آپ ﷺ کے دنیا میں آخری لمحات
11ھ کا ماہ ربیع الاوّل شروع ہوا ۔ وہی ماہ ربیع جس میں63 بر س پہلے نبی رحمت کی ولا دتِ باسعادت کی وجہ سے اس جہانِ رنگ وبو میں بہار آئی تھی مگر اب کے ماہ ربیع الاوّل مژدۂ بہار نہیں بلکہ پیغامِ خزاں لے کر آیا تھا ۔ اس ماہ کے شروع ہو نے سے پہلے ہی نبی بیما ر ہو گئے تھے ۔10 یا 11 ربیع الاوّل تک آتے آتے نقاہت کا یہ عالم ہو گیا تھا کہ آپ خود سے چل بھی نہیں سکتے تھے۔ ہفتہ یا اتوار کا دن تھا ، سیدنا ابو بکرؓ کی امامت میں نمازِ ظہر کی جماعت کھڑی ہو چکی تھی ۔ بخاری ومسلم شریف میں یہ واقعہ مو جود ہے کہ نبی اپنے چچا سیدنا عباسؓ اور اپنے چچیر ے بھا ئی وداماد سیدنا علیؓکے کند ھوں کا سہارا لئے مسجد میں تشریف لے آئے۔ حضرت صدیقِ اکبرؓ پیچھے ہٹنے لگے ،نبی نے اشارہ فرمایا کہ پیچھے مت ہٹو بلکہ نماز پڑ ھا تے رہو، پھر آپ سیدناصدیقؓ کی ایک جانب بیٹھ کر نماز میں شامل ہو گئے ۔ اب سیدنا ابو بکرؓ نبی کی اقتداء کر تے تھے اور باقی سب لوگوں نے حضرتِ صدیقؓ کی تکبیروں پر نماز ادا کی(بخاری ومسلم)۔
رحلت سے صرف ایک دن پہلے اتوار کے روز آپ نے اپنے تمام غلام آزا د فرما دیئے جن کی تعداد 40 اور بعض روایات کے مطابق 63 تھی ۔ گھر میں نقد صرف 7 دینار مو جود تھے ، وہ غرباء ومساکین میں تقسیم کر دیئے اور آلا تِ حرب مسلمانوں کو ہبہ فرمائے۔ (بخاری عن عمر واخی جویریہ)،سرورِ عالم کے گھر کی مالی حالت یہ تھی کہ اس دن کی شام کو سیدہ عائشہؓنے چراغ کیلئے تیل پڑ وسن سے عاریتاً منگوایا اور بخاری شریف میں مذکور ہے کہ خود نبی کی زرہ وفات کے وقت بھی ایک یہودی کے پاس گروی پڑی تھی جس کے عوض گھر والوں کیلئے 30 صاع جو لئے تھے ۔ رات گزر گئی ،12 ربیع الاوّل بروز پیر نمازِ فجر کا وقت آیا۔ مسجدنبوی میں سیدنا صدیقؓ کی امامت میں جماعت کھڑی ہو گئی ۔ نبی نے وہ پردہ اٹھایا جو حضرتِ عائشہ صدیقہؓ کے حجرہ اور مسجد میں فاصل تھا ۔تھوڑی دیر کیلئے آپ اپنے صحابہؓ کے با جماعت نماز پڑھنے کا منظر ملا حظہ فرماتے رہے جس سے رخِ انور پر بشاشت اور ہو نٹوں پر مسکراہت کھیل گئی ۔ سیدنا انس ؓ فرما تے ہیں کہ’’اس وقت بھی جمالِ مصطفٰی کا یہ عالم تھا کہ آپ کاچہرۂ مبارک ’’ورقِ قرآن‘‘ معلوم ہو تا تھا‘‘ (بخاری ومسلم) ،آپ کے چہرہ ٔانور کو ورقِ قرآن قرار دینا کس قدر تعجب انگیز اور پا کیزہ ومقدس تشبیہ ہے ۔ورقِ قرآن پر طلا ئی کام ہو تا ہے ،نبی کے رخِ زیبا اور چہرۂ تا باں پر زردیٔ مرض چھا ئی تھی لہذا تا بانی ورنگِ مرض کو طلا ء سے اور تقدس کو قرآن سے تشبیہ دے کر چہرہ ٔانور کو ’’ورقِ قرآن ‘‘ گردانا ہے ۔جاں نثار صحابہ کرامؓ کا شوقِ دیدار اور فرحت کی بیتابی سے یہ حال ہو گیا کہ جیسے رخِ مصطفٰی کی طرف متوجہ ہو جائیں گے ۔ حضرتِ صدیقؓ یہ سمجھے کہ شاید آپ کا نمازمیں آنے کا ارادہ ہے ۔ وہ جا نمازِ امام سے پیچھے سر کنے لگے تو نبی نے اپنے دستِ مبارک سے اشارہ فرمایا کہ پیچھے مت ہٹو بلکہ نماز پڑ ھا تے رہو ۔ یہی اشارہ تمام صحابہؓ کی تسکین کا مو جب بنا، پھر تھوڑی دیرکے بعد آپ نے پردہ گرادیا اور یہ نماز بھی حضرتِ صدیقؓ نے مکمل فرمائی (بخاری ومسلم )، اس کے بعد رسولِ رحمت پر کسی دوسری نماز کا وقت ہی نہیں آیا ۔ صحیح بخاری ومسلم شریف میں سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ ’’جب دن چڑ ھا تو نبی نے اپنی پیاری بیٹی سیدہ فاطمہ الزہراءؓ کو بلا یا اور ان کے کان میں سرگوشی کی تو وہ رونے لگیں اور جلد ہی بعد پھر ان کے کان میں کچھ کہا تو وہ ہنسنے لگیں‘‘ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں’’میں نے حضرتِ زہراء ؓسے پو چھا کہ نبی نے ان سے رازداری کے ساتھ کیا فرمایا تھا ؟ تو سیدہ فاطمہ ؓنے فرمایا کہ میں نبی کا بتا یا ہوا یہ راز فاش نہیں کر نا چاہتی (اس طرح وقتی طور پر یہ بات آئی گئی ہو گئی )پھر رحلتِ مصطفٰی کے بعد میں نے سیدہ فاطمہؓ سے دوبارہ پو چھا کہ نبی کی ان سے سرگوشیوں میں کیا راز تھا کہ پہلے آ پ روئیں ، اور پھر ہنسیں ؟ تو انہوں نے فرمایا’’ لیجئے! اب میں وہ بھید آپؓ کو بتا ئے دیتی ہوں،نبی نے پہلی مرتبہ سرگوشی کے انداز میں مجھے بتایا تھا کہ میرا آخری وقت قریب آگیا ہے ، تم تقویٰ وپر ہیزگاری اختیار کر نا اور صبر سے کام لینا ۔
فراق ووفات کی یہ باتیں سن کر میں رونے لگی اور دوسری مرتبہ مجھے سیدۃ ُالنساء اہل الجنۃ یا سیدۃ النساء المؤمنین( مسلم شریف کی ایک حدیث کے مطابق سیدۃ النساء ھذہ الامۃ) یعنی ’’خاتونِ جنت‘‘ ہو نے کی بشارت دی اور بخاری کی ہی ایک حدیث ہے کہ جب نبی نے فرمایا کہ اسی تکلیف کے دوران میری روح قبض کر لی جائے گی تو میں رودی اور جب دوسری مرتبہ فرمایا کہ’’ میںاہلِ بیت میں سے سب سے پہلے آپ سے جا ملوں گی تو میں ہنسنے لگی۔ ‘‘