اسلام اور دیگر مذاہب کے درمیان مکالمہ محض نظری سطح پر نہیں بلکہ ہر سطح پر ظہورِ اسلام سے رہا ہے
* * * پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد۔ پاکستان* * *
اکیسویں صدی کا آغاز جن واقعات سے ہوا، انھوں نے اسلام اور مغرب کی تاریخی آویزش کو ایک نئی شکل دے دی اور ہر دو فریق جن خدشات، خطرات اور تنازعات کا شکار ہوئے، وہ عالمی نقشے پر بعض بنیادی تبدیلیوں کا سبب بن گئے۔ مغربی اقوام خصوصاً امریکہ کے سامراجی عزائم عملی شکل اختیار کر گئے اور مغرب کے تمام حقوق انسانی، سرحدی آزادی، ملکی خود مختاری اور امن عالم کے نام نہاد نعروں کی قلعی کھل کر سامنے آگئی۔ مغرب کے بعض نمائندہ مفکرین نے سیاسی، سامراجی عزائم کو نئے عالمی نظام (نیو ورلڈ آرڈر) کا چوغا پہنا کر مسلم ممالک کے توانائی کے وسائل پر عسکری قوت سے قبضہ کرنے کے گھناؤنے عمل کو امریکہ کی ’’قومی سا لمیت کے تحفظ‘ ‘کا نام دیا۔1992ء میں امریکی مفکر سیموئل پی ہنگٹنگٹن نے اپنے ایک مقالے میں جس تہذیبی ٹکراؤ کے خدشے کا اظہار کیا تھا وہ عملاً پہلے سے تحریر شدہ ایک کہانی کے خاکے کی طرح ستمبر2011ء میں افغانستان اور عراق پر یلغار کی شکل میں ظہور پذیر ہوا۔ واقعات کے اس منطقی تسلسل نے مسلم ممالک کی غالب آبادی کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ انکے فرماں روا جس مغرب دوستی کا دم بھرتے ہیں وہ کتنی کھوکھلی، ناپائدار اور مغرب کے مفاد پر مبنی ہے ۔
نائن الیون نے جہاں منفی تاثرات پیدا کیے، وہیں خود مغرب میں اس سانحے نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں تجسّس اور حقیقت حال کو سمجھنے کی خواہش کو بیدار کیا۔ اس واقعے کے ایک ماہ کے اندر امریکہ کے کتب فروشوں کے پاس قرآن کریم کے جتنے نسخے انگریزی ترجمے کے ساتھ موجود تھے، فروخت ہو گئے اور اسلام پر کتب کی بڑی مانگ پیدا ہو گئی۔ قرآن کریم نے بالکل صحیح کہا ہے کہ بعض چیزوں سے انسان کو کراہت آتی ہے جبکہ ان میں رحمت ہوتی ہے اور بعض چیزیں اچھی معلوم ہوتی ہیں جبکہ ان میں ضرر ہوتا ہے۔ اسلام اور مغرب کی اس تازہ آویزش نے دونوں جانب دانش وروں اور محققین کو اس نئی صورتِ حال کے تجزیے اور اس کے پسِ منظر میں چھپے اسباب پر تفکر کی دعوت دی اور مغرب جو اپنے سامراجی دورسے استشراق کے زیرِ عنوان مسلم ممالک کی زبانوں، ثقافت اور تاریخ کو سمجھنے میں مصروف تھا، اب اس کی اس کاوش میں مزید اضافہ ہوا۔
مکالمہ… تاریخ کے تناظر میں:
اگر تاریخ کے آئینے میں اس صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ساتویں صدی عیسوی میں ظہور اسلام کے ساتھ ہی قرآن کریم نے اہلِ کتا ب کو دعوتِ مکالمہ دینے میں پہل کرتے ہوئے مختلف سطح پر رابطہ اور تبادلہ خیال کی راہیں نکالیں۔ اس سلسلے میں نبی کریم کے نامۂ مبارک، جو مختلف عیسائی و غیر عیسائی فرماں رواؤں کو لکھوائے گئے تھے ، رابطے کے اولین اقدامات کہا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم نے دیگر مذاہب کے ماننے والوں اور خصوصاً اہلِ کتاب کو باربار دعوتِ فکر دیتے ہوئے مشترک بنیادوں پر اس مکالمے کا آغاز کرنے کی دعوت دی۔ اس بنا پر یہ خیال کرنا درست نہ ہو گا کہ اسلام اور مغرب کا مکالمہ کوئی نئی چیز ہے۔ یہ مکالمہ اسلامی ریاست اور معاشرے کے دورِ عروج میں بھی رہا اور مسلمانوں کے دورِ زوال بلکہ مغربی سامراج کی محکومی کے دوران بھی جاری رہا ۔گو ہر دور کے لحاظ سے مکالمے کے دائرے اور زاویے بدلتے رہے۔
قرآنی زاویے سے اس مکالمے کا پہلا مقصد الہامی ہدایت کو ماننے والے مذاہب میں قْرب پیدا کرنا ہے تا کہ ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کے لیے جس میں اسلامی نظام نافذ ہو چند مشترک بنیادوں پر اہلِ کتاب کو معاشرتی اور عائلی تعلق کے دائرے میں لے آیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اسلام نے اہلِ ایمان مسلمان مردوں کو صالح اہلِ کتابیہ سے عقد نکاح کی اجازت دیکر اہلِ کتاب کے ساتھ خاندانی تعلق کے قیام کو ممکن بنایالیکن اس بات کی اجازت نہیں دی کہ ایک مسلمان خاتون کسی اہلِ کتاب سے نکاح کر سکے۔ وجوہ بڑی واضح ہیں۔ اس طرح مادی طور پر خاندانی رشتہ تو قائم ہو جاتا ہے لیکن گھر کے تمام امور کا فیصلہ اسلامی شریعت کو تسلیم نہ کرنے والے کے ہاتھ میں رہتا ہے اور نہ صرف یہ بلکہ آئندہ آنے والی اولاد بھی غیر اسلامی اصولوں پر پرورش پاتی ہے جبکہ اہلِ کتابیہ سے شادی کی شکل میں گھر کا ماحول اور اولاد کی تربیت مکمل طور پر ایک صاحبِ ایمان کی سرپرستی میں ہوتی ہے۔ یہ موقع تفصیلات میں جانے کا نہیں، ہم صرف یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام اور دیگر مذاہب کے درمیان مکالمہ محض نظری سطح پر نہیں بلکہ خاندان، تجارت اور بین الاقوامی امور پر ہر سطح پر ظہورِ اسلام سے رہا ہے، اس لیے کثرتیت یعنی پلورل ازم کی بات اسلام کے تناظر میں کوئی نئی دریافت نہیں ۔
تاریخی حیثیت سے مغرب اور عیسائی دنیا کا تعلق اتنا قریبی رہا ہے کہ عموماً مغرب دوستی یا مغرب دشمنی کو عیسائی دوستی اور دشمنی سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے جبکہ مغرب نے سولھویں صدی عیسوی کے بعد شعوری طور پر عیسائیت سے اپنا فاصلہ بڑھانے کے عمل آزادیٔ راے، جمہوریت، انفرادیت، مادیت، مثبتیّت (Positivism) کو اپنی فکری بنیاد قرار دیا اور سرمایہ دارانہ فکر کو اپنا بنیادی نظریہ اور پہچان قرار دیتے ہوئے اپنے معمولات میں ہفتہ میں ایک دن کا کچھ حصہ اپنے مذہب کے لیے مخصوص کرنے میں اپنی بھلائی جانی اور مذہب اور دیگر معاملات کے درمیان عدم تعلق اور فاصلہ رکھنے کو علمی اور عملی حیثیت سے اتنی تکرار کے ساتھ پیش کیا کہ دیارِ مغرب کے باہر بسنے والے افراد بھی اپنی تمام’ ’مذہبیت‘‘ کے باوجود زندگی کی اس دوئی میں عملاً مبتلا ہو گئے۔ لیکن غیر مغربی معاشروں کو جب اور جہاں بھی اس خرابی کا شعور ہوا، ان کے دانشوروں اور علما و اساتذہ نے اس پہلو پر توجہ دی چنانچہ تاریخ کے ہر دور میں اصلاح و تجدید کی کوششوں کا بنیادی نکتہ یہی رہا کہ قرآن و سنت کی طرف رجوع کرتے ہوئے اپنی زندگی کے تمام معاملات کو اللہ کی بندگی میں لایا جائے۔
یہاں صرف یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ مغرب سے مکالمہ ہو یا مجادلہ، دونوں شکلوں میں مشترک بنیادوں پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے بعض بدیہی پہلو نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ مغرب جس فکر کا ملغوبہ ہے اس کی روح ’’مذہب‘‘ کو محدود کرنے میں مضمر ہے چنانچہ سیکولرازم عموماً یہ نہیں کہتا کہ خالق کائنات، انسانوں کے مالک اور رب کا مکمل انکار کیا جائے بلکہ صرف اتنی بات کہہ کر اس مقصد کو حاصل کر لیتا ہے کہ اللہ کے دائرہ کار کو مسجد، کلیسا اور ہیکل تک محدود کر دیا جائے۔ مسلمان ہو یا عیسائی یا یہودی وہ اپنے مقررہ دن اور مقررہ وقت پر اپنے عبادت خانے میں جا کر جو چاہے کرے لیکن ہفتہ کے بقیہ دنوں میں کاروبار ہو یا سیاست، معاشرت ہو یا ثقافتی سرگرمیاں، ان تمام معاملات میں’ ’مذہب‘‘ کو دخل دینے کا اختیار نہ ہو۔ دین اور دنیا کی یہ تفریق مغربی ذہن اور مغربی تہذیب کی بنیاد ہے۔ اسی کو ہم لادینیت یا سیکولر ازم کہتے ہیں جسے لامذہبیت یا الحاد کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ لادینیت مذہب کو غیر فعال بنانے اور زندگی کو 2خانوں میں بانٹ دینے کا نام ہے۔ یہ ذہن اور یہ فکر اگر ایک ایسے شخص کے اندر پائی جاتی ہو جو ہر جمعہ کو نماز پڑھتا ہو اور ہفتہ کے بقیہ دنوں میں سر پر نماز کی ٹوپی پہن کر اسٹاک ایکسچینج میں بازی لگاتا ہو تو اس کا نماز کی ٹوپی پہننا اور جمعہ کو باقاعدگی سے نماز ادا کرنا اسے غیر سیکولر نہیں بنا سکتا۔ سیکولرازم وہ بنیادی مرض ہے جس کے زہریلے اثرات مغربی تہذیب اور مغرب کے ہر ہر شعبۂ حیات میں سرایت کر چکے ہیں اور اب یہ زہر اس کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے اس لیے مغرب خود اپنے اس اندرونی مرض کا احساس بھی نہیں کر پاتا۔
مکالمے کی سطحیں:
مغرب سے مکالمے کی طرف بڑھتے وقت اس تاریخی پس منظر پر نگاہ دوڑائی جائے تو اسلام کا مکالمہ کم از کم 6 محاذوں یا 6 سطح (levels) پر کرنا ہوگا۔
٭ تصورِ حیات: ان میں سب سے اول سطح تصور حیات ہے، یعنی مغربی تہذیب جس تصور حیات کی نمائندگی کرتی ہے اور اسلام جو تصور حیات دیتا ہے، اُن میں کون سی چیزیں مشترک ہیں ،کہاں پر شدید اختلاف پایا جاتا ہے،کن مقامات پرمفاہمت کی شکل کا امکان ہے اور کہاں پر کوئی تعاون نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک ان حدود کا تعین نہ کر لیا جائے مکالمہ اور مکالمے کا تذکرہ ایک نمائش سے زیادہ نہ ہو گا۔ کسی بھی سنجیدہ اور مخلصانہ کوشش کیلئے ضروری ہے کہ قواعدِ عمل اور موضوعات کا تعین پہلے کرتے ہوئے گفتگو کو انہی نکات تک محدود رکھا جائے ۔ مغربی تصورِ حیات3 بنیادوں پر قائم ہے۔ اولاً: انسان کی معاشی ضروریات اس کی تمام مساعی کا محرک اور کامیابی کا پیمانہ ہیں چنانچہ مادیت اور مادی ترقی زندگی کا اولین مقصد ہے۔
ثانیاً: زندگی گزارنے کے لیے خوشی اور لذت کا حصول، انسان کی تمام توجہات کا مرکز ہونا چاہیے چنانچہ لذیذ کھانے، تفریحی سفر، شام کے اوقات میں ثقافت کے نام پر حصولِ لذت و خوشی کے لیے موسیقی، ڈراما اور ٹاک شوز، فیشن شوز میں شرکت ایک بنیادی داعیہ اور ضرورت ہے۔
ثالثاً: ’’مذہب‘‘ ایک شخص کا ذاتی معاملہ ہے اس لیے مذہب کو زندگی کے دیگر معاملات میں داخل ہونے سے روکا جائے اور کائنات اور انسانی معاشرہ دونوں کو کسی الٰہی ہدایت کا پابند نہ بنایا جائے۔انسان اپنی ذاتی راے اور قوتِ فیصلہ سے اپنے معاملات طے کرے۔ اخلاق اور مذہب ایک اضافی چیز ہے۔ انفرادیت (Individualism) یا فرد کی مکمل آزادی کہ وہ جو چاہے کرے، مغربی تہذیب کی پہچان ہے۔
