اللہ تعالٰی پر ایمان ، تمام ارکان کی بنیاد
اتوار 21 اکتوبر 2018 3:00
تمام مخلوقات ، فرشتے اور جن وانس سب اسی کے غلام ہیں، سب اس کی بادشاہت، طاقت اور اس کے ارادے سے باہر نہیں نکل سکتے
* * *ام عدنان قمر۔ الخبر * * *
ارکانِ ایمان میں سے سب سے افضل اللہ پر ایمان لانا ہے جیسا کہ حدیث ِرسول میں ہے کہ جب آپ سے یہ سوال کیا گیا کہ:
’’ کون سا عمل افضل ہے ؟ ‘‘
توآپ نے جواب دیا :
’’ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔‘‘(بخاری ، مسلم ) ۔
اس کی دلیل نبی کریم کا یہ ارشاد ہے کہ جب حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ سے پوچھا :
’’ مجھے ایمان کے بارے میں بتائیں۔ ‘‘
تو آپ نے جواب میں فرمایا :
’’ ایمان یہ ہے کہ اللہ پر ، ملائکہ پر، آسمانی کتابوں پر ، رسولوں پر ، یوم ِآخرت پر اور بھلی بری تقدیر پر ایمان لائیں۔ ‘‘ (بخاری ، مسلم )۔
ایمانی صفات میں سب سے پہلی صفت یہ ہے کہ ہم دل کی گہرائیو ں سے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے وجود کی اس طرح پختہ تصدیق کریں کہ اس ذات کا مد مقابل نہ پہلے تھا اور نہ بعدمیں ہو سکتا ہے ، وہی اول ہے اس سے پہلے کچھ بھی نہیں ، وہی آخر ہے اس کے بعد کچھ بھی نہیں ، وہی ظاہر ہے اس کے اوپر کچھ بھی نہیں ، وہی باطن ہے اس کے ماوراء کچھ بھی نہیں ، وہ ’’حی‘‘ (زندہ) ، ’’قیوم‘‘ (تھا منے والا) ، ’’احد‘‘ (یکتا) او ر’’ صمد‘‘ (بے نیاز) ہے:
’’ جس کی نہ کوئی اولاد ہے او نہ وہ کسی کی اولاد اور اس کا مدمقابل کوئی نہیں۔‘‘ ( الاخلاص4,3) ۔
نیز یہ تصدیق کرنا کہ وہ اپنی الوہیت ، ربوبیت اور اسماء وصفات میں یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ۔تمام ظاہری وباطنی اور قولی وعملی عبادتوں کو صرف اللہ تعالیٰ کیلئے خاص کرنا اور اس کے علاوہ ہر چیز سے عبادت کی نفی کر نا خواہ ملائکہ ورسول ہی کیوں نہ ہوں۔
تمام مخلوقات و فرشتے اور جن وانس سب اسی کے غلام اور بندے ہیں، یہ سب اس کی بادشاہت، طاقت اور اس کے ارادے سے باہر نہیں نکل سکتے، وہ ایک پاک ذات ہے۔یہ تمام خصوصیات صرف اسی کا حق ہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ ان چیزوں کا اس کے سوا اور کوئی حقدار نہیں، ان چیزوں کی نسبت کسی دوسرے کی طرف کرنا یا ان میں سے کسی چیز کا اثبات اس کے سوا کسی اور کیلئے کرنا قطعاً جائز نہیں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اے لوگو! اپنے اُس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم پر ہیز گار بن جائو، وہ ذات جس نے زمین کوتمہارے لئے بچھونااور آسمان کو چھت بنایااورآسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کئے جو تمہارے لئے روزی ہیں۔‘‘ (البقرہ21،22)۔
اور فرمایا:
’’آپؐ کہہ دیجئے :اے اللہ! اے تمام بادشاہت کے مالک! تو جسے چاہتا ہے بادشاہت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے بادشاہت چھین لیتا ہے اور تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘( آل عمران26)۔
اور فرمایا :
یاد رکھو! اللہ ہی کیلئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا، با برکت ہے وہ اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے۔(الْاعْراف54)۔
توحیدِ ربوبیت یہ ہے کہ بندہ اس بات کا پختہ وجازم اقرار کرے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا رب ،خالق ، مالک ، مدبر اور متصرف ہے ۔مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہی اس کائنات کا خالق و مدبر سمجھیں جیسا کہ وہ ہے اور اپنے علم و قدرت کی بنیاد پر جس طرح چاہتا ہے خود سارے معاملات کا انتظام کرتا ہے ، دنیا و آخرت اور سارے جہانوں کا مالک ہے ، اس کے علاوہ کوئی خالق اور رب نہیں، اس نے اپنے بندوں کو دنیا و آخرت کی اصلاح اور نجات و کامرانی کی راہ دکھانے کیلئے اپنے رسول بھیجے اور کتابیں نازل کیں ۔
کائنات کا خالق ہو نے کے سلسلہ میں سورۃ الزمر ، آیت 62 میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
’’ اللہ ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی ہرچیز کا نگران ہے ۔‘‘
سورۃ البقرہ163 میں الوہیت کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے :
’’ اور (لوگو!) تمہارا معبود ایک ہی (یعنی اللہ تعالیٰ) ہے اُس بڑے مہربان (اور) رحم والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔‘‘