انڈوں کی ٹوکری کہیں چھوٹ نہ جائے!
پیر 3 دسمبر 2018 3:00
تنویر انجم
**تنویر انجم **
ہم اپنے بچپن سے ایک دلچسپ سوال سنتے آئے ہیں کہ ’’دنیا میں پہلے مرغی آئی تھی یا انڈا؟‘‘ ہمارے والدین اور اساتذہ بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ بھی اپنے بچپن ہی سے اسی بحث کو سنتے آئے کہ ’’دنیا میں پہلے مرغی آئی تھی یا انڈا؟‘‘ پتا یہ چلا کہ غالباً ہزاروں سال سے یہ ایک ایسا سوال ہے جو نسل در نسل چلتا آ رہا ہے مگر اس کا اطمینان بخش جواب آج تک کوئی نہیں دے پایا۔ سائنس دانوں نے گو کہ مختلف مواقع پر اس کی وضاحتیں اور دلائل ضرور پیش کیے مگر اس دلچسپ موضوع پر بحث آج بھی جاری ہے اور سوال ہے کہ اپنی جگہ پر جوں کا توں قائم ہے۔ پھر یوں ہوا کہ اس سنجیدہ یا غالباً غیر سنجیدہ موضوع کو ’’ری مِکس‘‘ کا تڑکا لگایا گیا اور ایک ہندوستانی فلم کے گانے ’’آؤ سکھاؤں، تمہیں انڈے کا فنڈا‘‘ میں اس موضوع کو اٹھایا اور بتایا گیا کہ یہ انڈا ہی ہے جس میں جیون کا فلسفہ چھپا ہے۔ اِس کے بعد سے ’’مرغی اور انڈا‘‘ دونوں نے خود کو محددو کرتے ہوئے گوشہ گمنامی اختیار کرلی تھا۔
ایسے میں بھلا ہو ہمارے وزیر اعظم کا جنہوں نے اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے 100 دن پورے ہونے پر منعقدہ تقریب سے خطاب کیا جس میں انہوں نے مشورہ دیا کہ دیہات میں رہنے والی خواتین مرغیوں اور انڈوں کے ذریعے غربت کا خاتمہ کر سکتی ہیں۔ اپنے خطاب میں وزیر اعظم نے تجویز پیش کی کہ حکومت دیہات میں رہنے والی خواتین کو مرغیاں اور انڈے دے گی جس سے وہ اپنا پولٹری کا کاروبار کرکے اپنے بُرے حال کو اچھے مستقبل میں بدل سکتی ہیں۔
عمران خان کے اس بیان کے بعد مرغی، انڈے اور ان دونوں کے مشترکہ فنڈے کو جو عالمی شہرت حاصل ہوئی ہے اس کے بعد آئندہ آنے والی نسلیں ’’دنیا میں پہلے مرغی آئی تھی یا انڈا؟‘‘ اور اس میں چھپے ’’جیون کے فلسفے‘‘ کو تلاش کرنے کے بجائے گزشتہ ہفتے کے ٹویٹس اور فیس بک کی پوسٹس پڑھ کر اپنی روح کو غذا فراہم کرے گی۔ وزیر اعظم کے ’’یو ٹرن‘‘ کو بھی کیا شہرت حاصل ہوئی ہوگی جو چند روز میں ’’مرغی اور انڈے‘‘ نے قابل رشک مقام پالیا۔ سوشل میڈیا صارفین جن میں بڑی تعداد تو نوجوانوں کی ہے مگر اقلیت میں موجود ان کے ’’ناقدین‘‘ اکثریت پر ایسے حاوی ہوئے کہ ہر جانب سے انڈوں کی آوازیں اور مرغی کی ککڑوں کوں سنائی دی۔ وزیر اعظم نے تو اپنے ’’منفرد‘‘ منصوبے کے ذریعے ملک کو معاشی مشکلات سے نکالنے کا ایک حل دیا تھا مگر ایک دنیا تھی کہ ’’لٹھ‘‘ لے کر ان کے پیچھے پڑ گئی۔
ابھی سوشل میڈیا صارفین کے مابین جنگ جاری ہی تھی کہ اپوزیشن بھی میدان میں کود پڑی۔ حزب اختلاف کے سیاست دانوں نے ’’مرغی اور انڈے‘‘ کو ’’ہولی‘‘ کھیلتا دیکھ کر خود کو بھی اُسی ’’رنگ میں رنگنے‘‘ کی کوشش کی کہ ’’موقع اور شہرت‘‘ بھلا کِسے پسند نہیں؟ اس تنقید کو وزیر اطلاعات نے آڑے ہاتھوں لیا اور ہر وقت ’’جلے بھنے الفاظ سے مسلح‘‘ رہنے والے وزیر اعظم کے ’’سپاہی‘‘ فوادچوہدری نے جوابی وار کرتے ہوئے کہا کہ ’’خورشید شاہ اور ان کے رہنما نے پاکستان کے خزانے کو سونے کی مرغی سمجھ کر حلال کیاہے مگر اب مُلک اور عوام کا مال لوٹنے والوں کے مقدر میں مرغی ہے نہ انڈا، صرف جیل کی دال ہے ‘‘۔
اِسی دوران مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے بھی اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس کی جس میں پی ٹی آئی حکومت کے 100 دن کو ’’ناکامی کے 100 دن‘‘ قرار دیتے ہوئے جہاں کپتان اور ان کی ٹیم پر کڑی تنقید کی گئی وہیں ’’مرغی اور انڈے‘‘ کو موضوع بنا کر اِن دونوں (مرغی اور انڈوں) کو اپنے نخرے مزید بڑھانے کا موقع فراہم کیا۔
ابھی اس ’’انتہائی اہم موضوع‘‘ پر دانشورانِ ملک و ملت اپنی ’’رائے زنی‘‘ کا حق ادا کرہی رہے تھے کہ وزیر اعظم نے تنقید کا نشتر چلانے والوں کو غلام ذہنیت کا حامل قرار دے ڈالا۔ عمران خان نے مائیکروسافٹ کے بانی اور کئی برس تک دنیا کے امیر ترین رہنے والے شخص بل گیٹس کی مثال دیتے ہوئے مخالفین کو للکارا کہ ’’اگر دیسی لوگ مرغی کے ذریعے غربت کے خاتمے کی بات کریں تو غلام ذہنیت کے حامل لوگ اس بات کا مذاق اڑاتے ہیں، مگر جب ولایتی لوگ یہی بات کرتے ہیں تو اسے شاندار کہا جاتا ہے‘‘۔
حکومت آئی ایم ایف کی شرائط بھی پوری کررہی ہے تاکہ عالمی مالیاتی ادارے سے ’’قرض لے کر قرض اتارا جا سکے‘‘۔ اس فرمائشی پروگرام کو پورا کرنے کے لیے حکومت عوام پر مہنگائی کے بم بھی گرائے جا رہی ہے۔ کبھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی خبر سنائی دیتی ہے تو دوسری جانب سے گیس کے نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں۔ سب سے بڑا جھٹکا تو گزشتہ ہفتے کے آخری روز لگا جب ڈالر کی قیمت روپے کے مقابلے میں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی، جس کے نتیجے میں پلک جھپکتے ہی ملکی قرضوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا بلکہ مہنگائی کے سونامی کا اشارہ بھی مل گیا۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تو آغاز ہے، 2019ء اس لحاظ سے عوام پر بہت بھاری ثابت ہو سکتا ہے۔
ملک کے اعلیٰ ماہرین معیشت اور بہترین اذہان وزیر اعظم کے گرد جمع ہیں اور عمران خان معیشت کی گاڑی کو چلانے کے لیے ’’مرغی اور انڈوں‘‘ کی باتیں کررہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ انڈوں کی یہ ٹوکری کہیں چھوٹ نہ جائے!