عبد المالک مجاہد۔الریاض
گزشتہ سے پیوستہ
اہل سمر قند اور کاہنوں نے قاضی کے فیصلے کو سنا ٗ ان کے کانوں اور آنکھوں نے جو سنا اور دیکھا اس پر یقین نہیں آرہا تھا، ہم کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہے۔ قاضی نے حکومت کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ بہت ساروں کو تو پتہ ہی نہ چلا کہ عدالت برخاست ہو چکی ہے۔ قاضی اور امیر روانہ بھی ہو چکے ہیں۔
ہمارا سمر قندی (مسلم) ایلچی بڑی حیرت سے بڑے کاہن کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اس کے چہرے کے تاثرات کو خوب غور سے دیکھا۔ ان کے رنگ بدل رہے ہیں۔ وہ گہری سوچ میں مبتلا ہے۔ بڑے کاہن نے اپنے دماغ پر زور دینا شروع کیا۔ اس کی آنکھیں بند ہو گئی ہیں۔ اس نے اپنی سابقہ زندگی پر غور کرنا شروع کیا۔ اپنے عقیدے اور منہج کے بارے میں سوچنے لگا: کتنا ہی عجیب و غریب اس کا عقیدہ ہے۔ اس کا دائرہ کتنا مختصر اور چھوٹا ہے جو صرف کاہنوں کے درمیان گھومتا ہے؟ اور اب اس کا ذہن دین اسلام کے حوالے سے سوچ رہا ہے۔ اس کا دائرہ کتنا وسیع اور بڑا ہے۔ خیر سے بھرپور ،عدل و انصاف کرنے والا دین ،یہ دین جس کی سر بلندیوں کو سورج کی شعائیں ،چاند کی روشنی بھی چھونے سے قاصر ہے۔
وہ آنکھیں بند کر کے کتنی ہی دیر بیٹھا رہا ٗ سوچتا رہا ٗ سوچتا رہا۔ اس کا ذہن اور فکر مسلسل بدل رہا ہے۔ میں کب تک اندھیروں میں رہوں گا۔ روشنی تو بڑی واضح ہے۔ یقینا اسلام عدل و انصاف کا دین ہے۔ اس میں چھوٹا بڑا سب برابر ہیں۔ آج عدالت میں سب لوگوں نے دیکھا۔ قاضی کے سامنے کس طرح حاکم سر نگوں ہو کر بیٹھا تھا۔ کیا کبھی ہمارا بادشاہ اس طرح عدالت کے سامنے پیش ہو سکتا ہے۔ وہ ابھی اس غور و فکر میں تھا کہ اسے گھوڑوں کے چلنے کی آوازیں سنائی دیں۔ لوگ بازاروں سے گزر رہے تھے۔ شور برپا تھا۔ اس نے آنکھیں کھولیں۔ آوازوں کی طرف کان لگائے۔ پھر اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ شور کیسا ہے؟
بتایا گیا کہ قاضی کے فیصلے پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے اور فوجیں واپس جا رہی ہیں۔ ہاں وہ عظیم فوج جس کے سامنے یثرب سے لے کر سمر قند تک کوئی چیز رکاوٹ نہ بن سکیJ جس نے قیصر و کسریٰ اور خاقان کی قوتوں کو پاش پاش کر رکھ دیا۔ جو طاقت بھی اس کے راستے میں آئی اسے وہ خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گئے مگر آج وہی فوج ایک کمزور سے جسم کے مالک قاضی کے سامنے دست بردار ہو گئی ہے۔ آج صبح کی بات ہے ایک شخص جس کے ساتھ صرف ایک غلام تھا، اس نے مقدمہ کی سماعت کی ، چند منٹوں کی سماعت۔ عدالت میں دو طرفہ بیانات سنے ۔ سپہ سالار کا اقرار اور پھر دو تین فقروں پر مشتمل فیصلہ۔ مسلمانوں کے کمانڈر کو عدالت نے شہر خالی کرنے کا حکم دیدیا۔
عدالت کے حکم کے مطابق وہ شہر سے نکلنے کے بعد تیاری کے لیے باقاعدہ چیلنج دیں گے اور پھر دوبارہ لڑائی کریں گے۔
