Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کم عمری کے باوجود گہری باتیں کرنے والی نسائی آواز” پروین شاکر“

زینت شکیل۔جدہ
’حرف‘اس آواز کا نام ہے جو ایک معین یا غیر معین مخرج پر انحصار کرتی ہے۔ لفظی تصاویر انسان کے تمام حواس سے متعلق ہو سکتی ہیں۔ اگرچہ ہر حس کو بیدار کرنے والی تصویریں تخلیق کی جا سکتی ہیں لیکن ان سب میں عموماً بصری عنصر موجود رہتا ہے۔ الفاظ کے ان پیکروں میں جو شے انہیں شعری صفت عطا کرتی ہے وہ انکی حسیت ہی نہیں بلکہ وہ جذبہ ہے جو ان میں برقی رو کی طرح سمایا ہوا ہوتا ہے ۔ پروین شاکر ایسی ہی شاعرہ کے طور پر جانی گئیں جو اپنی مختصر سی زندگی میںغزل کی صنف میں جدت پسندی اور کشادہ دلی کی پہچان بنیں۔ غزل میں انکا لہجہ رواں ہے، الفاظ کی درستگی اور سادگی سننے والے کو ان کی طرف متوجہ کرتی ہے ۔اشعار ایسے ہیں کہ جیسے شاعرہ سامنے موجود نفوس سے مخاطب ہوں۔ چھوٹی بحروں میں کہے گئے ان کے اشعار زیادہ مشہور ہوئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ خیالات میں پختگی اور شاعری میں تنوع پیدا ہوا۔ جس کی وجہ سے انکے کلام میں حسن و دلکشی کا حسین امتزاج پیدا ہوتا گیا۔
پروین شاکر کو قدرت نے کئی خوبیوں سے نوازا تھا ۔ انکی شخصیت میں کئی رنگ نمایاں تھے جو ایک متمدن استاذہ کی بھرپور نشاندہی کرتے تھے۔ انہوں نے نہ صرف خود اعلیٰ تعلیم حاصل کی بلکہ جس تعلیمی ادارے میں وہ استاذہ کی حیثیت میں اپنی طالبات کی ذہنی نشو ونما 
 کی ذمہ داری نبھا رہی تھیں، ان میں بھی کئی ایک نے اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد زندگی سے بھرپور شاعری سے معاشرے میں ایک صحت مند رجحان تشکیل دیا۔پروین شاکر کی ”خود کلامی“ نے لوگوں کو مسحور کئے رکھا: 
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی،کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
بات وہ آدھی رات کی، رات وہ پورے چاند کی 
چاند بھی عین چیت کا ، اس پہ ترا جمال بھی 
دل تو چمک سکے گا کیا ، پھر بھی ترش کے دیکھ لیں
شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی 
اس کو نہ پاسکے تھے جب، دل کا عجیب حال تھا
اب جو پلٹ کے دیکھئے، بات تھی کچھ محال بھی 
اس کی سخن طرازیاں میرے لئے بھی ڈھال تھیں 
اس کی ہنسی میں چھپ گیا ، اپنے غموں کا حال بھی 
شام کی ناسمجھ ہوا ،پوچھہ رہی ہے اک پتا
موج ہوائے کوئے یا ر، کچھ تو مرا خیال بھی 
٭٭٭
زندگی کے بارے میں پروین شاکر کے آلام :
آلام حیات ،لوٹ آئیں
آسائشیں مجھ کو کھا نہ جائیں
کیا ایسی تلاش آب و دانہ
پرواز کا لطف بھول جائیں
 تو مقتل شب سے سے آرہی ہے 
اے صبح ، تجھے گلے لگائیں
 آسان سہی بچھڑ کے رہنا 
پر اس کا سا دل کہاں سے لائیں
 معلوم کہ چھوڑنا ہے اک دن
پھر بھی یہ لگن کہ گھر بنائیں
 بستی میں اتر رہا ہے پانی
ہم اور کہاں اتر کے جائیں
پانی ہے ،ہوا ہے یا خلا ہے
ہم اپنے قدم کہاں جمائیں
سادہ لفظوں میں آسمان کے شمس و قمر کا ذکر سمو دیا: 
اب بھلا چھوڑ کے گھر کیا کرتے
شام کے وقت سفر کیا کرتے 
تیری مصروفیتیں جانتے ہیں
اپنے آنے کی خبر کیا کرتے 
جب ستارے ہی نہیں مل پائے
 لے کے ہم شمس و قمر کیا کرتے 
 وہ مسافر ہی کھلی دھوپ کا تھا
سائے پھیلا کے شجر کیا کرتے 
 خاک ہی اول و آخر ٹھہری
کر کے ذرے کو گہر کیا کرتے 
رائے پہلے سے بنا لی تو نے 
دل میں اب ہم ترے گھر کیا کرتے 
عشق نے سارے سلیقے بخشے
حسن سے کسب ہنر کیا کرتے 
اپنے شہر کی بربادی کا منظر یوں پیش کیا:
 ایسا لگتا ہے کہ پیروں سے لپٹ آئی ہے
ایک زنجیر بھی اسباب سفر کے ہمراہ 
اتنا مشکل تو نہ تھا میرا پلٹنا لیکن
 یاد آجاتے ہیں رستے بھی تو گھر کے ہمراہ
 کس سے تصدیق کروں شہر کی بربادی کی 
 اب تو قاصد بھی نہیں ہوتے خبر کے ہمراہ 
 ہم نے جنگل میں بھی پیچھے نہیں مڑ کر دیکھا 
کیا عجب عزم بندھا رخت سفر کے ہمراہ 
کائنات و حیات کی بہترین تصویر کشی ان اشعار میں موجود ہے: 
اک ایسی بارش ہو میرے شہر پہ جو
سارے دل اور سارے دریچے دھو جائے 
 پہرہ دیتے رہتے ہیں جب تک خدشے
کیسے رات کے ساتھ کوئی پھر سوجائے
 بارش اور نمو تو اس کے ہاتھ میں ہیں
مٹی میں پر بیج تو کوئی بو جائے
 تین رتوں تک ماں جس کا رستہ دیکھے
وہ بچہ چوتھے موسم میں کھو جائے
زندگی کی دھوپ چھاﺅں پر پروین شاکر نے ایسے اظہار کیا
 جو دھوپ میں رہا، نہ روانہ سفر پہ تھا
اس کے لئے عذاب کوئی اور گھر پہ تھا
چکر لگا رہے تھے پرندے شجر کے گرد
بچے تھے آشیانوں میں، طوفان سر پہ تھا 
 جس گھر کے بیٹھ جانے کا دکھ ہے بہت ہمیں
 تاریخ کہہ رہی ہے کہ وہ بھی کھنڈر پہ تھا
 ہم یاد تو نہ آئیں گے لیکن بچھڑتے وقت
تارہ سا اک خیال تری چشم تر پہ تھا 
پروین شاکر نے اردو شاعری میں نئے اسلوب کو متعارف کرایا۔ ایک ایسی نسائی آواز جو کم عمری کے باوجود گہری باتیں کرتی رہی۔ ان کے حساس دل کی جذباتیت نے لوگوں کے دلوں پر اپنی تاثیر قائم کرنے میں کچھ دیر نہ لگائی۔ ان کی آپ بیتی ایسی تھی جو جگ بیتی بن گئی۔ 
ہارورڈ کی گریجویٹ اور فل برائٹ اسکالر پروین شاکر24نومبر1952ءکوکراچی میں پیدا ہوئیں۔ انگریزی میں ماسڑز کی ڈگری بھی حاصل کی اور کراچی یونیورسٹی میںاسی مضمون کی استاذہ بنیں۔ بعد ازاں سول سروس کا امتحان پاس کر کے اس شعبے میں تعینات ہوگئیں۔ وہ ایک حادثے کے باعث اس دنیا سے چلی گئیں۔
 

شیئر: