زرداری مشکل صورتحال سے پھر نکل جائیں گے ؟
کرپشن کے بے تحاشہ الزامات سے قطع نظر آصف علی زرداری کی ایک خوبی جس کے ہم تو کیاسارا پاکستان ہی قائل ہے کہ وہ قومی سیاست کے سب سے زیادہ ذہین ، ہوشیار اور دور اندیش رہنماہیں۔اُن کی نگاہیں عقاب کی مانند وہ کچھ دیکھ لیتی ہیں جن پر ابھی کسی کی توجہ بھی نہیں گئی ہوتی ۔کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا اور وہ حالات کا دھارا اپنی ہی بنائی ہوئی سمت اور منزل کی جانب موڑ دیتے ہیں۔سیاسی بساط پربڑی سمجھداری اورہشیاری سے مہرے چلانا انہی کا ہنر اور خاصّہ ہے۔ کوئی اورابھی تک اُن کی اِس صفت کو نہیں پہنچ پایا ۔بے نظیر بھٹو سے رشتہ ازدواج میں بندھ جانے کے فیصلے سے لیکر آج تک اُن کے سارے فیصلے اُنکی سوچ و فکر کے لاثانی اور بے مثال ہونے پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کو جس طرح اُنہوں نے بھٹو خاندان سے نکال کراپنے خاندان کی پارٹی بنالی کہ پارٹی میں سے کسی کو کوئی اعتراض بھی نہ ہو اور سب کے سب اُن ہی کی اقتدا میںہاتھ باندھے کھڑے ہوجائیںایسا کرنا کسی ہمارے کسی اور سیاستداں کے بس کی بات نہ تھی۔کوئی سحر انگیز اورطلسماتی خصوصیات کا حامل شخص ہی ایسا جادو دکھاسکتا تھا۔اُن پر کرپشن کے الزامات تو بہت لگائے گئے مگر کیا مجال کہ مالی بد عنوانی کا کوئی ایک الزام بھی ہماری عدالتوں میں ثابت ہوجائے۔پارلیمانی نظام حکومت میں صدر مملکت کا عہدہ ویسے تو صرف نمائشی اورعلامتی ہوا کرتا ہے لیکن وہ اِس نظام کے واحد صدر مملکت تھے جن کے آگے وزیراعظم کی بھی کوئی وقعت اورحیثیت نہ تھی۔اُن کے دور میں حکومتی امور کے سارے اہم فیصلے پرائم منسٹر ہاؤس کی بجائے ایوان صدر ہی میں ہوا کرتے تھے۔ اپنے دور اقتدار کو 5 سال تک بخیرو خوبی گزارنے کیلئے اُنہوں نے ایم کیوایم کے ناز بھی اُٹھائے۔مسلم لیگ (ق) کے نخرے بھی برداشت کئے۔اُن کی ایسی ہی خوبیوں کی بدولت لوگ اُنہیں مفاہمت کا سلطان بھی کہتے ہیں۔
نواز شریف سے اُن کی دشمنی بہت پرانی ہے۔وہ کبھی کبھار حالات کی مجبوریوں اوروقت کی نزاکتوں کے سبب اُن سے مفاہمت تو کرلیتے ہیں لیکن پھرجب بھی اُنہیں مو قع ملتا ہے وہ حساب کتاب برابرکرنے میں لمحہ بھر کی دیر نہیں کرتے۔اداروں کیخلاف اپنے ایک اشتعال انگیز بیان سے جب کچھ مشکلیں آن پڑیں تو میاں صاحب کی طرف سے آنکھیں چرالینے کا بدلہ اُنہوں نے بلوچستان میں مسلم لیگی وزیراعلیٰ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کی صورت میںلے لیا۔اُنہوں نے پھر اِسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آگے بڑھکے سینیٹ میں بھی اُنہیں نہ اپنی اکثریت لانے دی اور نہ اپنا چیئرمین منتخب کرنے دیا۔جمہوریت پر کڑی نظر رکھنے والے ہمارے تمام اداروں نے اِس سارے گورکھ دھندے اور ارکان اسمبلی کی کھلے بندوں خرید وفروخت کو جمہوریت کا حسن سمجھ کرنہ صرف نظر انداز کیا بلکہ در پردہ حمایت بھی کی۔ یہی وجہ ہے کہ اِس ہارس ٹریڈنگ کی نہ کوئی تحقیقات کی گئی اور نہ کسی کوسزادی گئی۔
