سعودی عرب میں انسانی حقوق
جیری ماہر ۔ الوطن
چند روز قبل سویڈن ریڈیو نے مجھ سے سعودی عرب ، وژن 2030، جمال خاشقجی کی واقعہ اور انسانی حقوق پر انٹرویو لیا۔ میں نے سویڈن ریڈیو کے اناﺅنسر کے تمام سوالات کے جوابات سادہ زبان میں دیئے۔ ہر سوال کا جواب دو ٹوک دیا۔ میری خواہش تھی کہ سویڈن کے شہری سعودی عرب میں ہونے والے واقعات سے آگاہ ہوں۔ انہیں معلوم ہو کہ سعودی قائدین اپنے اور خطے کی عوام کےلئے کیاکچھ کررہے ہیں، انتہا پسندی اور دہشتگردی سے کس طرح لڑ رہے ہیں،امن و سلامتی کے پرچار کا مشن کس انداز میں چلا رہے ہیں، شیطانی افکار کو دنیا بھر میں پھیلنے سے روکنے کیلئے کیا کچھ کررہے ہیں۔
سویڈن کے بارے میں یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ یہ ملک دنیا بھر سے آنے والے پناہ گزینوں کا میزبان ہے۔ وہاں دسیوں ہزار فلسطینی، عراقی، شامی، لبنانی، افغانی ، ایرانی ، صومالی وغیرہ مختلف قومیتوں کے لوگ پناہ گزین کے طور پر پہنچے ہوئے ہیں۔سویڈن کے عوام اس مسئلے سے سب سے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ مسئلہ حل ہو۔ کبھی کبھار کثیر تعداد میں آنے والے پناہ گزینوں کی میزبانی کی مخالفت بھی کرتے ہیں۔
سویڈن کے نشریاتی ا دارے کے اناﺅنسر نے مجھ سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی بابت سوال کیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ سویڈن غریب ممالک کے لاکھوں پناہ گزینوں کا میزبان ہے۔زیادہ تر سیاسی پناہ گزین ہیں۔ بعض خانہ جنگیوں کے بھنور سے فرار ہوکر انسانی بنیادوں پر سویڈن پہنچے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ اظہار رائے کی آزادی پر عائد پابندیوں سے متاثر بھی ہیں۔ کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ کوئی سعودی بھی آپ کے یہاں پناہ گزینوں کی فہرست میں شامل ہے؟
میں نے یہ بھی بتایا کہ سویڈن میں کوئی سعودی پناہ گزین نہیں۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں سعودی پناہ گزین نہیں۔ ہاں تعلیم یا علاج کیلئے سعودی دنیا کے مختلف ممالک جاتے ہیں ۔ اس سے یہ بات خو د بخود ثابت ہوتی ہے کہ سعودی اپنے وطن میں باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ دنیا کے کسی بھی ملک جانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اگر صورتحال ویسی ہوتی جیسی کہ دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے تو دسیوں ہزار سعودی ادھر ادھر پناہ گزینوں کی صورت میں یقینا نظر آتے۔
یقین جانیں کہ سعودی قائدین عدل پسند ہیں۔ حکمت و فراست کے ساتھ اپنے عوام سے پیش آتے ہیں۔ تمام شہروں، قصبوں اور بستیوں کی تعمیر و ترقی کے کام کررہے ہیں۔ اپنے شہریوں کے قرضے تک کسی تفریق کے بغیر ادا کرتے ہیں۔اگر آپ کو انسانی حقوق کی بات کرنی ہے تو آپ ایران پر ایک نظر ڈالیںجہاں کے ہزاروں لوگ سویڈن سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ یہ نئی زندگی کی تلاش ، ظلم ، جبر ، تشدد ، قتل ، گرفتاری اور در بدری کے عذاب سے نجات حاصل کرنے کیلئے دنیا بھر میں بکھر گئے ہیں۔
سعودی عرب ایسا ملک ہے جس کے عوام اور قائدین ایک دوسرے کے تئیں پرجوش ہیں۔ عوام اور قیادت کا یہ رشتہ کسی بھی شکل و صورت میں توڑا نہیں جاسکتا۔
شاہ سلمان اور انکے ولی عہد نیز اقتدار کے ایوانوں کے دیگر عہدیدار اپنے عوام کے قریب ہیں۔ شاہ سلمان نہ جانے کتنی بار یہ بات کہہ چکے ہیں کہ وہ بلا امتیاز ہر ایک کا احتساب کرینگے۔ اس سلسلے میں حکمراں خاندان کے قصور وار شہزادے کو بھی معاف نہیں کرینگے۔ آپ کو یہ منظر نامہ مملکت کے اطراف موجود کسی بھی ملک میں نظر نہیں آئیگا۔ یہ منظر نامہ ایران میں ناپید ہے۔
سعودی عرب میں انسانی حقوق کا محافظ قدیم و جدید قانون ہے۔ میری مراد القرآن الکریم اور سنت مبارکہ سے ہے۔ جو قائد بھی اس آئین کی پیروی کریگا وہ اپنے عوام پر کبھی ظلم نہیں کریگا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ عوام کے جملہ حقوق احسن شکل میں ادا کرنے کا اہتمام کریگا۔
سعودی عرب میں کسی بھی انسان پر ظلم نہیں کیا جاتا۔ کسی کا خون نہیں بہایا جاتا۔ کسی بھی بے قصور کو جیل میں نہیںڈالا جاتا۔ سعودی عرب میں خفیہ اداروں کا راج نہیں۔ سعودی شہریوں اور سیکیورٹی فورس کے درمیان مفاد عامہ اور ملکی امن و سلامتی کے تحفظ میں تعاون کا رشتہ ہے۔ سعودی شہری مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں پولیس اہلکاروںکے شانہ بشانہ زائرین کے تحفظ کیلئے کوشاں نظر آتے ہیں۔ یہی منظر نامہ حوثیوں کی دہشتگرد ی سے بچاﺅ کیلئے جنوبی سرحدوںپر بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ارض پاک کا چپہ چپہ سعودی عوام و قائدین کے درمیان گہرے تعلق کا آئینہ دار ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