زد خاص وعام ہے کہ آپؓ بیت المقدس فتح کرنے تشریف لے جارہے ہیں ۔غلام ساتھ ہے ۔ سفر طویل ہے ۔ صحراء و بیاباں اور پہاڑ و ریگستا ن سد راہ ہیں ۔
سواری کیلئے ایک ہی اونٹ ہے ۔باری باری بیٹھنے کا فیصلہ ہوتاہے۔آخری منزل پر غلام کی باری آتی ہے۔غلام عرض کرتا ہے ۔ امیر المؤمنین !مختلف اقوام کے لوگ فاتح بیت المقدس کے تزک و احتشام اور شان وشوکت کو دیکھنے کیلئے جمع ہوںگے۔ میں اپنی باری آپ ؓکو دیتاہوں۔
آ پؓ اونٹ پر سوار ہوجائیں لیکن امیر سیدنا فاروق ؓ دنیا کو اخوت و مساوات کا درس دینے اور آقا و غلام کے فرق کومٹانے کیلئے اس کی پیشکش قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں اور جب فاتحِ بیت المقدس اپنی آخری منزل پر پہنچتاہے تو اس کا غلام اونٹ پر سوار ہے اور آقا اونٹ کی نکیل پکڑے پاپیادہ چلاآرہاہے۔