آصف علی زرداری بظاہر آج کل ملک میں ہونے والے احتساب کی گرفت میں پھنستے دکھائی دے رہے ہیں لیکن ہمیں پورا یقین ہے کہ وہ اپنی ذہانت اور لیاقت کی بدولت اِس مشکل گھڑی سے بھی بخیرو خوبی نکل جائیں گے۔ہمیں اچھی طرح یاد ہے جب سیکیورٹی اداروں نے بدنام زمانہ گینگسٹرعذیر بلوچ کو گرفتار کیا تو عام حلقوں میں یہی تاثر تھا کہ اب شاید آصف علی زرداری نہیں بچیں گے لیکن لوگوں نے دیکھاکہ نہ عذیر بلوچ کی گرفتاری سے کچھ ہوا اور نہ مشہور زمانہ ماڈل گرل ایان علی کی گرفتاری سے اُن کا کوئی بال بیکا ہوا۔یہی کچھ ہم نے ڈاکٹر عاصم علی کی گرفتاری کے وقت سنابھی سنا تھا مگر اداروں نے اُنہیں بھی سال2سال پکڑرکھنے کے بعدچار وناچار رہاکرہی دیا۔اب حسن لوائی اور انور مجید گرفتار ہیں۔ لوگ سمجھ رہے ہیں اُن کی گرفتاری سے بہت کچھ سامنے آئے گا۔ تخمینے اور اندازے لگائے جارہے ہیں کہ زرداری صاحب بہت جلد سلاخوں کے پیچھے ہونگے۔گمنام اور بے نام اکاؤنٹس کے قصے بھی سنائے جارہے ہیں ۔ اربوں روپوں کی منی لانڈرنگ کے مبینہ ٹھوس ثبوت بھی لائے جارہے ہیں۔ یہ سارا کھیل تماشہ ہم نے پہلے بھی کئی بار دیکھا ہے۔زرداری صاحب کی ساری زندگی ایسے ہی واقعات اورمہمات سے بھری پڑی ہے۔
معاملات کی سنجیدگی کا اندازہ اِس طرح لگایاجاسکتا ہے کہ ایک طرف زرداری اور انکی ہمشیرہ کی ضمانت قبل ازگرفتاری ہے کہ کبھی ختم ہی نہیں ہوپاتی اور دوسری جانب اُن کے خلاف تحقیقات ہیںکہ کبھی مکمل ہی نہیں ہو پاتیں ۔ ایسالگتا ہے یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گاتاوقتیکہ خان صاحب حکومت میں اپنی گرفت مضبوط نہیں کرلیتے ۔سہولت کاروں نے انہیں اپوزیشن کے حملوں سے بچانے کا فی الحال یہی طریقہ ڈھونڈاہے۔دوسری جانب زرداری صاحب کا اطمینان بتارہا ہے کہ کچھ بھی نہیںہونیوالا۔وہ اگر مشکل میں ہوتے تو یوںپھر اشتعال انگیز تقریریں کرنا شروع نہ کرتے۔وہ تو ببانگ دہل دعوت گرفتاری دے رہے ہیں لیکن قانون ہے کہ خود اُن سے پیچھا چھڑا کے جتن کررہا ہے۔ ہمیں اچھی طرح پتا ہے یہاں جس کو گرفتار کرنا مقصود ہوتو اوّل تو اُس کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور ہی نہیں ہوتی اگر ہو بھی جائے توایک خاص مدت کیلئے ہوا کرتی ہے، یوں چار پانچ مہینوں تک بار بار بڑھائی نہیں جاتی۔ابھی حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ خواجہ برادران کو جب نیب نے گرفتار کرنا چاہا تو فوراً ہی اُن کی ضمانت کی مزید توسیع کی درخواست مسترد کردی گئی اور قانون اور انصاف کے رکھوالوں نے جب فیصل رضا عابدی اور ڈاکٹر شاہد مسعود کو کوئی سبق سکھانا چاہا تو اُن کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ کیاگیا۔ آصف علی زرداری پر ہاتھ ڈالنا شاید اِس لئے بھی مشکل ہے کہ حکومت اور دیگر ادارے جانتے ہیں کہ جنگ اور سیاست میں سارے محاذ ایک ساتھ نہیں کھولے جاتے۔ایک طرف مسلم لیگ ن سے لڑائی لڑی جارہی ہوتو اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کو بلاوجہ اپنا دشمن نہیں بنایاجاسکتا۔ ویسے بھی پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ ن کی طرح آسان سیاسی حریف گردانہ نہیں جاسکتا۔اُسکے پاس جان پر کھیل جانے والے جیالوں کی کمی نہیں ۔اسٹریٹ پاور کی بھر پور صلاحیت اُس کے جانبازوں کا طرۂ امتیاز ہے۔وہ مسلم لیگ کی طرح اپنے قائد کی گرفتاری پر خاموش ہرگز نہیں رہیں گے۔یہ بات خان صاحب بھی اچھی طرح جانتے ہیں اور اُن کے سرپرست بھی۔ دانشمندی اِسی میں ہے کہ فی الحال ایک ہی دشمن سے نبردآزما ہوا جائے۔ شہد کی مکھیوں کے تمام چھتوںمیں ایک ساتھ ہاتھ نہ ڈالا جائے۔ خواجہ سعد رفیق تو لوہے کے چنے ثابت نہ ہوئے لیکن زرداری میں یہ خصوصیت یقینا موجود ہے کہ وہ اپنے دشمن کے دانت ضرور کھٹے کردیتے ہیں۔