Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دردناک واقعہ ۔۔۔اور احتساب کا راستہ

غسان شربل۔ الشرق الاوسط
افراد کی طرح اقوام و ممالک کی زندگی میں بھی دردناک اور مشکل واقعات پیش آتے ہیں۔اس طرح کے حالات سے نمٹنے کا بہترین قاعدہ یہ ہے کہ شفافیت ، فرض شناسی اور جرأت سے کام لیا جائے۔ حقائق دریافت کرنے اور سانحہ کے اسباب معلوم کرنے کیلئے انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے۔ ملوث افراد اور کوتاہی برتنے والوں کا احتساب کیا جائے۔ آئندہ اس قسم کے المناک واقعات سے بچنے کیلئے درس عبرت بھی لیا جائے۔
    جو لوگ افراد وممالک کے تجربات پر نظر رکھتے ہیں وہ یہ حقیقت جانتے ہیں کہ کبھی کبھی غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ یہ غلطیاں بعض اوقات انتہا درجے خطرناک ہوتی ہیں۔ غلط اندازے ، اختیارات کے بے جااستعمال، احتساب کے شکنجے سے نکلنے کی صلاحیت کے وہم میں لوگ غلطیاں کر بیٹھتے ہیں۔ عام افراد کی طرح محکموں کے اہلکار بھی بعض اوقات غلط اندازے کی بنا پر غلطیاں کرلیتے ہیں۔ اپنے اختیارات کی حد بھول کر ایسا کر بیٹھتے ہیں۔ سرکاری ادارے کے اہلکاروں کو کنٹرول کرنے والے قواعدوضوابط کی پابندی نظر انداز کردیتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ اہلکار ایسی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں جن کا کوئی جواز نہیں پیش کیا جاسکتا۔ اس صورتحال کا تقاضہ ہوتا ہے کہ ایسا طریقہ کار اپنایاجائے جس کی بناء پر آئندہ کبھی کسی اہلکار کو قوانین ،روایات اور اختیارات سے بالاہوکر کام کرنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔
    جو لوگ سعودی عرب کو جانتے ہیں ، انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ جمال خاشقجی ؒ کی گمشدگی کی خبر ان کے اہلخانہ ، ان کے دوستوں اور ان کے ملک کیلئے انتہائی دردناک خبر تھی۔ جمال صحافی ، ناقد اور معترض ہونے سے قبل سعودی شہری تھے۔ سعودی حکومت کا وتیرہ یہ نہیں کہ وہ اپنے کسی شہری کی تنقید اور اعتراضات سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے اسے ٹھکانے لگا دے۔ کشادہ ظرفی سعودی حکومت کا شیوہ رہا ہے۔ اندرون و بیرون ملک ناقدین کے ساتھ کشادہ دلی سے پیش آنا سعودی حکومت کی پہچان ہے۔ گزشتہ 2عشروں کی سرگرمیوں پر جن لوگوں کی نظر ہے وہ جانتے ہیں کہ بیرون ملک مقیم اپوزیشن رہنماؤں نے وطن واپس آکر معمول کی زندگی گزاری۔ اندرون ملک شدت پسندوں نے فکری تشکیل نو کے بعد اپنے معاشرے میں دیگر شہریوں کی طرح امن پسندانہ طرز معاشرت اختیار کیا۔ سعودی عرب داخلی اور خارجی ہر دومحاذوں پر اپنوں کے ساتھ مکالمے، اختلافات کا دائرہ تنگ کرنے اور قدر مشترک کی تلاش کے اصولوں پر عمل پیرا رہا ہے۔
    استنبول کے قونصل خانے میں اندوہناک واقعہ کے بعد سعودی حکومت نے حقیقت حال دریافت کرنے کیلئے مختلف اقدامات کئے۔ ترک انسپکٹرز کے ساتھ تعاون کیلئے سیکیورٹی ٹیم بھیجی ۔ترکوں کو قونصل خانے اور قونصل جنرل کے مکان کی تلاشی کا موقع دیا۔ کسی سے کچھ نہیں چھپایا۔ حقیقت معلوم ہونے پر خاشقجی کی موت کا اعلان کردیا۔اہم عہدیداروں کو ان کے عہدوں سے برطرف کردیا۔ 18افراد سے پوچھ گچھ کا سلسلہ شروع کردیا۔ اعلامیہ جاری کرکے یہ بتادیا کہ موت کا باعث بننے والے اہلکاروں نے موت کے واقعہ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ۔اسی کے ساتھ ساتھ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ولیعہد کی زیر صدارت ایک وزارت کمیٹی قائم کی جسے محکمہ خفیہ کے تشکیل نو کی ذمہ داری تفویض کی گئی۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب نے خاشقجی کے معاملے میں ملوث افراد کے احتساب اور عدل کا بول بالا قائم کرنے کا اہتمام کیا۔ محکمہ خفیہ کی تشکیل نو کا فیصلہ اسلئے کیا تاکہ آئندہ اس قسم کا کوئی واقعہ نہ پیش آئے۔
    شخصیت ،واقعہ کی نوعیت اور جگہ نے خاشقجی کے معاملے کو میڈیا کا گرما گرم موضوع بنا دیا۔اس موقع پر دو طرح کے فریق سامنے آئے۔ ایک تو وہ جسے خاشقجی سے دلچسپی تھی ، دوسرا وہ جس نے اسے سیاسی حساب بے باق کرنے کا ذریعہ بنایا ۔ حقائق کے متلاشی فریق کو چشم کشا امور سامنے آنے پر اپنا ہدف مکمل ہونے کا احساس ہوگیا۔ جہاں تک خاشقجی کے مسئلے کو بنیاد بناکر سعودی عرب سے انتقام لینے والے فریق کا تعلق ہے تو وہ بڑی طاقتوں اور خود ترکی سے مملکت کے تعلقات بگاڑنے کے درپے ہے۔ وہ یہ بھول گیا کہ مملکت کو اس طرح کے حالات سے نمٹنے کا تجربہ ہے۔ 11ستمبر کے طیارہ حملے اس کا ٹھوس ثبوت ہیں۔
 
مزید پڑھیں:- - - -  - -خاشقجی ذریعہ…سعودی عرب کی تشہیر اصل ہدف

شیئر: