سعود ی عرب سے شائع ہونے والے اخبار’’ عکاظ‘‘ کا اداریہ نذر قارئین ہے
گزشتہ دنوں منظر عام پر آنیوالی بین الاقوامی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ 2019ء کے دوران ایرانی حکمران اپنی تاریخ کے بد ترین ایام سے گزریں گے ۔ سالِ رواں 2018ء کے شروع سے ایران میں اپنے حکمرانوں کے خلاف عوامی غیض و غضب کی جو لہر شروع ہوئی تھی وہ روزبروز شدت اختیار کرتی جا رہی ہے ۔ مہنگائی ، اقتصادی بدحالی ، کرنسی کی قدر میں انتہائی کمی اور افراطِ زر میں اضافے کے خلاف احتجاجی مظاہرے روز افزوں ہیں ۔ نومبر میں امریکی پابندیوں کے نفاذ کے بعد سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ زیادہ شدت اختیار کر گیا۔ ٹرک ڈرائیور اور کارخانوں کے مزدور خاص طور پر انتہائی جوش و خروش کے ساتھ میدان میں اترنے لگے ہیں ۔
تقریباً اس بات پر اتفاق سا ہو گیا ہے کہ ایران کیخلاف امریکہ کی سخت پابندیوں کے حقیقی نتائج 2019ء کے دوران نمودار ہوں گے ۔ ایسا لگتا ہے کہ نئے سال میں ایران کی صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو گی ۔ امریکی پابندیوں کے باعث ایران کی تیل برآمدات میں 30فیصد تک کمی ہو جائے گی ۔ اس کا نتیجہ بجٹ کی کمی کی صورت میں برآمد ہو گا ۔ اس پر تہران کے ظالمانہ نظام کیخلاف انقلاب کی آگ بھڑ کے گی ۔ ایرانی حکمراں مظاہرین کو کچلنے اور سولی پر لٹکانے کے سوا کچھ اور نہیں کرینگے ۔ مایوسی بڑھے گی ۔ ایرانی حکمران بیرون ملک انتہا پسندی اور دہشتگردی کو رواج دینے کیلئے زیادہ مستعد ہوں گے ۔ اس کے باوجود ایران بھر میں عوامی غیض و غضب کی لہر تھمے گی نہیں بلکہ بڑھے گی ۔ عالمی برادری میں یہ احساس بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ ایران کے آمرانہ نظام کے تاریک دور کا خاتمہ ضروری بھی ہے اور قریب بھی آچکا ہے ۔