محمد مبشر انوار
اپنی گزشتہ تحریر میں راقم نے 2حوالوں سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے پر اپنی رائے کا اظہار کیا تھا لیکن ایک اہم مؤقف،جو بابائے قوم نے،اسرائیلی ریاست کے حوالے سے اپنایا تھا،کالم میں جگہ کی تنگی کے باعث ذکر ممکن نہیں تھا،آج اس حوالے سے قارئین کی یادداشت کو تازہ کرنے کی کوشش ہے ۔ بنی اسرائیل چونکہ اللہ رب الکریم کی چہیتی قوم کے طور پر جانی جاتی ہے ۔ اس کا ذکر ہماری الہامی کتاب قرآن مجید میں بھی ہے مگر چہیتی ہونے کے باعث اس قوم کی عادات و خصائل بھی خصوصی ہیں۔ اللہ رب العزت کے کم و بیش ایک لاکھ 24 ہزار پیغمبروں نے اپنی تعلیمات اور تبلیغ میں واضح طور پر نبی آخرالزماں،سرکار دو عالماور محبوب خدا کے آنے کی نوید سنائی اور اپنی اس خواہش کااظہار کیا کہ اگر انہیں سرکار دوعالم کا زمانہ نصیب ہو تو وہ آپ کے امتی ہونے میں فخر محسوس کریں گے۔ دوسری طرف بنی اسرائیل چہیتی قوم ہونے کے ناطے یہ تصور کر چکے تھے کہ اللہ کی یہ برگزیدہ ہستی بھی ،دیگر نوازشات کی طرح ،انہی کی قوم سے مبعوث ہو گی مگر اللہ رب العزت کے اپنے فیصلے اور اپنی حکمتیں ہیں ۔سرکار دوعالم کی آمد بنو اسرائیل میں سے نہ ہوئی۔ تاریخ میں یہ حقیقت بھی واضح اور عیاں ہے کہ بنی اسرائیل کے بزرجمہروں کو اللہ کے اذن ،اپنی عقل و دانش اور علم سے اس بات کا علم ہو چکا تھا کہ رحمت اللعالمین کی آمد عرب کے ریگزاروں اور مکہ کے قرب و جوار میں ہو گی ۔ وہ اپنی زمین چھوڑ کر حجاز مقدس میں جا بسے۔ بنیادی طور پر بنی اسرائیل کی قسمت میں ہمیشہ سے یہی لکھا نظر آتا ہے کہ وہ کہیں ایک جگہ ٹک کر نہیں رہ سکتے گو کہ اللہ رب العزت کی چہیتی قوم ہے مگر اپنی نافرمانیوں کے باعث ہمیشہ راہ راست سے بھٹکے بھی رہے ہیں۔ ہٹ دھرمی ،ضد اور انا کی ماری یہ قوم اس وقت بھی اپنی انہی جبلتوں کے باعث،حق پر ایمان لانے سے گریزاں رہی ۔ آج تک گریزاں ہے ۔ اپنی انہی ریشہ دوانیوں ،بغض اور کینہ پروری جیسی عادتوں کے باعث آج تک بھٹکی ہوئی ہے۔ ایسی قوم کے متعلق ہی قرآن مجید میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ان کے دلوں پر کفر کی مہر لگا دی گئی ہے ماسوائے ان لوگوں کے جو ہدایت کے طلبگار ہوتے ہیں، بنی اسرائیل، نصرانی اور ہندوؤں کے دینی اکابرین حقائق جانتے بوجھتے بھی،اپنی قوم کو بے خبر رکھے ہوئے ہیں وگرنہ اسلام اوراسلامی تعلیمات کی حقانیت اظہر من الشمس ہے اور کوئی بھی جستجو کرنے یا رکھنے والا اس سے کسی صورت انکار نہیں کر سکتا۔ سرکار دوعالم کی آمد و مدینہ ہجرت کے بعد ،جہاں بنی اسرائیل اس وقت زیادہ تعداد میں مقیم تھے،اپنی کینہ پروری کے باعث مسلمانوں سے خاص پرخاش رکھے ،ان کے لئے مسائل پیدا کرتے رہے ۔ مسلمانوں سے عہد و پیمان میں مسلسل و ہمہ وقت بد عہدی کرتے،گھر میں بیٹھے مسلمانوں اور اسلام کیخلاف سازشیں کرتے،مسلمانوں کیلئے حیات کو تنگ کرتے،مسلمان غلاموں کیساتھ انسانیت سوز سلوک روا رکھتے،انہیں مرتد کرنے کی تدبیریں کرتے،ان کیخلاف بیرونی حملہ آوروں کی مدد تو ا ن کیلئے انتہائی معمولی بات تھی۔جب یہ حرکتیں بڑھتی چلی گئی تو سرکار دوعالم نے انہیں سرزمین مدینہ سے نکل جانے کا حکم سنا دیالیکن تاریخ میں کبھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ سرکار دوعالم نے ان کے وفود کوملنے سے انکار کیا ہو،ان سے تجارت نہ کی ہو لیکن ان تعلقات میں ہمیشہ مشتری ہوشیار باش والی کیفیت رہی اور کبھی انہیں کسی بھی طرح کا وار کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ بنی اسرائیل کے تابوت میں آخری کیل خلیفہ راشد دوئم حضرت عمر بن خطابؓ نے ثبت کی ،جب انہیں سرزمین حجاز سے کلیتاً بے دخل کر دیا گیا،جس کے بعد ان پر زمین بھی تنگ ہوتی چلی گئی اور وہ خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے اور اپنی انہی حرکتوں کے باعث ہر ملک سے نکالے جاتے رہے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران اور خاتمے تک ،بنی اسرائیل نے ہولو کاسٹ کا ایک ایسا ڈرامہ رچایا ،جس پر آج بھی نہ تو تحقیق کی اجا زت ہے اور نہ لب کشائی کی،جس نے انہیں بالآخر برطانوی سامراج سے واپس اپنے وطن فلسطین ،جو بنی اسرائیل کا اصل و طن گردانا جاتا ہے،پہنچا دیا۔برطانوی سامراج نے ایک تیر سے دو شکار کرتے ہوئے،بنی اسرائیل کو فلسطین میں بسا کر ایک طرف انہیں زیر بار کیا تو دوسر ی طرف عرب کی مسلم ریاستوں کے سینے میں مستقل خنجر پیوست کردیا۔ دنیا بھر میں ایسی ریاست کی مثال کبھی نہیں دیکھی گئی اور نہ ہی دیکھی جا سکتی ہے کہ ایک ایسی قوم جس کی زیادہ سے زیادہ تعداد60 سے 70 لاکھ کے درمیان ہو،کو ایک ریاست میں ایسے داخل کیا گیا ہوکہ پور ے خطے کے امن کو داؤ پر لگا دیا جائے۔بنی اسرائیل ایک طرف تو اللہ کی چہیتی امت تھی ہی مگر اپنے مکر و فریب سے غیر مسلم دنیا کی بھی ضرور ت بن گئی ،ایک چھوٹے سے خطے کی خواہاں قوم نے بعد ازاں جس طرح فلسطینی سرزمین کو ہڑپ کرنا شروع کیا،مہذب دنیا کا انتہائی شرمنا ک باب ہے۔ 1947میں اقوام متحدہ کی قرارداد کیمطابق56:43کے تقسیم کے فارمولے سے انکار پر ،عرب اسرائیل کی جو جنگ لڑی گئی،اس میں اسرائیل نے غیرمسلم دنیا کی بھر پور امداد و تعاون کے باعث،فلسطینی علاقوں کو فتح کر لیا ۔ رہی سہی کسر 1967میں پوری کر دی۔نہتے فلسطینی اپنے حقوق کی خاطر ، کیل کانٹے سے لیس اسرائیلی فوجیوں کا سامناکرنے پر دہشت گرد قرار دئیے جاتے ہیں مگر نہتے بچوں ،بوڑھوں، عورتوںاور مریضوں پر آتش و آہن برسانیوالے اسرائیلی فوجی مظلوم دکھائے جاتے ہیں۔ پاکستان کی عرب دنیا سے الفت و محبت و عقیدت ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔ ساری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کے نزدیک سعودی عرب بالخصوص انتہائی مقدس مقام رکھتا ہے ۔ اسلئے پاکستانی عوام کو بالعموم یہی تاثر دیا جاتا رہا کہ ۔ اسرائیلی ریاست کا قیام باقی عرب ریاستوں کو قبول نہیں ۔ اس لئے ہمیں اسرائیلی ریا ست منظور نہیں ۔ ایسا نہیں کہ ایک قوم کی بلیک میلنگ کے سامنے سر نگوں ہو کر،دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کے ایک حصہ کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے ۔ان کے عقائد کی بے حرمتی کی جائے،ان کے جان و مال کو گولہ و بارود کی نوک پر رکھا جائے ۔ان کے بنیادی حقوق کو سلب کر لیا جائے ۔ان کی مقدس عبادت گاہ پر قبضہ کر لیا جائے ۔مہذب دنیا کے یہ اطوار قطعاً نہیں ہوتے اور نہ انہیں تسلیم کیا جاتا ہے مگر افسوس صد افسوس! کہ مہذب دنیا کے پیروکار اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں سے انحراف پر اترے ۔ساری دنیا میں مسلمانوں کے قتل عام پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیںاور غیر مسلم ریاستوں میں ریاستی دہشتگردوں کو ان کے قتل عام کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ یہ ریاستی دہشت گرد خواہ فلسطین کے ہوں یا ہندوستان کے،میانمار کے ہوں یا دنیا کے کسی بھی حصے سے انہیں نہ کسی کی پرواہ ہے اور نہ ڈر،وہ کھلے بندوں مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلتے نظر آتے ہیں،بنی اسرائیل کے ماضی سے واقف ہونے کے باعث،بابائے قوم نے ’ناجائز‘‘اسرائیلی ریاست کے اس جبراً قیام کی اصولی مخالفت کی تھی ۔پاکستان کی حکومتوں کو اسرائیل تسلیم کرنے سے پہلے اس کے ناجائز قیام کو ہمیشہ مد نظر رکھنا ہو گا۔
********