لکھنؤ۔۔۔۔الٰہ آباد اور فیض آباد کا نام تبدیل کرنے کے بعد اب ریاستی حکومت اعظم گڑھ، کانپور اور علی گڑھ کا نام بدل سکتی ہے۔ اس سلسلے میں ریونیو ڈپارٹمنٹ(محکمہ آمدنی) نے تیاریاں شروع کردیں۔ ذرائع کے مطابق جلد ہی ان ناموں کی تبدیلی کا مسودہ کابینہ میں منظوری کیلئے پیش کیا جاسکتا ہے۔
*علی گڑھ کا نام ’’ہری گڑھ‘‘ہوسکتا ہے
وشوہندو پریش نے 2015ء میں علی گڑھ کا نام تبدیل کرکے ’’ہری گڑھ‘‘کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ملکی و بین الاقوامی سطح پر اس شہر کی اپنی اہمیت ہے۔کلیان سنگھ نے1992ء میں وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز رہ کر علی گڑھ کا نام بدلنے کی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہے۔
*اعظم گڑھ کا نا’’آریم گڑھ‘‘ہوسکتا ہے
پروانچل میں ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے اعظم گڑھ کا نام تبدیل کرکے ’’آریم گڑھ‘‘کرنے کی تیاریاں شروع کردی گئیں۔یہ مطالبہ کافی پرانا ہے۔ وزیر اعلیٰ یوپی یوگی آدتیہ ناتھ اپنی انتخابی مہم کے دوران عوامی اجلاس میں اعظم گڑھ کا نام’’ آریم گڑھ‘‘ لیکر کیا کرتے تھے۔
*مظفر نگرکا نام ’’لکشمی نگر‘‘اور آگرہ کا نام’’اگرون‘‘ہوسکتا ہے
تازہ تنازع مظفر نگر اور آگرہ کے ناموں کی تبدیلی کا کھڑا ہوگیا ہے۔ بی جے پی رکن اسمبلی سنگیت سوم نے مظفر نگر کا نام بدل کر ’’لکشمی نگر‘‘کا مطالبہ کیا ہے۔دریں اثنا شمالی آگرہ کے رکن اسمبلی جگن پرساد گرگ نے وزیر اعلیٰ کو خط ارسال کرکے آگرہ کا نام بدل کر ’’اگرون‘‘کرنے کا مطالبہ کیا۔
عرفان حبیب کی جانب سے نا موں کی تبدیلی کی مخالفت
معروف تاریخ داں عرفان حبیب نے مظفر نگر کا نام تبدیل کرنے کے مطالبے کی پْرزورالفاظ میں مخالفت کرتے ہوئے ٹویٹر پر تحریر کیا کہ شہروں کے ناموں کی تبدیلی کا مطالبہ فرقہ وارانہ ہے۔ 1633ء میں شاہجہاں کے دورحکومت میں سید مظفر خان نے ضلع مظفر نگر کو آباد کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ضلع کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کرنے والے سنگیت سوم فرقہ وارانہ فسادات کے ملزم ہیں۔
مزید پڑھیں: - - - -بیگم کی یاد میں’’منی تاج محل‘‘تعمیر کرنیوالے قادری انتقال کرگئے
ہندوستان کی تازہ ترین خبروں کے لئے ’’اردونیوز انڈیا‘‘ گروپ جوائن کریں
رائے دیں، تبصرہ کریں