دنیا میں ہر سال 15کروڑ شارک مختلف مقاصد کیلئے ہلاک کردی جاتی ہیں
مونٹریال - - - - دنیا ایک زمانے سے یہ جانتی ہے کہ بہت سے علاقوں میں بالخصوص ان علاقوں میں جہاں شدید سردی ہوتی ہے اور برف جمی رہتی ہے بہت سے آبی حیات کو شکار کرکے انکا تیل نکالا جاتا ہے۔ اب کینیڈین فلم ساز راب اسٹیوارٹ نے آبی حیات کے تحفظ کے حوالے سے جو نئی فلم تیار کی ہے اس میں ایسے جانوروں کے بے دریغ شکار کو نمایاں کیا گیا ہے اور یہ بات بتائی گئی ہے کہ دنیا میں ہر سال 15کروڑ شارک مختلف مقاصد کیلئے ہلاک کردی جاتی ہیں اور یہ سارا کام ایک بہت بڑی صنعت کی شکل اختیار کرچکا ہے جو ہر اعتبار سے غیر قانونی ہے۔ شاید ہی کوئی ملک ایسا ہوگاجو ایسے شکار کیلئے لائسنس جاری کرتا ہو۔ فلم دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر شارکوں کو انکے پروں اور دم کی وجہ سے ہلاک کیا جاتا ہے جس کی مانگ دنیا بھر میں بہت زیادہ ہے اور قیمت بھی آسمان سے باتیں کرتی ہے مگر طبی دنیا اس کے ا تنے فوائد بتاتی ہے کہ ضرورت مند لوگوں کو مہنگی سے مہنگی شارک یا اسکی ہڈیاں، پر اور دم وغیرہ منہ مانگی قیمت پر خریدنے کو تیار رہتے ہیں۔ راب اسٹیوارٹ کی فلم میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ جو شکاری بھی زیادہ بڑی شارک پکڑتا اور ہلاک کرتا ہے اس کے خلاف قانونی کارروائی کے بجائے اسے انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے۔شارک واٹر نامی فلم راب اسٹیوارٹ نے گزشتہ سال محض 37سال کی عمر میں فوت ہوجانے سے کچھ قبل تیار کی تھی جو اب جاری ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ راب کی موت گہرے سمندروں میں غوطہ خوری کے دوران آکسیجن کی کمی سے دوچار ہونے کی وجہ سے ہوئی تھی۔فلم کیلئے مواد اور مناظر جمع کرنے کیلئے راب نے دنیا بھر کا سفر کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ شارکوں کا شکار کس طرح ہوتا ہے اور پھر اسکے ٹکڑے کرکے کس طرح بڑے کاروبار کی شکل دی جاتی ہے۔ واضح ہو کہ شارکوں کے پر اور دم سے بنا سوپ انتہائی لذیذ ہوتا ہے۔ بالخصوص ایشیا کے بعض علاقوں میں اس کی مانگ بہت زیادہ ہوتی ہے۔ فلم کے ریلیز کے بارے میں باخبر ذرائع کا کہناہے کہ یہ اتنی ذہن کشا اور ہوشربا فلم ہے کہ جو شخص بھی آبی حیاتیات سے دلچسپی رکھتا ہے وہ اسے ضرور دیکھے گا اور متاثر ہوگامگر مزا تو اس وقت ہے جب لوگ اس فلم کو دیکھ کر شارکوں وغیرہ کا شکار بند کرنا شروع کردیں۔