Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نئی ایم کیو ایم قائم کرنے کی کوشش

کراچی (صلاح الدین حیدر) نواز شریف کے خلاف فیصلہ آتے ہی ملکی سیاست نے نیا موڑ لینا شروع کردیا ۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی 26 دسمبر کو نئے ارادوں کے ساتھ زرداری کی گرفتاری کے خلاف صف آراءہونے کے لئے تیاری کررہی ہے۔سندھ کی سطح پر بھی تبدیلیاں نمایاں نظر آنے لگی ہیں۔ حالیہ انتخابات میں بری طرح شکست کھانے کے بعد ایم کیو ایم نے پچھلے ہفتے لوکل گورنمنٹ کے ضمنی الیکشن میں کراچی میں پھر سے پی پی پی اور پی ٹی آئی پر سبقت حاصل کر کے نئی امیدیوں، نئے حوصلوں کے ساتھ خود کو دوبارہ منظم کرنے پر تلی نظر آتی ہے۔ مستقبل اس پارٹی کا کیا ہوگا فی الحال اندازہ لگانا یا پیشگوئیاں کرنا نامناسب ہوگا۔ کراچی اور میرپور خاص میں دوبارہ اکثریت سے جیت کر اس میں زندگی کی نئی لہر ابھرتی نظر آتی ہے۔یہ کیسے اور کب تک ہوگا۔ کہنا فی الحال مشکل ہے لیکن کوشش کی جائے تو کچھ نہ کچھ تو کامیابیاں ضرور ہوتی ہے۔ قدرت بھی مدد کرتی ہے ایک ایسی پارٹی جو 37 سال تک سندھ کے شہری علاقو ںمیں بغیر کسی چیلنج یا مقابلے کے اپنا سکہ جمائی رہی۔ پچھلے ڈیڑھ سال سے مشکلات کا شکار ہے اور حالیہ الیکشن میں اسے آپس میں لڑائی جھگڑا کرنے سے اچھا سبق ملا۔ اب ایک طرف تو ایم کیو ایم ہے پاکستان جو کہ خود کو اصلی ایم کیو ایم کہتی ہے تو دوسری طرف 3 اور دھڑے آپس میں دست و گریبان رہنے کے بعد ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر مل بیٹھنے کےلئے تیار ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار جو کہ بانی ایم کیو ایم میں شامل ہونے کے باوجود در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں اب دوبارہ فعال ہوگئے ۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ ایک نئی ایم کیو ایم متحدہ قومی فورم یا کونسل کے نام سے قائم کرنے میں مصروف ہیں جو کہ 1986ءوالی ایم کیو ایم کا نعم البدل اور عوام الناس میں امید کی نئی کرن ثابت ہوگی۔
اس پارٹی کے بانیوں میں ان کے علاوہ حقیقی کے چیئرمین آفاق احمد جو کہ الطاف حسین کے زمانے سے ہی علیحدہ ہوچکے تھے اور آج بھی علیحدہ ہی ہیں پھر پاک سرزمین پارٹی کے مصطفیٰ کمال ان کے نائب انیس قائم خانی سب مل کر نئی ایم کیو ایم کےلئے کوشاں ہیں۔ ان میں کئی ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں یہ پتا نہیں کہ تینوں دھڑے ایک دوسرے میں ضم ہوجائیں گے یا پھر اسے متحدہ محاذ کی صورت میں ایم کیو ایم کو نئی شکل دینگے۔بہرحال یہ بہت اہم واقعہ ہے۔ ان کا آپس میں گلے شکوے دور کر کے پھر سے یکجا ہوجانا بہت بڑی بات ہوگئی۔ ابھی اس محاذ کے بیج بوئے گئے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ یہ کتنا بڑا پودا یا تناور درخت بنتا ہے۔ وقت ہی بتاسکے گا۔
ہمارا اتحاد یا نئی پارٹی عوامی مسائل جو سندھ کے شہری علاقوں کے لوگوں کے لئے روز ہی مصیبت بنتے جارہے ہیں ان پر توجہ دے گی تاکہ ایم کیو ایم پر اعتماد بحال ہو سکے۔ لوکل گورنمنٹ کے ضمنی انتخابات میں ایم کیو ایم نے 14 میں سے کراچی کی 6 نشستیں جیت لیں۔ پیپلز پارٹی 3 اور عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی صرف ایک نشست حاصل کرچکی۔ اس سے تو یہی اشارے ملتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ غیرجانبدار رہے تو لوگوں میں بھی ووٹ کی حرمت پر اعتماد بحال ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی نے کراچی کی قومی اسمبلی کی 21 نشستوں میں سے 14 جیت لیں اور صوبائی سطح پر بھی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ پی ٹی آئی نے 23 نشستیں جیتیں۔ پیپلز پارٹی صرف 3 ہی جیت سکی۔ لوکل گورنمنٹ کے نتائج کچھ اور ہی پیغام دے رہے ہیں۔ فاروق ستار کی گفتگو سے لگتا ہے کہ وہ ایم کیو ایم بہادر آباد جو کہوفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی کی سربراہی میں قائم ہے سے بالکل ہی علیحدہ رہ کر پاک سرزمین اور حقیقی کے ساتھ ایک نئی پارٹی ترتیب دیں گے اگر ایسا ہوا تو پھر بھی کراچی کی سیاست پر کچھ نہ کچھ تو اچھا ہی اثر پڑے گا۔

شیئر: