نیا میڈیا اور دہشتگرد تنظیمیں
سماجی ابلاغی وسائل یا’’نیو میڈیا‘‘ فتنے پھیلانے ، انتہا پسندانہ اور شدت پسند انہ افکار و نظریات کے پرچار کے سلسلے میں دہشتگرد تنظیموں کا آلہ ٔ کار بن چکا ہے ۔ سوشل میڈیا افراد ، ممالک اور مختلف تنظیموں و جماعتوں کے خلاف اشتعال انگیزی کیلئے استعمال کیا جا ر ہے ۔ دہشتگرد تنظیموں سے تعلق بنانے اور اہلکاروںکو تیار کرنے کیلئے بھی اس سے کام لیا جا رہا ہے ۔
اقوام متحدہ سمیت متعدد تنظیموں کی جانب سے جاری شدہ رپورٹوں کے مطابق دہشتگرد تنظیمیں اپنے افکار و نظریات اور اپنی سرگرمیوں کے پرچار کیلئے سوشل میڈیا کا استعمال بڑے پیمانے پر کر رہی ہیں ۔ اس سلسلے میں ٹویٹر ، فیس بک ، یوٹیوب ، واٹس ایپ ، اسنیپ چیٹ ، انسٹاگرام وغیرہ کے نام سرِ فہرست آتے ہیں ۔ان میں ویب سائٹس چیٹنگ رومز ، سوشل ویب سائٹس ، فورم اور انٹرنیٹ کے ذریعے رابطے کے تمام وسائل شامل ہیں ۔ ان وسائل کی بدولت دہشتگرد تنظیموں کو متعلقہ افراد کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کیلئے بڑی سہولت حاصل ہو گئی ہے ۔
سماجی رابطے کے وسائل نوجوانوں کو اپنے افکار کا ہمنوا بنانے ، نوجوانوں کے ذہنوں میں اپنی پوزیشن قائم کرنے کیلئے دہشتگرد تنظیموں کے یہاں موثر وسیلہ بن چکے ہیں ۔ دہشتگرد تنظیمیں 16برس سے 30برس تک کے نوجوانوں کو اپنا ہدف بنائے ہوئے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر یہی سب سے زیادہ سرگرم ہیں ۔ یہ جلد متاثر ہو جاتے ہیں ۔ دہشتگرد تنظیمیں انہیں آسانی سے اپنا بنالیتی ہیں ۔
دہشتگرد تنظیمیں عوامی مقبولیت رکھنے والے وسائل کی اہمیت کو بہت اچھی طرح سے سمجھ چکی ہیں ۔ ویڈیو گیمز کا نمبر اس سلسلے میں سب سے نمایاں ہے ۔ ایک ارب 20کروڑ سے زیادہ لوگ ویڈیو گیمز میں دلچسپی لے رہے ہیں ۔ دلچسپی رکھنے والے مختلف عمر کے ہیں ۔ دہشتگرد تنظیمیں سوشل میڈیا اور آن لائن اکائونٹس کی مدد سے نوجوانوں تک رسائی حاصل کر رہی ہیں ۔اس سلسلے میں ہیکنگ سے بھی فائدہ اٹھایا جا رہا ہے ۔ دہشتگرد تنظیمیں یہ طے کر کے کہ کس قسم کے نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسانا ہے، ان تک رسائی کیلئے ان کی 24گھنٹے نگرانی کرتی ہیں ۔ ان کی زندگی کے ہر پہلو پر نظر رکھتی ہیں ۔ ان کی پسند نہ پسند کا پتہ لگاتی ہیں ۔ اس بات کا عندیہ بھی لیتی ہیں کہ آیا مطلوبہ نوجوان ان کے کام کا ہوگا بھی یا نہیں ۔ اس سلسلے میں وہ نجی اکائونٹس ہیک کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتیں ۔ذہنی صحت کے ماہرین سے بھی مدد لیتی ہیں ۔ متعلقہ نوجوانوں کی شخصیت کا تجزیہ بھی کرایا جاتا ہے کہ آیا فلاں نوجوان ہمارے کام کا ہو سکتا ہے یا نہیں ۔ کس حد تک وہ دہشتگرد تنظیموں کے مشن کیلئے مفید ہو سکتا ہے ۔
سعودی عرب اندرون ملک اور بین الاقوامی سطح پر تشدد اور دہشتگردی سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ ہر محاذ پر دہشتگردی کیخلاف اعلان جنگ کئے ہوئے ہے ۔ ہر طرح کی دہشتگردی کی مذمت بھی کرتا ہے اور مخالفت بھی ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مضبوط سلامتی حکمت عملی کے مطابق 95فیصد سے زیادہ دہشتگردی کی سازشوں کو ناکام بناچکا ہے ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ دہشتگردی کی مالی اعانت کرنے اور ان
سے ہمدردی رکھنے والوں کی صفوں میں نقب بھی لگا چکا ہے ۔
ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کئی بار یہ واضح کر چکے ہیں کہ ’’ دہشتگردی کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ دہشتگردی اسلام کی تصویر اور مسلمانوں کے عقائد کی شکل مسخ کر رہی ہے، دہشتگردوں کا تعاقب اُس وقت تک جاری رکھا جائے گا تاوقتیکہ یہ آفت کرۂ ارض سے ناپید نہ ہو جائے ‘‘۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے گزشتہ دنوں سعودی دارالحکومت ریاض میںمنعقدہ انسداد دہشتگردی کیلئے قائم اسلامی اتحاد کے وزرائے دفاع کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی سے سب سے بڑا خطرہ جو ہمیں درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ اس سے ہمارے مذہب کی حیثیت مجروح ہو رہی ہے ۔ اس سے ہمارے عقائد پر حرف آرہا ہے لہٰذا ہم دہشتگردوں کو دین اسلام کی رواداری کے عقیدے کو مسخ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ انہیں مسلم اور دنیا بھر کے ممالک میں بے قصوروں کو خوف زدہ کرنے کا موقع نہیں دیں گے ۔ آج کے بعد سے دہشتگردوں کو پنپنے نہیں دیا جائیگا ۔ ان کا تعاقب شروع کر دیا گیا ہے ۔ دنیا کے بیشتر ممالک خصوصاً مسلم ممالک میں ان کے تانے بانے بکھرنے لگے ہیں ۔ ہم آج یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ دہشتگردوں کا تعاقب اُس وقت تک کرتے رہیں گے تاوقتیکہ وہ صفحۂ ہستی سے ناپید نہ ہو جائیں ۔