تصورِ حیات کی سطح پر اسلام ان تمام تہذیبوں سے اختلاف کرتا ہے جو مغرب میں ہوں یا مشرق میں اور جن کی بنیا داوپر تحریر کردہ تثلیث ہو۔ اسلام انسان کو ایک اخلاقی مخلوق قرار دیتے ہوئے زندگی کے تمام معاملات عالم گیر اخلاقی اصولوں کے مطابق کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اگر جھوٹ بولنا اور عدل نہ کرنا انفرادی سطح پر غلط ہے، تو معاشرتی اور ملکی اور عالم گیر سطح پر بھی ناقابلِ قبول ہے۔ یہ وقت کیساتھ تبد یل ہوتا ہے نہ فرد کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنی صوابدید اور عقل کے مطابق سچ اور عدل کی تعریف کرلے۔ اسلامی تہذیب کی بنیاد ایک ایسے خالق کے وجود پر نہیں جو کائنات بنانے کے بعد کسی گوشے میں آرام کر رہا ہوبلکہ وہ حی و قیوم(زندۂ جاوید ہستی) اور عزیز و علیم(صاحبِ اقتدا ر و صاحبِ علم ہستی) ہونے کی بنا پر، ہر لمحے اپنی مخلوق کی نگرانی اور بھلائی میں مصروفِ عمل ہے۔ وہ انسان کو اس کی ضروریات کے پیش نظر ہدا یت سے نوازتا ہے اور وقتاً فوقتاً الہامی ہدایت کی شکل میں عالم گیر اخلاقی ضابطہ اور قانون دیتا ہے تا کہ معاشرے میں عدل و اخوت اور روادا ری قائم ہو اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکے نہ ڈالے جاسکیں۔ وہ اپنے بندوں کو مال، صحت و وَسائل دیتا ہے تاکہ وہ اسکے نمائندہ اور خلیفہ ہونے کی حیثیت میں ان وسائل کو انسانیت کی فلاح کیلئے امانت کے احساس کیساتھ توازن و اعتدال سے استعمال میں لائیں۔ اسلامی نظریۂ حیا ت اس دنیا کو ایک تجربہ گاہ قرار دیتے ہوئے، انسان کی محدود زندگی کا مقصد تعمیری، اصلاحی اور اخلاقی طرزِ عمل سے ایک طرف مثالی عادلانہ معاشرہ قائم کرناقرار دیتا ہے، جس میں ایک جانب انسان خوشی، لذت اور اطمینان پاتا ہے اور دوسری طرف اس دنیا میں اخلاقی طرزِ عمل اختیار کرنے کے نتیجے میں وہ آنیوالی ابدی زندگی میں انسان سے بہترین اجر اور انعامات سے نوازے جانے کا حقیقی اور سچا وعدہ فرماتا ہے۔
اس حیثیت سے دیکھا جائے تو تصورِ حیات میں اختلاف کے باوجود ایسے اْمور میں جہاں انسانوں کا مجموعی مفاد ہو اسلام اور وہ تہذیبیں جو لذت، دولت اور فرد کی بنیاد پر قائم ہوتی ہیں، انتہائی محدود اور مخصوص صورتوں ہی میں تعاون علی البرّ کر سکتی ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ اسلام سے وابستہ افراد کا یہ فریضہ بھی ہے کہ وہ اپنے تصور حیات کی وضاحت اور تعارف کیلئے دیگر تہذیبوں کے ساتھ تبادلہ خیالات اور مکالمے کا مناسب استعمال کریںتاکہ حق، عدل، اخوت اور عالمی انسانی برادری کے عالم گیر اصولوں پر تعاون کی فضا پیدا ہو سکے۔
٭ علیم و تحقیق: مکالمے کی دوسری سطح تعلیم اور علمی تحقیق ہے، یعنی اسلام کے ماننے والے افراد اشاعتِ علم، تصورِ علم، علم کی مختلف شاخوں اور مناہج پر عبور حاصل کرنے کے بعد نتائجِ فکر کو انسانی برادری کے سامنے پیش کریں اور اس طرح اسلامی فکر عالمی سطح پر دیگر انسانوں کو غوروفکر اور اسلامی نظامِ حیات کی برکتوں سے متعارف کرا سکے۔ تاریخی طور پر مسلمان نہ صرف علوم اسلامی کے ماہربنے بلکہ طب، ریاضی، طبیعیات، کیمیا اور دیگر علوم کے یورپ تک پہنچنے کا ذریعہ بنے اور آگے چل کر مسلم دنیا سے مغرب کی جانب علوم کی یہ منتقلی ایک علمی مکالمے کی شکل میں یورپ کی ترقی کی بنیاد بنی اور یورپ بالخصوص علم کی استخراجی حکمتِ عملی (Deductive Method) کی جگہ علم کی استقرائی حکمتِ عملی( Inductive Method) سے آشنا ہوا۔