Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملک کو بحران سے نکالنے میں پہل

کراچی (صلاح الدین حیدر)موجودہ حکومت کو برسراقتدار آئے ہوئے تقریباً 5ماہ ہوگئے لیکن عوام میں مایوسی اور بے دلی کی ملی جلی کیفیت پائی جاتی رہی اتنے دنوں بعد لگتا ہے کہ اب نہ صرف حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں رسہ کشی ختم ہوجائے گی بلکہ اعتماد اور باہمی تعاون کا نیا اور خوشگوار ماحول پیدا ہوگا۔ قومی اسمبلی میں دونوں طرف سے کچھ ایسی باتیں کی گئیں جس سے ملک میں اطمینان کی فضا قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ اجلاس شروع ہوتے ہی حکمران جماعت کی طرف سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کھڑے ہوکر خوش خبری دی کہ پبلک اکاونٹس کمیٹی جس کی نامزدگی رکی رہنے سے پارلیمان کی باقی کمیٹیاں بھی قائم نہ ہو سکتی تھیں۔ اس طرح 22 کروڑ کا نمائندہ ایوان عضو معطل بن کر رہ گیا تھا۔ اس پر تنقید کی گئی کہ پارلیمان میں اگر قانون سازی نہ ہو تو پھر الیکشن جیسی لمبی چوڑی مشق، ایوان کا وجود میں آنا محض تماشا بن کے رہ جانا کسی بھی طرح ملکی مفاد میں نہیں۔ قوم میں بے چینی بڑھ رہی ہے، بالاخر عوام الناس کے مسائل کیسے اور کب حل ہوں گے۔تنازع صرف ایک نکتہ پر جو بظاہر چھوٹا ہی سہی لیکن انتہائی اہم تھا کہ جب تک پبلک اکاونٹس کمیٹی جو تمام ایوان کی قائم کردہ کمیٹیوں اور حکومتی اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھتی ہے، قائم نہیں ہوگی۔ اپوزیشن کسی بھی اور پارلیمانی کمیٹی کی ممبر شپ قبول نہیں کرے گی، نتیجتاً 5 ماہ کے دوران سوائے بجٹ یا منی بل کے کوئی اور قانون پاس نہیں ہوسکا۔
یہ یقینا ناگفتہ بہ صورت حال تھی جس کا ازالہ جلد سے جلد کرنے کی ضرورت تھی۔ پہلے تو حکومت، بشمول وزیر اعظم عمران خان نے بیانات کے ذریعے کہ شہباز شریف جن پر نیب کے مقدمات چل رہے ہیں اور جو کہ تقریباً قیدی ہیں، کیسے انہیں ایک اہم کمیٹی کی صدارت دی جاسکتی ہے۔۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے تو کچھ زیادہ ہی جارحانہ رویہ اختیار کیا ہوا تھا کہ چوروں، ڈاکووں اور لیٹروں کے خلاف تادیبی کارروائی کرو تو جمہوریت خطرے میں ہونے کی صدا بلند ہونے لگتی ہے ایسا لگتا ہے کہ عمران نے یہ دیکھ کر کہ انہیں خود ہی بہت سارے معاملات کو حل کرنے پڑے گا۔کئی ایک اجلاس بلائے جس میں قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر نے شرکت کی۔ عمران نے تمام صورت حال کا تفصیلی جائزہ لے کر یہ فیصلہ کیا کہ ضد سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔اگر اپوزیشن شہباز شریف کو ہی پی اے سی کا چیئرمین بنانے پر متفق ہے تو انہیں بھی کوئی اعتراض نہیں۔ آج اس بات کا اعلان کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے شہباز شریف کو دعوت دی کہ وہ پی اے سی کی چیئرمین شپ قبول کر لیں لیکن جب کوئی اعتراض پچھلی حکومت پر جو کہ نون لیگ کی تھی کمیٹی کے سامنے آئے تو وہ اس وقت کمیٹی کے اجلاس سے باہر چلے جائیں۔ ان کی موجودگی سے تاثر ابھرنا لازمی ہے کہ نواز شریف یا شہباز شریف یا نون لیگ کی حکمرانی کے دوران کوئی غیر قانونی اخراجات یا فیصلے کئے گئے ہوں تو پھر شہباز شریف کی موجودگی سے انصاف کے تقاضے پورے نہ ہونے کا تاثر ابھرے۔ اپنی تقریر میں شہباز شریف نے شاہ محمود قریشی کے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا اور پی ٹی آئی کے شکرگزار بھی نظر آئے۔ ان کے الفاظ کہ بہت خوشی ہے کہ حکومت نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا ۔ اپوزیشن بھی حکومت سے ہر قومی مفاد کے فیصلے پر پی ٹی آئی کا ساتھ دے گی۔ سب ہی مل جل کر ایوان کے تقدس اور وقار کو قائم رکھ سکیں اور عوام کی توقعات پر پورا اتریں۔ سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے بھی اس بات کا خیر مقدم کیا۔ قصہ مختصر کہ آج ایوان میں ایک نئی زندگی لوٹ آئی، ایک نئی روح پھونک دی گئی، جس کا اب تک فقدان تھا۔ دونوں طرف سے ذمہ داری کا اظہار کیا جانا سیاسی استحکام کی ضمانت ہے اور عمران کی بصارت کو بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ایک اچھا فیصلہ کر کے ملک کو بحران سے نکالنے میں پہل کی۔ 
 

شیئر: