بظاہر پاکستان میں جمہوری عمل رو بہ عمل ہے۔ مسلسل تیسرے عام انتخابات کے بعد ایک نئی حکومت میدان میں ہے۔قبل از انتخابات اس حکومت کا واشگاف نعرہ آزمائے جانا یا موقع نہ ملنا تھا ،کرپشن کےخلاف سخت ترین موقف،ملکی معیشت کی ابتر صورتحال میںبہتری،امن وامان کو یقینی بنانا،اداروں سے سیاسی اثرو رسوخ کو ختم کرنا،پولیس اصلاحات،بہتر و آزاد خارجہ پالیسی ترتیب دینا،روزگار کے مواقع فراہم کرنا،بے گھروں کےلئے ذاتی گھروں کی تعمیر(سرکاری طور پر تعمیر شدہ گھر آسان اقساط پر مہیا کرنا)،کشکول توڑنا،بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کرنا،سبز پاسپورٹ کی عزت،تارکین وطن کےلئے سہو لتیں مہیا کرنا،بیرونی سرمایہ کاری کےلئے زیادہ سے زیادہ پرکشش ماحول کی فراہمی اور کئی بے شمار دعوے،اس حکومت نے کئے۔ بد قسمتی یہ ہوئی کہ ان تمام دعوو¿ں کی حقیقت و قلعی ایک کے بعد ایک کھلتی جا رہی ہے۔ ایسے ایسے حقائق سامنے آ رہے ہیں کہ یہ دعوے فقط دعوے ہی بنتے نظر آتے ہیں،حقیقتاً ان پر عمل درآمد ہوتا انتہائی مشکل نظر آتا ہے۔ اقتدار میں آتے ہی جو محاذ اس حکومت نے کھولے،ان میں خواہ رضوان گوندل کا معاملہ رہا ہو یا بہاولپور کے ڈی پی او کا،اعلیٰ افسر شاہی کی تعیناتی رہی ہو یا جماعتی عہدیداران کی روایتی قانون شکنی(کرامت کھوکھر و ندیم بارا وغیرہ)،ناصر درانی کا استعفیٰ ہو (جن کا انتخاب ہوا ہی اس لئے تھا کہ انہوں نے کے پی میں پولیس کو سیاسی اثرورسوخ سے آزاد کیا تھا)اور واقعتاکے پی پولیس کی کارکردگی کا گراف بہتر ہواتھا(ماسوائے اکا دکا واقعات کے)،دھرنوں کی سیاست کرتے کرتے انقلابی وزیر اعظم کو فوری دھرنوں کا سامنا تھا،جسے خوش اسلوبی سے سلجھایا گیا مگر توہین رسالت کیس میں یہی دھرنے الٹا آنتوں کو آئے۔ طاہر داوڑ کا حالیہ افسوسناک واقعہ جلتی پر تیل کا کام کر گیا۔ حکومتی کارکردگی کو بجا طور پر عیاں کر گیا کہ کس طرح حکومتی عہدیدار و ذمہ داران واقعہ کی حقیقت سے لاعلم رہے یا عوام کو لالی پاپ دیتے رہے،مراد عوام سے جھوٹ بولتے رہے۔ علاوہ ازیں تحریک انصاف کی حکومت سے قبل ہی اس پر انتہائی سنجیدہ الزامات کی بوچھاڑ تھی،بالخصوص قادیانیوں اور یہودیوں کے حوالے سے اس جماعت کو مورودِ الزا م ٹھہرایا جاتا رہا ۔
اس پس منظر میں،رکن قومی اسمبلی عاصمہ حدید کی فلور آف دی ہاو¿س پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں تقریرنے،اس الزام کو مزید تقویت بخشی گو کہ عاصمہ حدید کی اس سلسلے میں وضاحت آ چکی ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ حکومت اپنا پتہ کھیل چکی ہے اور اب اس کے عواقب و نتائج کا سامنا اسے کرنا ہو گا۔ قطع نظر اس تقریر و وضاحت کے،ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا اسرائیل کو تسلیم کیا جانا چاہئے یا نہیں؟ ہر دو صورتوں میں دلائل کا ایک انبار موجود ہے اور اب معاملہ جذبات کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندی کی طرف جائے گا اگر اس موضوع پر صحیح معنوں میں بحث ہوئی۔حقیقت تو یہ ہے کہ فی زمانہ ریاستوں کے تعلقات کی بنیاد مفادات کے زیر اثر ہے اور ہر ریاست کے پاس یہ آپشن بہر کیف موجود ہے کہ وہ کس ریاست کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار و مستحکم کرتی ہے۔ گزشتہ صدی میں جاری سرد جنگ کے دوران ہندوستان نے انتہائی خوبصورتی و مہارت کے ساتھ دونوں عالمی طاقتوں کے ساتھ نہ صرف اپنے تعلقات کو استوار رکھا بلکہ ہر دو ریاستوں سے اپنے مفادات کو بہر طور کشید کرتا رہا۔ قطع نظر اس حقیقت سے کہ کس ریاست نے ہندوستان کو زیادہ فائدہ پہنچایا یا کس نے کم،یہ حقیقت موجود رہی کہ ہندوستان ایک طرف دونوں عالمی طاقتوں کے ساتھ رابطے میں رہا بلکہ ان دو ممالک کے لے پالک اسرائیل کو بھی اپنے ہاتھ میں رکھتے ہوئے اپنے مفادات کشید کرتا رہا ہے اور آج بھی کر رہا ہے۔ اسرائیل کی اس وقت عالمی برادری میں ایک حیثیت ہے اور وہ اقوام عالم کے فیصلوں میں اپنا کردار ادا کررہاہے کہ ایک طرف دنیا بھر کے مالی وسائل پر اسکا براہ راست یا بالواسطہ کنٹرول ہے تو دوسری طر ف ذرائع ابلاغ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے،دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ اس کے زیر تسلط ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر اس واضح کنٹرول کےساتھ اسرائیل دنیا بھر ہونےوالی تبدیلیوں اور برپا ہونے والی تحاریک پر براہ راست کنٹرول رکھتا ہے اور اپنے مفادات کے تحت ان تحاریک کو چلاتا اور اپنے مفادات کو حاصل کرتا ہے۔ پاکستان اپنی ہیئت و حیثیت کے باعث اول روز سے ہی اسرائیل کو کھٹکتا ہے۔اسرائیل پاکستان کےخلاف ہر طر ح اور ہر زاویئے سے اس پر حملہ آور ہے کہ کسی طرح پاکستان کا بازو مروڑ کر رکھے۔ اس مقصد کےلئے اسے ہندوستان کی صورت پاکستان کا ایک ازلی دشمن میسر ہے جو دامے ،درمے سخنے اسرائیل کا دست و بازو بننے کےلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے بلکہ ماضی میں بسا اوقات اسے اپنی خدما ت مہیا بھی کر چکا ہے لیکن یہ الگ حقیقت کہ پاکستان کے خلاف ابھی تک اپنے کسی بھی مذموم مقصدمیں کامیاب نہیں ہو سکا۔
دوسری طرف مذہبی و جذباتی دلائل کی طرف نظر دوڑائیں تو سب سے پہلی اور قطعی حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم نے واضح طور پر یہود و نصاریٰ کے متعلق فرما دیا کہ وہ تمہارے دوست کبھی نہیں ہو سکتے۔مذہبی سیاسی جماعتوں کا سارا زور اس آیت پر ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ایمان ہے کہ قرآن نے جو کہہ دیا وہ قیامت تک کےلئے حقیقت ہے اور اس میں کوئی تبدیلی ممکن ہی نہیں۔یہاں جس بات پر قرآن زور دے رہا ہے وہ ”دوستی“ پر ہے اور تاریخ میں بارہا یہ ثابت ہو چکا کہ یہود و نصاریٰ کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں رہے لیکن فی زمانہ جو تحقیق و ترقی غیرمسلم کر چکے اور پر آسائش زندگی کی دوڑ میں جو دریافتیں غیر مسلم کرچکے،کیا کسی مسلمان کی نظر ان پر ہے؟کیا کسی مسلمان ملک نے اس معیار کی تحقیق و ترقی کی بنیاد بھی رکھی ہے؟زندگی کے ہر قدم پر جو آسائشیں و آسانیاں ہمیں آج میسر ہیں ،ان میں مسلمانوں کا کتنا حصہ ہے؟ہمارے علمائے کرام نے کبھی اس حقیقت کی طرف غور کیا ہے یا کبھی مسلم امہ کو اس طرف لانے کی کوئی شعوری کوشش کی ہے؟ان تمام باتوں کا جواب نفی میں ہے کہ علمائے کرام کے کردار واضح طور پر اس امر کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔ان کے نزدیک اسلام فقط داڑھی یا ٹخنوں سے اوپر پائنچے تک محدود،رفع یدین یا سورة فاتحہ کے بعد آمین بلند آواز میں کہنے یا خاموشی سے کہنے تک،کسی بھی جدید تحقیق کی نفی کرنے میں یا اس کو غیر شرعی قرار دینے میں،دور جدید میں ریاستی امور چلانےوالوں کو گالیاں دینے میں یا کردار کشی کرنے میں،دوسرے فرقے کو کافر یا واجب القتل قرار دینے تک محدود رہ گیا ۔کوئی بھی عالم دور حاضر میں ریاستوں کی ترقی کے پیچھے موجود جہد مسلسل کی تلقین کرنے کےلئے تیار نہیں،عالم با عمل بننے اور تدبر سے آشنا کرنے کےلئے تیار نہیں کہ اس کام کا بیڑا غیر مسلموں نے اٹھا رکھا ہے۔ دورحاضر میں ریاستوں کے مابین تعلقات استوار کرنے سے پہلے خود کو مستحکم کرنے کی کوششوں سے محروم ریاستیں،اسی طرح علماءکی آدھی تشریح سے دبکتی رہیں گی جو یہ نہیں جانتے کہ ریاستی تعلقات قائم کرنے کا مقصدفقط ”دوستی“ قطعاً نہیں ہوتا۔