مسلم سماج کے اندر مسجد میں خواتین کی نماز کا حقیقی مسئلہ ہی نہیں ، یہ محض ایک بے بنیاد بات کو مسئلہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے
* * * پروفیسراخترالواسع* * *
گزشتہ دنوں سبری مالا مندر میں ہرعمر کی خواتین کے داخلہ کے حوالہ سے سپریم کورٹ کاجو فیصلہ آیا،اسی کے تناظر میں بعض غیر مسلم تنظیموں نے مسلم خواتین کو بھی مسجد میں جانے کا حق دلانے کے لئے کورٹ میں مقدمہ دائر کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ افسوس کہ ہماری بعض مسلم بہنیں بھی ان کے اس جھانسہ کا شکار ہوگئی ہیں اورا س مسئلہ کو ٹی وی ڈبیٹ کاحصہ بنادیاگیاجس میں یہ باورکرانے کی کوشش کی گئی کہ شریعت اورمسلمان خواتین کومذہبی امورمیں بھی حق دینے کے لیے روادارنہیں ۔مجھے حیرانی ہے کہ مسجدمیں مسلم عورتوں کومساویانہ حقوق کی بات وہی لوگ کررہے ہیںجنہیں ہندوستان میں مساجدومدارس سے بیرہے۔انہیں جمعہ کے روزمسجدمیں غیرمعمولی اژدھام کی وجہ سے روڈپر نماز پڑھنے پر اعتراض ہے اوریہی وہ لوگ ہیں جنہیں خالی پلاٹوں اورپارکوں میں بھی مسلمانوں کا نمازپڑھناگوارانہیں ۔ سوال یہ ہے کہ جب ایسے لوگوں کومسجدکی تعمیرہی ایک آنکھ نہیں بھاتی وہ کس مسجدمیں عورتوں کوحقوق دلانے کی بات کررہے ہیں؟
اسلامی شریعت کے احکام کوئی ڈھکے چھپے نہیں ، وہ ہر زبان میں موجود اور ان تک ہر ایک کی رسائی ہے۔ مسجد میں عورتوں کی نماز کے تعلق سے اسلام میں غیرمعمولی توسع ہے جو خواتین کو حق بھی دیتاہے اورآزادی بھی ۔ مسجد میں عورتوں کو نمازاداکرنے کی اجازت ہمیشہ سے رہی ہے، خود رسول اللہ کے زمانہ میں خواتین مسجد نبوی میں آ کر نماز اور خطبہ میں شریک ہوا کرتی تھیں، اور یہ معمول عہد نبوی کے پورے دور میں رہا ہے۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اس کی باریک سے باریک تفصیلات موجود ملتی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں نہ صرف نماز اور علمی مجلسوں میں شریک ہوا کرتی تھیں بلکہ وہ سوالات بھی کرتی تھیں اور اپنی رائے بھی دیا کرتی تھیں۔ یہی طریقہ خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی جاری رہا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب ممبر پر خطبہ دیتے ہوئے عورتوں کے مہر کی حد مقرر کرنی چاہی تو ایک خاتون نے ہی کھڑے ہو کر اعتراض کیا اور کہا کہ جس چیز کی تحدید اللہ تعالیٰ نے نہیں کی وہ آپ کیسے کر سکتے ہیں؟ حضرت عمر فاروق نے فورا ہی اس خاتون کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے اپنی رائے سے رجوع کر لیا۔ اس واقعہ سے بھی صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مسجد نبوی میں مردوں کے ساتھ خواتین بھی نماز اور خطبہ میں شریک رہا کرتی تھیں۔
اس سلسلہ میں اسلامی شریعت کا حکم بڑا ہی معقول ہے۔ اس نے مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا مردوں کے لئے تو لازمی قرار دیا، یعنی اگر وہ مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھیں اور اپنے گھروں میں تنہا پڑھ لیں تو وہ نماز مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں مانی جائے گی اور ان سے یہ مطالبہ باقی رہے گا کہ وہ مسجد میں آ کر جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں۔ دوسرے لفظوں میں مسجد کے اندر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا مردوں کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے۔ اس کے بالمقابل مسجد میں عورتوں کے لئے نماز میں شرکت کو لازمی اور ضروری نہیں بنایا گیا۔یہ سہولت اور خصوصی رعایت اسلامی قانون نے عورتوں کو عطا کی ہے مردوں کو نہیں۔
اسلامی تاریخ کے ہر دور میں عورتوں نے اس خصوصی رعایت اور سہولت کے مطابق اپنی نمازیں ادا کیں، چنانچہ آج ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ مکہ مکرمہ کی مسجد حرام میں اور مدینہ منورہ کی مسجد نبوی میں، دہلی کی جامع مسجد میں، حیدرآباد کی مکہ مسجد میں اور اس طرح کی کسی بھی بڑی مسجد میں خواتین نمازیں ادا کرتی ہیں اور اسی طرح وہ اپنی مرضی کے مطابق اپنے گھروں کے اندر بھی نمازیں پڑھتی ہیں۔ یہ بات بھی بہت دلچسپ ہے کہ خانقاہوں اور مزارات پر بھی عورتوں کی حاضری دیکھی جا سکتی ہے۔
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ قرن اول کے مقابلے میں یہ عہدفتنوں کاعہدہے اورخواتین کے حوالے سے تمام سروے اور احوال وقرائن یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ خواتین کی عفت کوہرآن خطر ہ رہتاہے ،چنانچہ اسی تناظرمیں صحابہ کے ہی عہد میں خواتین کو گھروں میں نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی اوربعدکے دنوں میں فقہاومجتہدین نے عورتوںکوگھروں میں ہی نمازپڑھنے کی تلقین کی ،تاہم مسجدمیں عورتوںکونمازپڑھنے کی ممانعت آج بھی نہیں بلکہ بہت سی مساجدمیں خاص طورپر جمعہ کی نمازمیں عورتیں شریک ہوتی ہیں۔
ایک اور بات بھی غور کے قابل ہے وہ یہ کہ جو لوگ اسلام کی دی ہوئی اس سہولت کو اس رخ سے دیکھنے کے بجائے عورت کے دوش پر بھی یہ ذمہ داری ڈالنا چاہتے ہیں کہ عورتیں بھی مردوں کے دوش بدوش مسجد کی نماز میں لازماً شریک ہوں بلکہ آگے بڑھ کر نماز کی امامت بھی کریں، وہ ذرا اس بات پر غور کریں کہ اگر کوئی خاتون کسی محلہ کی مسجد کی امامت کا فریضہ انجام دے اور وہ اپنی طبعی مجبوری کے تحت ہر مہینہ کچھ دنوں تک امامت تو کیا نماز کے پڑھنے کی حالت میں بھی نہ ہو توایسی صورت میں ان کی اس مخصوص حالت کو پردے میں رکھنا ہر سماج کا مہذب عمل سمجھا جاتا ہے مگران کے امامت سے غائب رہنے کی وجہ سے ان دنوں میں کیا وہ پردہ خفاوالی بات عوام میں عام نہیں ہو جائے گی؟ یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ اسلامی قانون کے مطابق عورتیں صرف عورتوں کی نماز کی امامت کر سکتی ہیں اور مسلم سماج کے اندر اس کا رواج بھی موجود ہے، چنانچہ رمضان کے مہینہ میں تراویح میں عورتوں کی نماز کی امامت خاتون حافظہ قرآن بھی کرتی ہیں اور مختلف شہروں میں ماہ رمضان کے اندر یہ عمل دیکھا جا سکتا ہے۔
ان تفصیلات سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ مسلم سماج کے اندر مسجد میں خواتین کی نماز کا مسئلہ کوئی حقیقی مسئلہ ہی نہیں ۔ یہ محض ایک بے بنیاد بات کو مسئلہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بعض فرقہ پرست تنظیمیں اور ان سے جڑے افراد ملک میں امن وامان باقی رکھنے کے بجائے مختلف مذہبی اکائیوں کو آپس میں الجھائے رکھنا چاہتی ہیں، اور مسلمانوں کو ملک کی تعمیر وترقی میں اپنا مؤثر اور فعال کردار ادا کرنے کے مواقع سے فائدہ اٹھانے دینے کے بجائے انھیںNon Issues میں الجھائے رکھنا چاہتی ہیں۔ ایسی ذہنیت کے لوگ کسی بھی قیمت پر ملک کے لئے مخلص نہیں ہو سکتے۔ مسلم سماج کے جن افراد اور خواتین کو ایسی بے بنیاد اور تخریبی کاموں کا حصہ بنایا جاتا ہے انھیں بھی اوپر مذکورہ حقیقتوں پر غور کرنا چاہئے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ اسلام کے قوانین میں مسلم خواتین کو جو مقام بلند اور فطری حقوق عطا کئے گئے ہیں، وہ دوسرے سماج کی خواتین کی بھی ضرورت ہے، اور ان کو اپنا کر معاشرے میں خواتین کی عزت وحیثیت کو دو بالا کیا جا سکتا ہے۔ پس میڈیا کے شور شرابوں اور چند مفاد پرست عناصر کے نا معقول ہنگاموں سے اوپر اٹھ کر سچائی کا مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ اسلام اوراوراسلام میں خواتین کے حقوق کے تئیں آگہی ہوسکے۔