تارکین وطن کیلئے جہاں پردیس کی مشقتیں اور صعوبتیں برداشت کرنا لکھا ہے وہاں قانونی مسائل کے علاوہ بے شمار قباحتوں کا بھی انہیں سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف کسی بھی ملک میں سفارتخانہ فقط ایک ہی ہوتا ہے۔ قونصلیٹ کے دفاترمیزبان ملک کی رضامندی سے ایک سے زائد کھولے جا سکتے ہیں۔ سعودی عرب میں پاکستانی تارکین وطن کی سب سے بڑی اکثریت مقیم ہے۔ یہاں پر ان کے مسائل بھی سب سے زیادہ ہیںجس کیلئے انہیں وقتاً فوقتا ًسفارتخانہ پاکستان یا قونصل جنرل آف پاکستان کی خدمات درکار ہوتی ہیں۔ گو کہ سعودی عرب میں اکثریت محنت کش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔بالعموم ایسے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جہاں پر سفارتخانہ یا قونصل آفس ان کی داد رسی سے قاصر نظر آتا ہے مگر سعودی عرب میں سفارتخانہ پاکستان اور اسکے عملے نے ایسے منصوبے ترتیب دے رکھے ہیں کہ مہینے میں کم ازکم 4 چھٹیوں کے دنوں میںبھی سفارتی و امدادی عملہ سعودی عرب کے مختلف حصوں میں اپنے کیمپ لگا کر تارکین وطن کی مدد کرتا ہے۔ یہ منصوبے صرف پاکستانیوں کی سہولت کیلئے لگائے جاتے ہیں تا کہ دوردراز یا پسماندہ علاقوں میں کام کاج کرنیوالے تارکین وطن کو سفارتی سہولت میسر ہو سکے اور وہ اپنے روزگار سے غیر حاضر ہوئے بغیرطویل ترین سفر کئے بغیر اور دارالحکومت میں خوار (رہائش و طعام کی خاطر) ہونے کی بجائے اپنے قریب ترین مرکز میں اپنے معاملات سلجھا و نپٹا سکیں۔ بیرون ملک مقیم کسی بھی شہری کیلئے سب سے اہم معاملہ اس کی شناخت ہے جس میں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ سر فہرست ہیں۔سفارتخانہ پاکستان یا قونصلیٹ آفس سے دور دراز مقیم پاکستانیوں کیلئے یہ امر سوہان روح ہوتا ہے کہ وہ اپنے روزگار سے چھٹی لیکر کسی بھی دوسرے شہر میں جائیں اور اپنی ان دستاویزات کی تجدید کروائیں۔مزید برآںہمارا محنت کش طبقہ بالعموم دیگر ضروری کاغذات کے بارے میں لاعلم ہوتا ہے یا اسکے پاس دیگر کاغذات میسر نہیں ہوتے۔ ایسی صورت میں ان شہریوں کے کاغذات تیار کرنا ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔سفارتی عملہ اپنی پیشہ ورانہ مجبوریوں اور قدغنوں (سرکاری حدود و قیود اور ضابطوں )کے باعث ان امور میں محنت کشوں کی بھرپور مدد کرنے سے قاصر ہوتا ہے کہ انہیں بہر کیف فائل کا پیٹ بھرنا ہی ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں محنت کش بالعموم مشکل میں نظر آتے ہیں کہ ان محنت کشوں کے بیرون ملک آنے کا بنیادی مقصدبہر کیف رزق کمانا ہی ہوتا اگر اس میں کسی بھی وجہ سے کوئی رکاوٹ پیش آئے۔ان کیلئے یہ بیگار سے کم نہیں کہ ان کا ایک ایک لمحہ ان کیلئے قیمتی ہوتا ہے جس کی خاطر وہ اپنے پیاروں سے ہزاروں میل دور بیٹھے ہوتے ہیں۔
تارکین وطن کی سہولت کی خاطر سفارتخانہ اور سفارتی عملہ اپنی بھرپور صلاحیت اور توانائی کے ساتھ بروئے کار آتا ہے مگر اپنی حدود و قیود کو مدنظر رکھتے ہوئے سفارتی عملہ تارکین وطن کی ہر ممکن مدد کرتا ہے۔ یہاں یہ امر انتہائی بر محل ہے کہ بالعموم افسر شاہی کا تاثر اتنا مثبت نہیں۔یہی کہا جاتا ہے کہ افسر شاہی عوام کے ساتھ بہتر سلوک نہیں کرتی مگر سعودی تارکین وطن کی یہ خوش نصیبی رہی ہے کہ یہاں پر تعینات ہونیوالے افسر بالعموم انتہائی ملنسار اور درد دل رکھنے والے ثابت(میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق ،جب سے میرا ان سے رابطہ ہے یا ان کی پبلک ڈیلنگ کو دیکھ رہا ہوں)ہوئے ہیں۔ ممکن ہے معاملات اسکے برعکس بھی ہوں لیکن وہ اس صورت میں ہوتا ہے جب کوئی سائل اپنی کوئی ایسی درخواست لے کر آتا ہے،جس میں ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں اور سائل مسلسل اصرار کرتا رہے،ایسی صورت میں کسی کا بھی رویہ سخت ہو سکتا ہے خواہ کوئی کتنا بھی نرم مزاج کیوں نہ ہو۔
دور حاضر میں ٹیکنالوجی کی سہولت نے بے شمار ایسے مسائل کو سائل کی دسترس میں کردیا کہ وہ گھر بیٹھے ہی اپنے مسائل کا بیشتر حصہ یا تو حل کر لیتا ہے یا بنیادی رہنمائی اسے میسر ہے جس کی بدولت وہ اپنے بیشتر وقت کو بچا سکتا ہے۔ اس وقت انٹرنیٹ کی سہولت نے ہر خاص و عام،بچے بوڑھے،عام مزدور سے کسی کمپنی کے سی ای او تک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ سونے پر سہاگہ جدید موبائل فونز کی مختلف ایپس نے انسان کی زندگی آسان تر کردی ۔ انگوٹھا چھاپ قسم کے تارکین وطن بھی ان ایپس کے استعمال میں بہت ماہر ہو چکے ہیں۔ ضرورت ایجاد کی ماں کے مترادف اِن ایپس کو استعمال کرنا بخوبی جانتے ہیں۔ یہ ایپس خواہ اپنے پیاروں سے بات چیت کرنے کیلئے ہوں یا روزگار کے حصول کی خاطر ،ہر دوصورتوں میں ہمارے تارکین وطن ان کے استعمال میں مشاق ہو چکے ہیں۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے سفارتخانہ پاکستان کے حال ہی میں سبکدوش ہونیوالے سفیر خان ہشام بن صدیق نے تارکین وطن کی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے ویلفیئر ونگ کو ایسی ایپ تیار کرنے کی ہدایت کی جس سے تارکین وطن گھر بیٹھے بٹھائے مستفید ہو سکیںجس پر کمیونٹی ویلفیئر اتاشی عبدالشکور شیخ نے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کی سپورٹ سے ’’ ہموطن‘‘نامی فون ایپ تیار کرکے گزشتہ جمعرات کو اس کا افتتاح کر دیا ۔ ہموطن ایپ فی الوقت آزمائشی طور پر لانچ کی گئی ہے تا کہ اس دوران جو خامیاں بھی اس میں ہو ،ان کو دور کرکے اسے مزید بہتر بنایا جا سکے۔ بنیادی طور پر یہ ایپ اینڈرائیڈ اور آئی فون دونوںپر میسر ہو گی اور فی الحال اس کا انگلش ورژن تیار ہوا ہے لیکن اس کا اردو ورژن تیاری کے آخری مراحل میں ہے۔15دسمبر تک سفارتی نوٹیفکیشنز اور دیگر سفارتخانوں سے لنک، 25 دسمبر تک اینڈرائیڈ پر ،25جنوری تک آئی فون پرجبکہ 25جنوری تک قونصل خانہ اور ابتدائی رپورٹ جاری کر دی جائے گی۔اس ایپ میں وہ تمام معلومات اور سہو لتیں تارکین وطن کو حاصل ہو ں گی جن کی مدد سے کوئی بھی پاکستانی،مملکت کے کسی بھی حصے میں بیٹھ کر اپنی مطلوبہ معلومات کا حصول گھر بیٹھے کر سکتا ہے۔ تارک وطن کسی واقعے کی اطلاع سفارتخانہ کو کر سکتاہے،اپنی شکایت درج کروا سکتا ہے،سفارتی عملے سے رابطہ کر سکتا ہے کہ ہمہ وقت ایک ایمرجنسی فون نمبر میسر ہے (یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ چونکہ مہیا کیا گیا نمبر ایمرجنسی کیلئے ہے اس لئے تارکین وطن کو اس کا استعمال ذمہ داری سے کرنا ہو گا تا کہ نہ تو ان کا وقت ضائع ہو اورنہ ہی اس نمبر پر موجود سفارتی افسر کا)۔ علاوہ ازیں اس ایپ پر ویلفیئر کے علاوہ (پاکستان میں کسی مسئلے پر رہنمائی،فوتگی کی صورت میں درکار کاغذات کی تیاری وغیرہ)پاسپورٹ اور شناختی کارڈسے متعلقہ معلومات ،ان کے اجراء و تجدید کیلئے متعلقہ طریقہ کار و درکار دستاویزات وغیرہ سب کچھ موجود ہو گا تا کہ سائلین کو سفارتخانہ،قونصلیٹ یا سفارتخانے کے مختلف شہروں میں دوروں کے دوران کسی قسم کی زحمت نہ ہو اور وہ تمام لوازمات کے ساتھ تشریف لاکر اپنی باری پر تمام امور سہولت کے ساتھ انجام دیں سکیں۔ ایسی سہولت کے متعلق عبدالشکور شیخ کا دعویٰ ہے کہ ایپ کو متعارف کروانے میں سفارتخانہ پاکستان سعودی عرب نے سب سے پہلے پہل کی ہے۔ ایسی سہولت ابھی تک کسی بھی دوسرے ملک نے متعارف نہیں کروائی۔ حقیقت اس لئے محسوس ہوتی ہے کہ جتنی تعداد میں تارکین وطن فقط سعودی عرب میں موجود ہیں،ایسی کوئی سہولت کسی بھی دوسرے ملک کے شہریوں کیلئے میسر نہیں البتہ ان کا نظام و طریقہ کار یقینی طور پر مختلف ہے۔ بہر کیف دعا ہے کہ ابتدائی ایک ماہ کا یہ عرصہ اس ایپ کیلئے امید افزا ہو اور تارکین وطن کو فراہم کی گئی ایک اور سہولت سے وہ کما حقہ ذمہ داری کے ساتھ فائدہ اٹھانے کا مظاہرہ کریں۔