کاہن اپنے ساتھیوں کی باتیں سنتا جا رہا ہے اور پھر اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ کیا اہل سمر قند اس سیل رواں کے سامنے ڈٹ سکیں گے؟ کیا ان کے پاس مقابلہ کی قوت ہے؟ دنیا کے تمام ممالک ان کے سامنے جھک گئے ۔ کیا ہمارا باطل دین اس حق کے سامنے ٹھہر سکے گا۔ کیا وہ نور اسلام کا مقابلہ کر پائے گا۔
نہیں ہر گز نہیں، رب کا فیصلہ آچکا ہے کہ ظلم و ستم کی رات کو ختم ہونا ہے۔ دنیا پر نئی فجر طلوع ہو رہی ہے۔ اس نور کے مقابلے میں کوئی بھی نہیں ٹھہر سکتا۔ اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھااور کہا: تمہاری کیا رائے ہے، ہمیں کیا کرنا چاہیے، کیا ہم ان کا مقابلہ کر سکیں گے؟… ارے جواب کیوں نہیں دیتے۔ اس نے انہیں پکارا۔ سمرقندی مسلم ایلچی زور سے کہنے لگا:ساتھیو! میرا فیصلہ اور مشورہ سنتے ہو۔ کان اس کی طرف لگ گئے۔ اس نے کہا:
فَلَقَدْ شَہِدْتُ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ۔
’’ میں تو اس بات کی گواہی دے چکا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘
اور اب بڑے کاہن کی باری تھی، وہ بولا: اور میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اس کے پیغمبر اور رسول ہیں۔
پھر سمر قند کی گلیاں اور چوک اللہ اکبر کے نعروں سے گونج رہے ہیں۔ لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مسلم مجاہدین کے گھوڑوں کی باگیں پکڑ لی ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں:اس ملک سے واپس مت جائو ،ہمیں اسلامی عدل و انصاف کی ضرورت ہے۔ ہم نے اپنوں کا راج دیکھاہے، ان کے ظلم و ستم سے ہم خوب واقف ہیں۔ آپ لوگ واپس لوٹ آئیں۔ ہم سب نے بھی تمہارے دین کو قبول کر لیا ہے۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد مسلمان فوج واپس ایک اسلامی ملک میں ان سے لڑنے کے لیے نہیں بلکہ ان کی حفاظت کے لیے داخل ہو رہی تھی۔
لَمْ یَبْقَ حَاکِمٌ وَلَا مَحْکُومٌ وَلَا غَالِبٌ وَلَا مَغْلُوبٌ، صَارَ الْجَمِیعُ إِخْوَانًا فِي اللّٰہِ۔
’’کوئی حاکم و محکوم باقی نہیں رہا، کوئی غالب اور مغلوب نہیں رہا،سب کے سب اللہ کے لیے بھائی بھائی بن گئے ہیں۔‘‘
کسی عربی کو کسی عجمی پر فضیلت نہیں۔ کوئی طاقتور کمزور پر بھاری نہیں۔ ہاں فرق کرنے والی چیز تقویٰ ہے۔ لوگوں کے درمیان اصلاح کرنے والے اور خیر کے کاموں میں سبقت حاصل کرنے والے کو فضیلت ضرور حاصل ہے۔
قارئین کرام! اس طرح سمر قند کی سرزمین میں اسلام کی دولت داخل ہو گئی اور اس میں سے کبھی بھی یہ دولت نہیں نکل سکی۔
بات ختم کرنے سے پہلے اسلام کے اس نامور جرنیل قتیبہ بن مسلم کے بارے میں ذرا تفصیل سے جانتے ہیں، پھر اس مضمون کو ختم کرتے ہیں۔
یہ قتیبہ بن مسلم بن عمرو بن حصین ہیں۔ ان کے والد مسلم بن عمرو سیدنا عبد اللہ بن زبیر کے بھائی مصعب بن زبیر کے خاص ساتھیوں میں سے تھے۔ مصعب بن زبیر ان دنوں عراق کے گورنر تھے۔قتیبہ کالڑکپن اور نوجوانی کا عرصہ گھوڑسواری ، تیر اندازی اور شمشیر زنی کے کمالات حاصل کرتے ہوئے گزرا۔ جب وہ ایک شاندار جنگجو اور شہسوار بن گئے تو امیر مہلب بن ابی صفرہ کی نگاہِ انتخاب قتیبہ پر جا ٹھہری۔ مہلب کو انسانوں کے درمیان سے ہیرے تلاش کرنے کا بہت عمدہ تجربہ تھا۔انہوں نے اس نوجوان کی صلاحیتوں کا اندازہ لگا لیا اور عراق کے گورنر کو لکھا کہ قتیبہ کو اپنی ٹیم میں شامل کرو چنانچہ قتیبہ جب ہر آزمائش میں پورے اترے تو انہیں اسلامی فوج کا سپہ سالار بنا دیا گیا۔ انہوں نے خوارزم، بخارا، سمرقند، بلخ اور کاشغر کو فتح کیا۔ وہ جس طرف رخ کرتے وہاں اسلام کے جھنڈے لہرا دیتے۔
جب آپ نے بخارا کے آخری شہر بیکند کا محاصرہ کیا تو آپ نے اپنے چند جاسوسوں کو شہر کے اندرونی حالات کی خبر لانے کے لیے بھیجا۔ وہاں کے عمائدین نے ان جاسوسوں کو بھاری رشوت دے کر اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ قتیبہ کے سامنے جاکر ایک مایوس کن رپورٹ پیش کریں اور صورتحال کو ہولناک بنا کر اس کی اس طرح وضاحت کریں کہ قتیبہ بد دل ہو کر شہر کو فتح کرنے کا ارادہ ترک کر دے اور واپس چلا جائے۔ قتیبہ کو جاسوسوں کی خیانت کا اندازہ ہو گیا۔ اس نے ان تمام جاسوسوں کو قتل کر دیا اور اپنے لشکر کو جمع کرکے ان کے سامنے ایک عظیم الشان خطبہ دیا۔انہیں جہاد پر ابھارا، حتیٰ کہ تمام فوج ایک نئے ولولے کے ساتھ حملہ کرنے کے لیے تیار ہوگئی۔اسلامی فوج نے بہادری اور جرأت کی شاندار داستانیں رقم کیں اور شہر فتح ہو گیا۔بیکند کی فتح کے بعد اس قدر مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا جس کا اندازہ کرنا مشکل تھا۔
قتیبہ بن مسلم 94 ہجری میں افغانستان کا رخ کرتا ہے اور کابل کو فتح کرتا ہے۔ پھر یہ مسلم جرنیل قسم کھاتا ہے :اس نے کہا تھا: میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوںگا جب تک میں چین کی مٹی کو اپنے قدموں سے روند نہ لوں ، یا مجھے چین کا بادشاہ جزیہ ادا نہ کرے۔ جب چین کے بادشاہ کو قتیبہ بن مسلم کی قسم کے بارے میں علم ہوا تو اس نے سونے کا ایک بڑا برتن بنوایا، اس میں چین کی مٹی ڈالی۔ شاہی خاندان کے 4 افراد کے ساتھ جزیہ اور سونے کابرتن جس میں چین کی مٹی تھی قتیبہ کو بھجواتا ہے اور کہتا ہے:مسلم جرنیل! چین کی اس مٹی کو قدموں تلے روند کر اپنی قسم پوری کرلے اور ہمارے ملک کا رخ نہ کرے، ہمیں جزیہ کی ادائیگی منظور ہے۔
قتیبہ بن مسلم اور ایک قیدی کا واقعہ:
حجاج بن یوسف کے دور کی بات ہے، اس کے پاس بغاوت کے مرتکب کچھ قیدی لائے گئے۔ حجاج نے ان سب کے قتل کا حکم دیا ، مگر اللہ کی مرضی ایسی ہوئی کہ ایک قیدی قتل ہونے سے رہ گیا تھا کہ نماز مغرب کا وقت ہو گیا۔ حجاج نے حکم دیا کہ قتل کا سلسلہ روک دیا جائے‘ پہلے نماز ادا کی جائے۔ حجاج کو نجانے کیا سوجھی کہ اس نے اپنے نہایت معتمد سالار قتیبہ بن مسلم کو اشارہ کیا کہ میری بات سنو۔ قتیبہ سے کہنے لگا: اس قیدی کو تم اپنے گھر لے جائو۔ کل صبح اسے لے کر آنا‘ اسے کل قتل کریں گے۔ آج کی رات یہ باغی تمہارے پاس گزارے گا۔ قتیبہ نے قیدی کو ساتھ لیا اور اپنے گھر کی طرف چل دیے۔
قتیبہ بن مسلم کہتے ہیں: راستے میں اس قیدی نے بڑی لجاجت سے مجھ سے کہا: قتیبہ! میری بات سنو‘ میں نے کہا: ہاں، بولو! کیا کہتے ہو؟ کہنے لگا: اگر تمہارے اندر کچھ خیر کا جذبہ ہے تو میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ میں نے اجازت دی تو کہنے لگا: میرے گھر میں لوگوں کی امانتیں رکھی ہوئی ہیں۔ تمہیں معلوم ہے کہ کل حجاج مجھے قتل کر دے گا۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ تم مجھے میرے گھر جانے دو۔ میں لوگوں کی امانتیں واپس کر دوں، حق داروں کا حق ادا کروں جو کچھ لینا دینا اور حساب کتاب ہے‘ اپنے ورثاء کو بتا آئوں۔ میںاللہ رب العزت کو کفیل بنا کر کہتا ہوں کہ میں کل واپس آ جائوں گا۔
قتیبہ کہتے ہیں: میں اس کی بات سن کر بڑا متعجب بھی ہوا اور مسکرایا بھی کہ یہ کس قسم کی بات کر رہا ہے؟! اس نے پھر میرے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: سنو! میں اپنے رب کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں ضرور واپس آ جائوں گا۔ بس تم ایک مرتبہ مجھے جانے دو۔ ادھر میں مسلسل انکار کرتا رہا اور وہ اصرار کرتا رہا ۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں ایک باغی کو چھوڑ دوں‘ یہ کیسے ممکن ہے؟ ادھر اس کا اصرار جاری رہا۔ وہ منت سماجت کرتا رہا۔ اپنے دلائل دیتا رہا‘ وعدے کرتا رہا۔ مجھے اس پر نجانے کیوں ترس آ گیا‘ میں نے اس کی بات کا اعتبار کر لیا اور کہا: جائو! تم جا سکتے ہو لیکن ہر حا ل میں صبح سویرے واپس آ جانا۔
جیسے ہی میں نے اس کی رسیاں کھولیں اور اسے اجازت ملی تو وہ فورا ًروانہ ہو گیا۔ اب وہ چلا تو گیا،مگر میری یہ حالت تھی کہ مجھے اپنے اس فیصلے پر بڑی ندامت اور پشیمانی ہوئی۔ میں نے یہ کیا کر دیا، اسے چھوڑ کیوں دیا۔ اس کے وعدوں پر کیوں اور کیسے اعتبار کر لیا؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک باغی آزاد ہونے کے بعد قتل ہونے کے لیے واپس آ جائے۔ میں حجاج کو خوب جانتا تھا کہ وہ اگلے دن صبح سویرے سب سے پہلے مجھ سے قیدی کے بارے میںسوال کرے گا۔ جب قیدی اسے نہیں ملے گا تو پھر میری خیر نہیں۔ قیدی کے بدلے میں مجھے قتل کروانا حجاج کے لیے معمولی سی بات ہو گی۔ یہ رات میری زندگی کی سب سے طویل اور بھیانک رات ثابت ہوئی۔ میں اللہ کے حضور روتا رہا‘ مناجات اور دعائیں کرتا رہا۔ میری ایک ہی تمنا تھی کہ وہ باغی واپس آ جائے ۔ میں اگلے دن کی صبح کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہا تھا۔ صبح سویرے ہی میرے گھر کا دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا۔ میں نے بھاگ کر دروازہ کھولا تو سامنے وہ باغی قیدی کھڑا تھا۔ میں نے لاکھ مرتبہ اللہ کا شکر ادا کیا۔ میری جان میں جان آئی۔ مجھے اعتبار نہیں آ رہا تھا اور پھر میں نے اس سے پوچھ ہی لیا: تم واقعی واپس آگئے ہو؟ کہنے لگا: قتیبہ! تمہارے سامنے ہی تو کھڑا ہوں اور پھر اس بدو نے بڑی زبردست بات کہی۔ کہنے لگا: جَعَلْتُ اللّٰہَ کَفِیلًا وَلَا أَرْجِعُ؟!۔’’ میں نے اللہ رب العزت کو کفیل بنایا تھا تو پھر میں واپس کیسے نہ آتا؟!‘‘میں نے اسے ساتھ لیا اور حجاج کے پاس چلا آیا۔قیدی کو میں نے دربان کے پاس چھوڑا۔ حجاج نے مجھے دیکھتے ہی کہا: قتیبہ! وہ ہمارا قیدی کدھر ہے؟ میں نے کہا: امیر کی خیر اور سلامتی ہو۔آپ کا قیدی دروازے پر دربان کے پاس ہے۔
میں دروازے کی طرف لپکا اور قیدی کو حجاج کے سامنے پیش کر دیا۔ میں نے عرض کیا: جناب امیر! قیدی آپ کو واپس کیا جاتا ہے، مگرجو کچھ رات کو پیش آیا ہے پہلے وہ سن لیں۔ ا س کے ساتھ ہی میں نے اسے رات والا پورا واقعہ من وعن سنا دیا کہ کس طرح اس نے امانت کی ادائیگی کے لیے منتیں سماجتیں کر کے مجھ سے ایک رات کی رخصت لی‘ اللہ کو کفیل بنایا اور پھر وعدے کے مطابق واپس بھی آ گیا۔
حجاج نے قیدی کو اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر دیکھنا شروع کر دیا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کسی فیصلے پر پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ شاید اسے وعدے کی پاسداری پسند آ گئی یا اللہ نے اس کے دل میں نرمی ڈال دی۔ اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا: وَھَبْتُہُ لَکَ’’یہ قیدی میں نے تمہیں بخش دیا ہے ‘‘۔تم جو سلوک چاہو اس کے ساتھ کرسکتے ہو۔تمہاری مرضی ہے۔ میں نے باغی قیدی کو اپنے ہمراہ لیا اور باہر آ گیا۔ باہر نکلے تو میں نے قیدی سے کہا: جائو! جہاں تمہارا جی چاہے چلے جائو۔ تم میری طرف سے آزاد ہو۔
باغی نے اپنی رہائی کی بات سنی تو اپنا چہرہ آسمان والے کی طرف کر لیا۔ کہنے لگا: اللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ۔ ’’اللہ! تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں اور تیرا ہی شکر ہے‘‘ ۔
یہ کہتے ہی وہ اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ اس نے مزید کوئی بات کہی نہ میرا شکریہ ادا کیا۔
مجھے بڑا تعجب تھا کہ بڑا عجیب آدمی ہے۔ اس نے’ ’جزاک اللہ‘‘ کہنا بھی گوارا نہیں کیا، نہ ہی میرا شکریہ ادا کیا حالانکہ میں نے تو اسے موت کے منہ سے بچایا ہے۔ خیر میں اس پر افسوس کرتا ہوا گھر آگیا۔ دل ہی دل میں کہہ رہا تھا کہ یہ شخص واقعی بدو ہے‘ مجنون ہے‘ دیوانہ ہے مگر مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ یہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والا بدو عقیدۂ توحید پر کتنی سختی سے کاربند ہے۔
اگلے دن کا سورج طلوع ہواتو وہ بدو ایک مرتبہ پھر میرے گھر آ گیا۔ ملاقات ہوئی تو کہنے لگا: یَا ھَذَا جَزَاکَ اللّٰہُ عَنِّي أَفْضَلَ الْجَزَاء’’بھائی! اللہ تعالیٰ آپ کو میری طرف سے بہتر سے بہتر بدلہ عطا فرمائے‘‘ ۔میں نے کل آپ کے ہاں سے جاتے ہوئے صرف اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی تھی اور اسی کا شکر ادا کیا تھا۔ میں نے آپ کا شکریہ ادا نہیں کیا۔ مجھے خوب معلوم ہے کہ یہ کوئی اچھی بات نہ تھی لیکن آپ برا مت مانیے گا’’وَلٰکِنْ کَرِھْتُ أَنْ أُشْرِکَ فِي حَمْدِ اللّٰہِ أَحَدًا‘‘۔ ’’میں نے ایسا اس لیے کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور اس کے شکر میں کسی غیر کو شریک کرنا نہیں چاہتا تھا۔
قارئین کرام ! اسلام کا یہ بطل جلیل بے شمار کامیابیاں سمیٹ کر صرف 47برس کی عمر میں ایک لڑائی میں قتل کر دیا جاتا ہے۔ تاریخِ اسلامی قتیبہ بن مسلم کے نام پر ہمیشہ ناز کرتی رہے گی۔