علوم دینیہ کا طالب علم اساتذ ہ کے پاس قوم کی امانت ہے،ہونا یہ چاہیے تھا کہ امانتدار بچوں کو دین سکھائیں ،دین کا محافظ بنائیں نہ کہ اپنے رزق کا ذریعہ؟
* * *حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی۔ جمشیدپور* * *
مدارس اسلامیہ اور دینی تعلیم لازم و ملزوم ہیں۔ مدرسہ کا نا م سنتے ہی ذہن و دماغ میں ایک خوشبو سی محسوس ہو تی ہے اور دل بھی خوشی محسوس کرتا ہے۔ دینی تعلیم ہی ایک ایسی تعلیم ہے جو انسان کو انسان بنا تی ہے۔ ہر زمانے اور ہر معا شرے میں تعلیم کا حصول ایک جزولاینفک ہے ۔تعلیم کو ایک منفرد بنیادی مقام حاصل ہے۔ تعلیم کی اہمیت شاید مسلمانوں کو بتانے کی ضرورت نہیں ؟ جس کی مذہبی کتاب قرآن کریم کی شروعات ہی’’ اِقْرَاْ بِا سْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَق‘‘ ہوئی۔ قر آن کریم کی با اعتبار نزول سب سے پہلی آیت کریمہ یہی ہے اور سب سے پہلی نعمت بھی جو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب اور اپنے بندوں پر انعام کی اور یہی وہ پہلی رحمت ہے جوارحم الر احمین نے اپنے رحم وکرم سے ہمیں دی۔ تعلیم کی اہمیت و فر ضیت کا اندازہ سورہ الر حمن کی ابتدا ئی آیات سے آپ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ سورہ کا آغاز’’الرحمٰن‘‘ سے کیا گیا۔ معاً بعد اپنی بے شمار نعمتوں اور نواز شوں کا ذکر کیا گیا۔ ان میں سب سے پہلی نعمت’’علم القر آن‘‘ یعنی تعلیم قرآن کو کہا۔ پھر انسان کی تخلیق وپیدائش کے ذکر کے بعد تعلیم القرآن کا دور آتا ہے۔تعلیم کے بغیر انسان کی تخلیق بے معنیٰ وبے مقصد ہے۔ رب العالمین نے غار حرا کے تا ریک گو شوں میں سب سے پہلے علم کا درس دیا۔ چنانچہ نبی کریم نے جب علم کا درس حضرت جبریل امین سے حاصل کرلیا اور وحی الٰہی سے ربط ہو گیا تو فرائض اور امر با المعر وف ونہی عن المنکرو احیائے شریعت کی دعوت دینا شروع فر مایا۔
تعلیم کے بہت سے شعبے ہیں جس میں تعلیم قرآن وسنت کا شعبہ بہت اہم ہے کیونکہ یہ وحی الٰہی اورفرمان نبوی سے مر بوط ہے۔ یہی سبب ہے کہ مغربی دنیا سے لیکر دوسرے مذاہب کے لوگ اسی میںلگے ہیں کہ مسلمانوں کو کیسے قرآن سے دور کیا جائے چنانچہ بدنام زمانہ صہیونی صموئیل زویمر نے1924 میں عیسائی مبلغین کی چوٹی کی کانفرنس میں اپنی رپورٹ پیش کر کے کہا تھاکہ’’ ہماری کامیابی کا راز اس بات میں پنہاں ہے کہ ہم مسلمانوں کو دین اسلام اور قرآن سے دور کردیں تا کہ اس امت کا اللہ سے رشتہ ختم ہو جائے،اس طرح وہ ذرائع و وسائل بھی ختم ہو جائیں گے جن پر قومیں اپنی زندگی میں بھروسہ کر تی ہیں‘‘۔ ایک مشہور یہودی مبلغ گلاڈ سٹون نے پارلیمنٹ آف برطانیہ میں قرآن کو ہاتھوں میں لے کر لہراتے ہو ئے کہا تھا’’ جب تک یہ کتاب اس روئے زمین پر باقی ہے ہم مسلمانوں کوسر نگوں نہیں کر سکتے‘‘۔ ڈاکٹر واٹسن یوں زہر افشانی کر تا ہے: ’’ ہماری نگا ہیں دینی مدارس میں قرآنی تعلیمات کے نتائج پر ٹکی ہوئی ہیں، چنانچہ ہمیں سب سے بڑا خطرہ مدارس اسلامیہ سے ہے جہاں علوم قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے‘‘۔ اس لئے کہ قرآن اور اسلامی تاریخ یہ دو ایسے عظیم خطرے ہیں جن سے عیسائی لرزاں ہیں۔مدارس اسلامیہ میں قرآن واحادیث طیبہ کے ساتھ جو علوم پڑھائے جا تے ہیں، یہی علوم دینی ودنیاوی اعتبار سے صحیح مسلمان پیدا کرتی ہیں۔ دشمنان اسلام اس راز سے واقف ہیں ۔اسی وجہ کر آج چاروں طرف سے مدارس اسلامیہ پر یلغار ہے ۔دشمن اس راز کو جانتا ہے کہ جب تک یہ سیدھا سادہ بوریا پر بیٹھ کرپڑھنے پڑھانے والا مولوی اس معاشرے میں موجود ہے، مسلمانوں کے دلوں سے ایمان نکالا نہیں جاسکتا، لہذا دشمنان اسلام مدرسوں کے خلاف پوری تشہیری مہم چلائے ہوئے ہیں اور با قاعدہ اپنی پوری مشینری لگائے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں خاص کر اہل علم ودانش وعلمائے کرام کو اس پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مدارس اسلامیہ کی اہمیت پر ڈاکٹر علامہ اقبال کا یہ تاثر مطالعہ فر مائیں۔آپ نے لکھا ہے:
ان مکتبوں اور مدرسوں کو اسی حالت میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہیں مدر سوں میں پڑھنے دو۔اگر یہ ملا درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جو کچھ ہو گا میں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔ اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہو گئے تو بالکل اسی طرح ہو گا جس طرح اندلس(اسپین) میں مسلمانوں کی8سو برس کی حکو مت کے با وجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروئوں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا۔ہندوستان میںبھی آگرہ کے تاج محل اور دہلی کے لال قلعہ وغیرہ کے سوا مسلمانوں کی8سو سا لہ حکو مت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔
آج ہندوستان میں بھی آہستہ آہستہ حالات اسی کی طرف گامزن ہیں۔ اللہ خیر فر مائے آمین،آج اگر مسلما نوں میں دین و ایمان کی روشنی،کچھ دینی مزاج اور اسلامی تعلیمات کی رمق ہی سہی باقی ہے ،وہ ان مدرسوں کی بدولت ہی قائم ہیں،ورنہ مغربی کلچر نے تمدن، آزادی ٔخیا لات کے نام پر دین کا جس طرح جنازہ نکا لا ہے اور دین کو جس طرح کنارے لگایا ہے ،اس کا مشاہدہ عائلی ،خانہ جنگی ،کاروباری اور عوامی زندگی میں ہر انسان کررہاہے اور اگر اس پر کچھ کہا جاتا ہے تو دولت اور تعیش پرستی کے ماحول میں غریب دین کی آواز کون سنتا ہے؟
مدرسوں کی زبوںحالی ذمہ دار کون؟:
مدارس اسلامیہ کے انحطاط ،خرابیوں و کمزوریوں کے بہت سے اسباب ہیں جہاں سنٹرل حکومتوں سے لیکر صوبائی حکو متوں کی پالیسیاں ذمہ دار ہیں،وہیں مسلمان اور خاص کروہ مہتمم اور مدرس جو کھانے کمانے کے لیے مدرسوں کو قائم کئے ہوئے ہیں، وہ بھی اسکے برابر کے ذمہ دار ہیں۔ مغربی بنگال میں کمیو نسٹوں کی حکو مت3 دہائی سے زیادہ رہی صرف اورصرف 9 مدارس کا الحاق کیا اور جو مدارس اسلامیہ گورنمنٹ سے الحاق چل رہے تھے ،ان کے ریٹائرڈ اساتذہ کی جگہوں کو خالی رکھا۔ ایک سازش کے تحت مدرسوں کی کمر توڑ کر رکھ دی جس میں انٹر نیشنل لیبل کا مدرسہ ’’ عا لیہ‘‘ بھی شا مل ہے۔ یہی حال ابھی جموں وکشمیر کا ہے ۔مدرسوں کی بات تو دور اردو اسکولوں کی 3 ہزا سے زیادہ جگہ خا لی ہیں لیکن ایک سازش کے تحت مسلما نوں کو جاہل بنا یا جا رہا ہے۔ کانگریسی حکو متوں نے کیا کم سازشیں کی کہ اب بی جے پی حکومت جس کو آ رایس ایس اپنی آئیڈیا لوجی کے تحت چلا رہی ہے ۔حکو متیں خواہ سنٹرل میں ہوں یا صوبائی یا یوپی میںیوگی کی ہو یا مودی کی سب کھلے عام مدرسوں کو دفن کر نے میںلگے ہیں۔ ابھی 2018 کے مدرسہ بورڈ کے رزلٹ کو دیکھیں 30فیصدسے زیادہ بچوں کو فیل کردیا گیا۔ ہندوستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔
روز بروز نت نئے قوانین لگا کر مدرسوں کے اسلامی تشخص کو ختم کر نے میں لگے ہیں۔ فہرست بہت لمبی ہے۔ اہل علم سے مخفی نہیں اور اس مقالہ میں سب کی نشاندہی ممکن نہیں ۔سچ اور حق تو یہ ہے کہ ان ظالموں سے زیادہ بڑے ظالم مدارس اسلامیہ کی دوکان چلانے والے پیٹ پرست مہتمم ہیں۔تلخ نوائی معاف، جہاں انہوں نے مدرسوں کے معیار کو گراکر سب سے نیچے پوائنٹ پر لادیا ہے، وہیں انہی کی دکانوں کی وجہ سے پرانے اور بڑے مدارس بھی بہت متاثر ہوئے اور ہو رہے ہیں ۔جہاں انکی آمدنی کم ہوئی ہے وہیں مدارس کی کثرت سے علم حاصل کرنے والے طلبا ئے کرام کا دھیان بھی بٹ گیا ہے۔ بچے گھوم گھوم کر پڑھنے کے عادی ہو گئے ہیں اور ایک طالب علم کئی کئی جگہ باربار دستار بندی لیکر اپنے زعم میں عالم فاضل اور نہ جانے کیا کیا بنا پھر رہاہے۔ جب کہیں پناہ نہیں ملتی تو پھر وہ بھی مدرسوں کی مارکیٹ میں ایک دوکان کا اضافہ کرکے نیا( دارالعلوم، بحر العلوم وغیرہ وغیرہ)مدرسہ کھول کر بیٹھ جا تا ہے۔ پھر اس کے وارے نیا رے،یعنی لاٹری لگ جاتی ہے۔نظر اٹھاکر دیکھئے اس کے کتنے مضر اثرات اچھے اور بڑے مدارس وعلوم دینیہ سیکھنے والوں پر ہو رہے ہیں۔خون کے آنسو روئیں تو بھی کم ہے۔ اس کاذمہ دار مسلم معاشرہ ہے، دوسرا نہیں۔ بہت سی خرابیاں ہیں، ایک ہو تو بتائی جائے، دو چار ہوں تو گنوائی جائیں، میں ایک اہم خرابی کی طرف چند سطریں تحریر کررہا ہوں، کھا ئو،پکائومہتمموںسے معذرت کے ساتھ۔
مدرسے کی بنیاد تعلیم حاصل کر نے والے مہمان رسول! طالب علم ہو تے ہیں، طالب علم کی بے شمار فضیلتیںقرآن واحادیث میں موجود ہیں۔ تعلیم و تر بیت کا عمل اخلاص ومحبت وصلا حیت ولیا قت کا متقاضی ہے۔اسی لیے اس کی ذمہ داری اللہ جل شانہ کی طرف سے انبیائِ کرام علیہم السلام پر ڈالی گئی اورعلمائے کرام کوانبیاء کے وارث ہونے کا شرف حاصل ہوا۔آج بھی کثیر تعداد میں نیک علما اس نیک عمل کو انجام دے رہے ہیں۔ جہاں اللہ نے علما کو وارث انبیاء کا جلیل القدر مقام عطا فر مایا،وہیں علوم دینیہ کے طالب علم کو عزت،مقام ورتبہ سے سر فراز فر مایا۔ جب طالب علم گھر سے اللہ کی رضا کی خاطر محض حصول علم کے لیے نکلتے ہیں تو فرشتے ان کے لیے اپنے مقدس پر بچھا تے ہیں۔سمندر کی مچھلیاں ان کے لیے استغفار کر تی ہیں اور چیونٹیاں اپنے بلوں میں طالب علم کے لیے دعائیں کر تی ہیں۔ علماء اورعلم سیکھنے والوں کی فضیلت قرآن میں جا بجا آئی ہے۔فرمایا:اور للہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور عالموں نے انصاف سے قا ئم ہو کر اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں، عزت والا حکمت والا۔(کنزالایمان) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ فرشتوں اور پھر اہل علم کا ذکر فر مایا۔ امام قرطبی فر ماتے ہیں کہ اس آیت میں علم کی فضیلت اور علماء کی عظمت کا ذکر ہے۔اگر علما سے زیادہ کوئی معزز ہوتا تو اس کانام بھی فرشتوں کے ساتھ لیا جاتا۔قرآن واحادیث میں علم اور علم دین سیکھنے والوں کی فضیلت واہمیت مسلم ہے۔ کسی کو اس سے انکار کی کیا مجال، یہ ساری فضیلتیں مہتمم کو اس وقت خوب یاد رہتی ہیں، جب مدرسہ کے لیے چندہ لینا رہتا ہے۔ دوسرے مدرسے کے بھاگے یا بھگائے طالب علم کی دستار کے وقت بھی یاد رہتی ہے۔جب 3 طالب علم کی دستار کے لیے 30 پگڑی کا چندہ کر نا ہوتا ہے، تب طلبہ کی خوب فضیلت بتائی جاتی ہے لیکن افسوس جب ان کی تعلیم و تر بیت اور ان کے رہنے، کھانے پینے کی بات ہوتی ہے، انتظام کی بات ہوتی ہے تو اسوقت کوئی فضیلت یاد نہیں رہتی ۔نسیان کی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں، ہر دن ابلا چاول ،آلو کا بھرتہ، اور کبھی 15 یا20دنوں میں چٹکی بھر سبزی۔ طالب علم کے لیے گوشت بھی غذا ہے، مہتمم کو معلوم ہی نہیں۔11ویں اور12ویں کی نیاز میں طالب علم کو گوشت سے ملاقات ہو جاتی ہے یا پھر مرے لوگوں کا تیجہ ،دسواں ،40واںاوربرسی کے فاتحہ میں مل جاتاہے۔ یہ ایک سچی اور ناقابل انکار حقیقت ہے جو مسلم قوم کے لیے المیہ ہے۔ولیمہ کی دعوت تو امیروں کے لیے ہوتی ہے۔ شاذو نادر ہی کوئی اللہ کا نیک بندہ ولیمہ کی دعوت د ے د یتا ہے۔ اللہ اس کابھلاکرے،حالات بہت ابتر ہیں کیا کیا لکھوں۔
علوم دینیہ کا طالب علم اساتذ ہ کے پاس قوم کی امانت ہے۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ امانتدار بچوں کو دین سکھائیں ،دین کا محافظ بنائیں نہ کہ اپنے رزق کا ذریعہ؟ قوم کی زکوٰۃ تو بلا حساب آرہی ہے لیکن دینے والے بھی انجانے میں اس گھوٹالہ میں شامل ہیں۔تعا ون دینے والوںکو چاہیے کہ وہ دیکھ بھال کر بات چیت کرکے اپنی زکوٰۃ،صدقات، عطیات دیں۔باہر والے تو آکر دیکھیں گے نہیں، لوکل تعاون دینے والوں پر ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دیکھ بھال کر یں۔ مدرسے میں کتنے اسٹاف ہیں، کتنے بچے ہیں، ان کے رہنے کی جگہ دیکھیں ،کھانا جو روز ملتا ہے، وہ دیکھیں تب آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ خون کے آنسو رونے لگیں گے۔ مدرس صرف ایک دو ،پڑھائی ندارد ،قرآن خوانی کا دھندا عروج پر ۔طالب علم کو فجر کی نماز میں نہیں جگایا جاتا، کوئی سختی نہیں کی جاتی، طالب علم بھاگ جائے گا لیکن گھنٹہ بھر بعد قرآن خوانی کے لئے ڈنڈا لیکرجگایا جاتا ہے۔ اسوقت سختی جائز ہو جاتی ہے کیونکہ مال آتا ہے، نماز کے وقت رعایت، یہ حال ہے ۔جب کھانا جیسی اہم چیز کا یہ حال ہے تو رہنے سہنے کی باتیں کیا لکھوں۔قوم کو جاگنا ہو گا، مسلم قوم مدرسے کے نام پر اپنے صدقات ،زکوٰۃ وعطیات دے رہی ہے، اس کے ساتھ بھی ظلم عظیم ہے، اس پہ توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے ۔
مہتمم جنکی نہ کوئی نوکری نہ کوئی کاروبار نہ جاگیریں پھر یہ کیسے اتنی فا ئیو اسٹار زندگی گزار رہے ہیں۔انکی تعیش والی زند گی دیکھیں، بڑے بڑے کر کٹر،فٹبالر ،دولت مند رئیس ہیچ ہیں، کہاں سے انہیں من و سلوی اتر رہا ہے۔ ان کے بچے بہترین انگلش اسکول میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ جن کے ذریعہ یہ تعیش ،ٹھاٹھ ،آسائش،شان وشوکت ،مہنگی کار، خوبصور ت لگژری مکان وغیرہ وغیرہ استعمال کر رہے ہیں انھیںطالب علموں کو بندھوا مزدور سے زیادہ بد تر زندگی گزار نے پر مجبور کئے ہوئے ہیں، گھر کے تمام کام کاج یہاں تک کہ چھوٹے بچوں کے ڈائیپرز پھینکو ا نے میں ذرا برابر شر م و عار نہیں محسوس کرتے بلکہ خوف خدا بھی نہیں رکھتے کہ یہ مہمان رسول ہیں ۔ایسے مدارس میں تعاون کر نے والے اہل ثروت حضرات اس گناہ میں برا بر کے شریک ہیں ۔غور کریں جن مدارس میں پڑھائی اور خاص کر بچوں کے کھانے پینے کا نظام انتہائی گرا ہواہو ،وہاں تعاون کرتے وقت تنبیہ کریںکہ اگر معاملات درست نہیں کئے توآئندہ میراتعاون بند ہو جائے گا۔