ماضی کابے مثال، دور حاضر کا تباہ حال شہر”کراچی“
جمعرات 25 اکتوبر 2018 3:00
آج ایک امریکی سفیر کی مرتب کردہ ڈائری ملی جسے پڑھ کر رونا آگیا
صلاح الدین حیدر ۔کراچی
اتنی عمر ہوگئی ، سینے میں ایک تاریخ پوشیدہ ہے جو شاید جلد ہی کتابی صورت اختیار کرلے، دل مچلتا ہے تو ماضی کے جھروکوں میں جھانک لیتاہوں۔آج جانے کیسے اپنے اصل کراچی جو کہ 1948ءسے لے کر 1970ءتک تھا، شاندار ،یورپ کے کسی بھی ملک کی ہمسری کرتا ہوا، پھر جانے اس کو کس کی نظر لگ گئی۔ آج ےہ تباہ حال اور برباد ہے۔ جسم کا ڈھانچہ بغیر روح کے،اسی شہر کراچی میںروزانہ سڑکیں دھلا کرتی تھیں۔ صاف و شفاف، چمکتی ہوئی،بندر روڈ جسے اب ایم اے جناح روڈ کے نام سے پکارا جاتاہے،اس کے بیچوں بیچ میرا اسکول تھا۔ عالیشان بلڈنگ، عقب میں بہت وسیع و عریض کھیل کا میدان۔ شہرمیںٹرام چلا کرتی تھی۔عمارتیں تھیں کہ بس مت پوچھئے ، ایک عظمت ہی نرالی تھی۔ وہ اب بھی کھڑی ہیں جیسے کے ایم سی بلڈنگ ، فریئرہال، لیکن گارڈن کا علاقہ جہاں بہت بڑا چڑیاگھر تھا۔ اتنے سارے کھیل کے میدان مگر بلڈر زنے قبضے کرکے لمبی چوڑی عمارتیں کھڑی کردیں۔ شہرنہ ہوا، کنکریٹ کا جنگل بن گیا۔
آج ایک امریکی سفیر کی مرتب کردہ ڈائری ملی جسے پڑھ کر رونا آگیا، آنکھیں نم ہوگئیں۔سوچا کیوں نہ قدردانوں تک پہنچا دوںتاکہ اس وقت کے لوگ اگر آج بھی بقیدحیات ہیں تو ان کی بھی یادیں تازہ ہوجائیں۔ وہ تحریر جو ایک بھرپور تاریخ ہے ، آپ کی نذرکی جا رہی ہے :
کراچی کیاتھا ، ےہ مجھے ایک سابق امریکی سفارت کارنے بتایا۔میں 2002ءمیں سیر کے لئے امریکہ گیا ۔میرے دوست مجھے نیویارک میںایک بوڑھے امریکی سفارت کار کے گھر لے گئے۔ ےہ صدر ایوب خان سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو کے دورتک پاکستان میں تعینات رہا اور جنرل ضیاءالحق کے مارشل لا کے بعد پاکستان سے لاطینی امریکہ ٹرانسفر ہوگیا۔وہ 2002ءمیں ریٹائرڈ زندگی گزار رہا تھا۔
میں اس کے اسٹڈی روم میں اس کے سامنے بیٹھ گیا، وہ بیتے دنوں کی راکھ کریدنے لگا۔ اس نے بتایا کراچی 60ءکی دہائی میں دنیا کے بہترین شہروں میں شمار ہوتا تھا۔ ےہ پر امن ترین شہر تھا۔ دنیا جہاں کے سفارت کار، سیاح اور ہپی ، شہر میں کھلے بندوں پھرتے تھے ۔ ہوٹلز، ڈسکوزاور بازار آباد تھے۔ کراچی کا ساحل دنیا کے دس شاندار ساحلوںمیں سے ایک تھا۔قومی ایئز لائنزدنیا کی چار بڑی ایئرلائیز میں آتی تھی۔ یورپ،امریکہ، مشرق بعید،عرب ممالک ، سوویت یونین،جاپان اور ہندوستان جانے والے تمام جہاز کراچی اترتے تھے اور مسافر کراچی کے بازاروں میں ایک دو گھنٹے گزار کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوجاتے تھے۔ شہر میں ڈبل ڈیکر بسیں چلتی تھیں۔ حکومت نے انڈرگراﺅنڈ ٹرین کے لئے شہر میں کھدائی مکمل کروادی تھی اور یوںکراچی ایشیا کا پہلا شہر بننے والا تھاجس میںمیٹرو کی سہولت ہوتی۔
کراچی کی روشنیاں رات کو دن میں بدل دیتی تھیں۔ ہم تمام سفارت کار کراچی کو روشنیوں کا شہر کہتے تھے۔ کراچی کے ساحل بھی لاجواب تھے۔ ہم گورے ہفتہ اور اتوار کا دن بیچ کی گرم ریت پر لیٹ کر گزارتے تھے ۔ ہم ساحل کے ساتھ ساتھ سائےکل بھی چلاتے تھے ۔ کراچی میں دنیا بھر سے بحری جہازآتے تھے اور ان بحری جہازوںکے ذریعے ہزاروں مسافر کراچی آتے تھے۔ کراچی خطے کا جنکشن بھی تھا۔ یورپ سے لوگ ٹرین کے ذریعے استنبول آتے تھے۔ استنبول سے تہران، تہران سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے کراچی آتے تھے۔کراچی میں رک کر ٹرین کے ذریعے انڈیا چلے جاتے تھے اور وہاں سے سری لنکا “نیپال اور بھوٹان“ تک پہنچ جاتے تھے۔
کراچی میں دنیا کی جدید ترین مصنوعات ملتی تھیں، میںنے زندگی کا پہلا ریڈیو ٹیپ ریکارڈر، پہلا رنگین ٹی وی اور پہلی ہیوی موٹر بائےک کراچی سے خریدی۔ کراچی بڑی گاڑیوں کی بہت بڑی مارکیٹ ہوتا تھا۔ جاپان، یورپ اورامریکہ سے مہنگی گاڑیاں کراچی آتی تھیں اور کراچی کے سیٹھ باقاعدہ بولی دے کر ےہ گاڑیاں خریدتے تھے۔ کراچی کا ریلوے اسٹیشن دنیا کے بہترین اسٹیشنوں میں شمار ہوتا تھا۔ٹرینز بھی جدید، صاف ستھری اور آرام دہ تھیںاور ٹرینوں کے اندر کھانا بھی صاف ستھرا اور معیاری ملتا تھا۔ہم میں سے زیادہ تر سفارت کار ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی میں قیام کے منصوبے بناتے تھے۔ ہم لوگ کراچی میں پراپرٹی خریدنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔شہر صاف ستھرا تھا۔ فضا بہت اچھی تھی۔ سردیوں اور گرمیوں میں درجہ حرارت معتدل رہتا تھا۔
بیورو کریسی پڑھی لکھی، محب وطن اور کوآپریٹو تھی اور حکومتی عہدیدار اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کلچرڈ تھے۔ میںنے ایوب خان کے ایک مشیر کے گھر اپنی زندگی کی سب سے بڑی پرائیویٹ لائبریری دیکھی تھی۔ لوگ بہت مہمان نواز تھے۔ شہرمیں کسی قسم کی ٹینشن اور خوف نہیں تھا۔ کراچی کے کسی سفارتخانے کے سامنے سیکیورٹی گارڈ یا پولیس نہیںر ہتی تھی۔ہم اپنے ہاتھ سے سفارت خانے کا گیٹ کھولتے تھے اور ےہ گیٹ خود بند کرتے تھے۔ پاکستان کے لئے کسی ملک کے ویزے کی ضرورت نہیںہوتی تھی۔پاکستانی شہری جہاز میںسوار ہوتے تھے، یورپ کے ممالک میں اترتے اورانہیں ایئرپورٹ پر ویزا مل جاتا تھا۔ اس کی وجہ بہت دلچسپ تھی۔پاکستان اس وقت دنیا کا واحد ملک تھا جس میں صرف ان لوگوں کو پاسپورٹ دیا جاتا تھا جو واقعی جینوئن مسافر ہوتے تھے۔پاکستانی شہریوں کوپاسپورٹ کے حصول کے لئے اپنے خوش حال ہونے، صاحب جائداد ہونے اورسفرکی وجوہات کے ثبوت دینا پڑتے تھے چنانچہ پاکستان کے جس شہری کے پاس پاسپورٹ ہوتاتھا، اس کا مطلب ہوتاتھا کہ وہ صاحب حیثیت جینوئن مسافر ہے لہٰذا تمام ممالک اسے ”آن ارائیول “ویزادے دیتے تھے۔
پاکستان کا معیارِ تعلیم پورے خطے میں بلند تھا۔طالب علم یورپ، عرب ممالک، افریقہ، مشرق بعید، ایران، افغانستان اور چین سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے پاکستان آتے تھے اور کراچی اور لاہور کے کالجوںاور یونیورسٹیوں میںد اخل ہوجاتے تھے۔ امریکہ اور یورپ کے پروفیسر روزگار کے لئے پاکستان کا رخ کرتے تھے۔کراچی شہر میں ایک ہزار کے قریب غیر ملکی ڈاکٹر، طبیب اور پروفیسر تھے۔ پاکستان کا بینکنگ سسٹم جدیدا ور فول پروف تھا۔بجلی ، ٹیلی فون اور گیس کاانتظام بہت اچھا تھا۔ سیوریج سسٹم شاندار تھا۔ کراچی میں بارش کے آدھے گھنٹے بعد سڑکیں خشک ہوجاتی تھیں، روز گار کے مواقع عام تھے، فیکٹریاں لگ رہی تھیںاور مال ایکسپورٹ ہورہاتھا۔ٹےلی وژن نیا نیا آیا تھا چنانچہ کراچی کی چھتوں پر اینٹینوں کی لمبی قطار یں دکھائی دیتی تھیں۔
ورلڈ بینک اورآئی ایم ایف کے عہدیدار اس وقت امریکی ایمبیسی آتے تھے اور ہمیںکہتے تھے تم کسی طرح پاکستانی حکومت کو قرضہ لینے پر مجبور کرو ۔ ہم وزیرخزانہ سے بات کرتے تھے تووہ کہتے کہ ہمیں قرضے کی ضرورت ہی نہیں۔ ہم پےسے لے کر کیاکریںگے؟ےہاںپہنچ کر امریکی سفارت کار نے لمبی آہ بھری اور حسرت سے کہاکہ ہم سفارت کار اس وقت ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کراچی 1980 ءتک پہنچ کر دنیا کا سب سے بڑا شہر ہوگا یا لندن اورنیویارک؟ ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔اس کے بعد اس سفارت خار نے ایک اور لمبی آہ بھری اور کہاکہ میں آج ٹی وی پر کراچی کے حالات دیکھتا ہوں یا پھر اس کے بارے میں خبریںپڑھتاہوں تو مجھے بہت افسوس ہوتاہے اور میں بڑی دیر تک سوچتا رہتاہوںکہ کیا واقعی ےہ وہی شہر ہے،میںجس میں 15سال رہا اور میں جسے دنیا کاشاندار ترین شہر سمجھتا تھا۔
ہماری میٹنگ ختم ہوگئی لیکن دکھ کانہ ختم ہونے والا احساس میرے ساتھ چپک گیاپھر میں جب بھی کراچی کے بارے میں کوئی خبرپڑھتا تھا تو مجھے اس سفارت کار کی باتیںیاد آجاتیں اورمیںسوچتاکہ ہم نے ملک کو کیا سے کیا بنادیا لیکن میرا ےہ دکھ کل ماتم میں تبدیل ہوگیا کیونکہ میںنے پڑھا کہ کراچی دنیاکے 10 خطرناک ترین شہروں میں شامل ہوچکاہے، اس کاشمار اب بغداد،این ڈی جامینا(چاڈ) ، عابد جان(آئیوری کوسٹ) ، کابل، کنساشا(کانگو) ، تبلیسی (جارجیا)،صنعا“نیروبی اورکونا گری (گنی) میںہوتا ہے۔ کراچی دنیا کے دس خطرناک ترین شہروں کی فہرست میںچھٹے نمبر پر ہے۔ کراچی میں پچھلے 2 برسوں میں صرف600 غیر ملکی آئے ہیں اور ےہ بھی سرکاری مہمان تھے اور انہیں بھاری سیکیورٹی میں ہوٹل اور اسٹیٹ گیسٹ ہاﺅس پہنچایا گیا۔
کراچی دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میںبھی شامل ہوچکاہے۔اس کے ساحل، فضا اورسڑکیں آلودگی کی انتہا ءکو چھو رہی ہیں۔بارش کے بعد کراچی میں نکلنا محال ہوجاتاہے جبکہ شہر میں اسٹریٹ کرائم کی صورتحال ےہ ہے کہ کراچی کے لوگ ہاتھ میں سستا موبائل، جیب میں اضافی پرس جس میںتین چار ہزار روپے سے زائد نہ ہوںاورکلائی پر سستی سی گھڑی پہن کر گھر سے نکلتے ہیں اورانہیں جس چوک پر ”سب کچھ ہمارے حوالے کردو“ کاحکم ہوتاہے ےہ چپ چاپ اپنی گھڑی، اپنا پرس اور اپنا موبائل حکم دینے والے کے حوالے کردیتے ہیں لیکن ےہ اس کے باوجود مارے جاتے ہیں کیونکہ لٹیرے صرف مال ہی نہیں چھینتے بلکہ انہیںجان لینے کا مینڈیٹ بھی حاصل ہوتاہے۔
کراچی شہرمیںعام بڑی شاہراہوں پربھی سفرمحال ہے۔ گاڑیاںچھیننا موٹرسائےکل لے لینا اور کسی بھی راہ گیر کو اغواکرلینا عام ہے۔ کراچی میں لاشوں کام موسم آتاہے تو ہزار ہزار نعشیں گرجاتی ہیں اور اسپتالوں اورقبرستانوں میںنعشیں رکھنے کی گنجائش نہیں بچتی۔ شہر چار قسم کے مافیاز اوربھتہ گیروں میں تقسیم ہے اور ہر گروپ قانون اور حکومت سے مضبوط ہے۔ حکومت کسی گروپ کے اشتہاری کو گرفتار کرنے کارسک نہیں لے سکتی۔ربیع الاول اورمحرم الحرام کے مہینے شہر پر خوف بن کر آتے ہیں۔ شہرکے تاجر اور صنعت کار حکومت کی بجائے مافیا کوٹیکس دیتے ہیں اورےہ جب تک ٹیکس دیتے رہتے ہیں، ان کا مال ، ان کاخاندان اور ان کی فیکٹری بچی رہتی ہے لیکن ےہ جس دن اپنی مجبوری کا رونا روتے ہیں،اس کے بعد باقی زندگی رورو کر گزارتے ہیں۔
ماضی کا شاندار ترین شہربے مثال ، کراچی آج ایک وبال ایک ناسوربن چکا ہے ا وراس ناسور سے آہستہ آہستہ خون اور پیپ ٹپک رہی ہے اورکوئی اس ناسور پر پٹی رکھنے کے لئے تیار نہیں، بااختیار صاحبان اس برباد ہوتے شہر کا نظارہ کررہے ہیں، جسے کبھی شہروں کی دلہن کہا جاتا تھامگر سوال ےہ ہے کہ کیاہم اس شہر کو اسی طرح برباد ہونے دیںگے اور اگرواقعی ےہ شہربرباد ہوگیا توپتا ہے کیاکچھ قائم نہیںرہ سکے گا؟ ےہ وہ سوال ہے جو آج کا ہر شہری پوچھ رہا ہے مگر کوئی اس کا جواب دینے کے لئے تیار نہیں کیونکہ ”غریب“ ملکوں میں اکثر بااختیار لوگ جواب نہیں دیا کرتے بلکہ یہ سوال کے جواب میں سوال پوچھتے ہیں اور سوالوں کی اس تکرار میںبے بسی کے اندھیرے گہرے ہوجاتے ہیں ، کراچی کی فضاﺅںکی طرح۔