Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قرآن وسنت کی زبان نظر انداز کرنے سے عربوں کی شناخت ختم ہوجائیگی، امام حرم

مکہ مکرمہ۔۔۔ مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ ڈاکٹر سعود الشریم نے خبردار کیا ہے کہ کسی بھی قوم کی زبان کے خلاف یلغار سے ایک سال میں اتنا کچھ بدل جاتا ہے جتنا کہ لشکر عشروں میں تبدیل نہیں کرپاتے۔ وہ ایمان افروز روحانی ماحول میں جمعہ کا خطبہ عربی زبان کی اہمیت ، حیثیت ، مقام و رتبے اور اسے اہل زبا ن کی جانب سے نظر انداز کرنے کے موضوع پر دے رہے تھے۔ امام حرم نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ بہت سارے وہ لوگ جو قرآن کریم کی زبان سے نسلی رشتہ رکھتے ہیں وہ اس زبان کی فصاحت، بلاغت اور قدرو قیمت کو نظرانداز کررہے ہیں۔ انہوں نے عربی زبان کی اہمیت گھٹا دی ہے اور اس سے لاپروائی برت رہے ہیں۔ اگر وہ دیگر اقوام کے یہاں اپنی اپنی زبانوں سے انکی دلچسپی اور اپنی زبان کے تحفظ کیلئے انکی ہمت، حوصلے اور محنت پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ وہ کسی بھی زبان کے خلاف یلغار سے اس کے بولنے والوں کو کتنا کچھ نقصان ہوتا ہے۔ کسی بھی زبان کے خلاف یلغار ایک برس میں اتنا کچھ بدل دیتی ہے جتنا کہ لشکر عشروں میں نہیں بدل پاتے۔ امام حرم نے توجہ دلائی کہ سب لوگ عربی زبان سے محبت کریں۔ عربی زبان ہی میں انکی عزت او ر شوکت مضمر ہے۔ یہ انکے رب کی کتاب قرآن کریم اور انکے پیغمبر برحق محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کی زبان ہے۔ اگر عرب اپنی زبان سے پیار کریں گے تو انہیں اپنا گھر ، اپنا وطن اور اپنا قرار اور اپنا مستقبل اس میں نظر آئیگا۔ امام حرم نے سوال کیا کہ اگر عربوں کی زبان ضائع ہوگئی یا عربوں نے عربی سے غفلت شعاری کا مظاہرہ کیا تو انکے پاس ایسا کونسا پیغام رہ جائیگا جس پر وہ فخر کے قابل ہونگے۔ انہوں نے جمعہ کا خطبہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ بعض عرب اپنی زبان لکنت کے ساتھ بولنا پسند کررہے ہیں۔ اگر کوئی قوم اپنی زبان کو اہمیت نہیں دے گی تو وہ قوم ضائع ہوجائیگی۔ امام حرم نے عربی زبان کی تعلیم ، تدریس اور تقویت کے حوالے سے عربی کے اساتذہ کے کردار کو بھی اجاگر کیا۔ انہوں نے زو ردیکر کہا کہ اگر آپ لوگوں نے عربی سکھانے، پڑھانے اور لکھنے لکھانے کی استعداد نہ پیدا کی تو آپ کے ہموطن کسی او رپرکشش زبان کی جانب چل پڑیں گے اور وہ زبان آپ کی عربی زبان کو پچھاڑ دے گی۔ امام حرم نے بتایا کہ عربی زبان کے ضیاع کے دو سبب ہیں۔ ایک اندرونی ہے او رایک خارجی ہے۔ داخلی سبب اہل خانہ اور رشتہ داروں سے تعلق رکھتا ہے۔اگراہل خانہ اور اہل وطن اس خامی کا تدارک کرلیں تو خارجی سبب کا مداوا خود بخود ہوجائیگا۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ عربی زبان لکنت کےساتھ بول کر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ترقی یافتہ ہیں اور وہ غیر عربی کے ماہر ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ منفی سوچ میں مبتلا ہیں۔ وہ ترقی یافتہ نہیں بلکہ پسماندگی کا شکار ہیں۔ قرآن کریم کی زبان کی سربلندی نوشتہ تقدیر ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ اسکا مقصد یہ نہیں کہ غیر عربی کو سیکھنے سے روکا جارہا ہے۔ امت کو دینی ، سیاسی ، علمی ، تمدنی اور اقتصادی ترقی نیز دشمنوں کے مکر وفریب سے بچنے کیلئے بھی اغیار کی زبان سیکھنا ضروری ہے۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ اپنی زبان کو نظر انداز کردیا جائے یا اسکو کم تر سمجھ کر اس پر توجہ نہ دی جائے۔ دوسری جانب مسجد نبوی شریف کے امام و خطیب شیخ صلاح البدیر نے جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ انسان کیلئے تہذیب و ادب سے آراستہ ہونا اشد ضروری ہے۔ جو ادب اور تہذیب سے آراستہ ہوجاتے ہیں انہیں حسب نسب اور عہدہ و منصب پر فخر کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ امام مسجد نبوی نے کہا کہ ادب کردار و گفتار میں حسن و جمال کا دوسرا نام ہے۔ برائیاں ترک کرنا اچھائیاں اپنانا ادب بھی ہے اور تہذیب بھی۔ ادب ہی خدا ترسی ہے۔
 

شیئر: