دولت ، عزت وذلت کا معیار نہیں
پورا سماج دولت کی ہوس میں بے تحاشا دوڑ رہا ہے، ہر ایک کو دولت کی ہوس نے دیوانہ بنا رکھا ہے، ہرشخص اسی فکر میں سوتا ہے
* * *مولانا محمد یوسف اصلاحی* * *
دولت، جائیداد، عیش و آرام کے اسباب و وسائل، سکون اور سہولت کے سامان، ا للہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں۔ ہر دور میں انسان نے ان نعمتوں کو حاصل کرنے اور ان سے لذّت اندوز ہونے اور لذت اندوز رہنے کی کوشش و کاوش کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت و مشیت کے تحت جس کو جس قدر چاہا نوازا ہے۔ ان نعمتوں کے حصول کی فکروکاوش کے بارے میں کون کہہ سکتا ہے کہ غلط اور ناپسندیدہ ہے مگر دورِ حاضر میں ان نعمتوں کے حصول کی فکروکاوش نے ہوس اور حرص کی شکل اختیار کرلی ہے اور یہ ہوس ہر انسان پر اس طرح چھائی ہوئی نظر آتی ہے کہ قناعت کا مفہوم سمجھنا اور سمجھانا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ فضائلِ اخلاق کی فہرست میں قناعت کا عنوان تو ضرور مل سکتا ہے لیکن انسانی زندگی میں قناعت کا مصداق ملنا بہت دشوار ہوگیا ہے۔
کسی مجلس میں اس ہوس اور حرص و لالچ کا ذکر چھڑ جائے تو شاید کوئی ایک سنجیدہ انسان بھی ایسا نہ ملے جو اس سے نفرت اور بیزاری کا اظہار نہ کرے لیکن عملاً کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دور کے ہر انسان کا نصب العین شعوری یا لاشعوری طور پر یہی ہے کہ وہ جلد سے جلد دولت مند بن جائے اور اس کا محل دوسروں کے محل سے اْونچا نظر آئے۔
ہر ایک اسی فکر اور دھن میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹ لے، آرام و آسائش اور عیش و عشرت کے زیادہ سے زیادہ وسائل فراہم کرے، آرایش و نما ئش کی چیزوں سے اپنے دولت کدے کو سجا لے تاکہ اپنے عزیز و اقارب اور حلقۂ احباب میں اپنی فوقیت اور عظمت کا سکہ بٹھا سکے، محفل میں بیٹھ کر لاکھوں کی بات کرسکے اور ان اسباب و وسائل کا تذکرہ کرسکے جن کا ہونا آج زندگی کی قدروعظمت کا معیار بن چکا ہے۔ بہترین لباس، بہترین سواری، شاندار کوٹھی اور اسبابِ زینت و آرائش سے دوسروں کو مرعوب کرنا اور اپنی فوقیت جتانا آج کا عام رجحان اور عام اندازِ فکر ہوگیا ہے۔
سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جن لوگوں کو انسانیت کی اصل قدروں کا شعور ہے، جو آخرت کی ترجیح کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں اور جو عام رجحان پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں اور اس فکرِبد پر غم و افسوس کا اظہار کرتے ہیں، وہ بھی عمل اورسماج کی زندگی میں انسان کو انہی پیمانوں سے ناپتے اوراس کے مطابق انسان کا مقام متعین کرتے اور انسانوں سے معاملہ کرتے ہیں۔
غرض پورا سماج دولت کی ہوس میں بے تحاشا دوڑ رہا ہے۔ ہر ایک کو دولت کی ہوس نے دیوانہ بنا رکھا ہے۔ ہرشخص اس فکر میں سوتا ہے کہ شب میں کوئی سہانا خواب دیکھے اور صبح کو جب اْٹھے توو ہ کروڑوں کا مالک ہو۔ لمحوں میں دولت مند بن جانے کی ہوس شاید اسی دور کی خصوصی فکر ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ نائب شاید زمین پر اسی لیے بھیجا گیا ہے۔ وہ کائنات کا علم بھی اس لئے حاصل کرتا ہے کہ کائنات کی دولت کو قبضے میں لے آئے اور عیش کے سارے سامان فراہم کر کے دادِ عیش دینے میں لگا رہے۔
سوسائٹی کا ہر فرد، الا ماشاء اللہ اس خبط میں مبتلا ہے کہ وہ زندگی کے ان گنے چْنے دنوں میں جس قدر دولت سمیٹ سکے سمیٹ لے، اس کے سوا زندگی کا اور کوئی مقصد نہیں ۔ یہی انسان کی معراج ہے،یہی قدروعظمت کی علامت ہے اور یہی انسان کی فکروصلاحیت اور توانائیوں کا مقصد و محور ہے۔
آپ کسی سے تعلق جوڑ رہے ہوں یا کسی سے تعلق توڑ رہے ہوں، بیٹی یا بیٹے کا رشتہ کررہے ہوں، یا رشتے سے انکار کر رہے ہوں، یا سماج میں سماجی تعلق رکھنے اور جوڑنے کا سوال ہو، اولین چیز جو تعلق جوڑنے اور کسی سے قریب ہونے میں فیصلہ کن بنتی ہے وہ دنیا اور دنیا کی دولت ہے۔ رشتہ قائم کرتے وقت جو سوالات ذہن کے افق پر قدرتی انداز میں ابھرتے ہیں وہ کچھ اسی قسم کے ہوتے ہیں:
’’ دولت و ثروت کا کیا حال ہے؟ بزنس کیسا ہے؟ عہدہ کیا ہے؟ آمدنی کس قدر ہے؟ جاگیر، جائیداد اور رہن سہن کا معیار کیسا ہے؟،وغیرہ‘‘ ان سوالات کی زبردست یلغار میں اول تو دین و اخلاق کا سوال سامنے ہی نہیں آتا اور اگر کبھی سوال اْبھرتا ہے تو دین و اخلاق کی قلیل سے قلیل مقدار کا محض تصور بھی اطمینانِ قلب کا سامان بن جاتا ہے اس لئے کہ فیصلہ کْن قدر مال و دولت کی فراوانی ہے نہ کہ دین و ایمان۔ اس کے برخلاف اگر ایمان و اخلاق کا اعلیٰ معیار بھی میسر آئے لیکن غربت و افلاس اور دنیوی خستہ حالی کی تلافی، ایمان و اخلاق سے نہیں ہوپاتی، خواہ ایمان و اخلاق کا معیار جس قدر بھی بلند ہو۔
اْمت کی پستی اور ذلت و خواری کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ سوسائٹی میں ایمان و اخلاق کی ناقدری عام ہے اور قدرومنزلت کا معیار دولت و ثروت ہے۔ اللہ کے رسول صادق و امین نے فرمایا کہ جب مسلمانوں کی سوسائٹی میں دین و اخلاق کی قدروقیمت ختم ہوجائے تو زمین میں فتنہ وفساد پھیل جائے گا۔ آج ہمارا معاشرہ اسی مصیبت اور خواری میں مبتلا ہے۔
کسی اور کے ساتھ آپ انصاف کرسکیں یا نہ کرسکیں، کسی اور کیلئے سنجیدہ ہوسکیں یانہ ہوسکیں، کم از کم اپنے ہی ساتھ انصاف کیجیے اور اپنے معاملے پر ہی سنجیدگی سے غور کیجیے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیٹے بھی د ئیے ہیں اور بیٹیاں بھی۔ دنیا کی سوسائٹی میں آپکو بیٹوں کی شادیاں بھی کرنی ہیں اور بیٹیوں کی بھی۔ پیغام دیتے وقت اور پیغام قبول کرتے وقت کیا آپ کے سامنے دین و اخلاق کا سوال رہتا ہے؟ آپ کے حلقۂ احباب میں تعلق کی بنیاد کیا ہے؟ لڑکی کا پیغام قبول کرنا ہو یا لڑکے کا پیغام دینا ہو؟ کیا آپ کا معیار دین و ایمان رہتا ہے، یا محض دولت و ثروت؟
رسول پاک نے آپ کو ایک معیار دیا ہے۔ اگر یہ معیار آپ کے سامنے رہتا ہے اور سوسائٹی اس معیار کو معیار قرار دیتی ہے تو یہ اْمت کبھی ذلّت و خواری کا شکار نہیں ہوسکتی لیکن یہ اْمت اگر رسول پاک کے دئیے ہوئے معیار کو معیار قرار نہیں دیتی۔ اس معیارِ قدر ومنزلت کو ٹھکرا کر اپنے ذہن و فکر کے معیار پر اپنی سوسائٹی اور خاندان کی تعمیر کرتی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اور دولت و جائیداد، اور دنیوی عروج کی کوئی قوت اس کو ذلت ورسوائی اور فتنہ وفساد سے نہیں بچاسکتی۔ اللہ کے رسول صادق و امین نے فرمایا ہے:
’’جب تمہارے یہاں کسی ایسے شخص کا پیغام آئے جس کے دین و اخلاق سے تم مطمئن ہو تو (بلاتاخیر) اس سے اپنی دوشیزہ کا نکاح کردو، اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ پھیل جائیگا اور بہت بڑا فساد برپا ہوجائیگا۔‘‘(ترمذی، عن ابی ہریرہؓ) ۔
اسی طرح آپ نے لڑکی کے انتخاب کے بارے میں ہدایت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’عورت سے شادی4 بنیادوں پر کی جاتی ہے: مال و دولت کی وجہ سے، حسب و نسب کی وجہ سے، حْسن و جمال کی وجہ سے اور دین کی وجہ سے تو تم دیندار خاتون کو حاصل کرو، تمہارا بھلا ہو۔‘‘ (بخاری ومسلم، عن ابی ہریرہؓ)۔
اس گفتگو کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ دین میں مال ودولت، حسب و نسب اور حْسن و جمال کی کوئی حیثیت اور مقام ہی نہیں ۔ یقیناان چیزوں کا پاس و لحاظ بھی رکھنا ہے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں۔ نہ ان سے صرفِ نظر کی بات کہی جارہی ہے اور نہ انکی ناقدری کوئی دانش مندی کی بات ہے۔ دنیا میں تعلق جوڑنے اور سماج میں رہنے یا رشتہ قبول کرنے نہ کرنے میں ان نعمتوں کو نظرانداز کرنا اور انکی تحقیر و تذلیل کرنا ہرگز درست نہیں۔ بات جو کہی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ یہی زندگی کا محور و مرکز نہ بن جائیں۔ اصل فیصلہ کن چیز دین و ایمان ہے، زندگی کا مقصود اور نصب العین، دین و اخلاق ہو اور دین و اخلاق کو بنیاد بنا کر زندگی کی تعمیر کی جائے۔ اس بنیاد کیساتھ دنیا کی جو نعمتیں بھی میسر آجائیں وہ اللہ تعالیٰ کا انعام و اکرام ہے اور ان کو اللہ تعالیٰ کا انعام و اکرام سمجھ کر ہی شکرگزاری کے گہرے جذبات کیساتھ قبول کرنا چاہیے لیکن دین وایمان سے محروم ہوکر جو بھی ملے وہ انعام و اکرام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے، اس سے بچنے کی فکر کرنی چاہیے۔