شہزادہ سلطان بن سلمان نے مجھے طائف کے تاریخی مقامات کا دورہ کرایا ۔میرے ہمراہ عبداللہ الدوس تھے ۔ وہ تاریخی مقامات کے شناسا ہیں ۔ طائف کا قدیم بازار دیکھنا میرے پروگرام میں شامل تھا۔اس سے قبل طائف کی بعض تاریخی مساجد دیکھنے کا موقع ملا ۔ انہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ماضیٔ قدیم میں مساجد کس قدر سادہ انداز میں بنائی جاتی تھیں ۔ طائف میں مسجد ’’دعوع ‘‘پائی جاتی ہے ۔ وہاں ایک بورڈ نصب ہے جس پر تحریر ہے کہ اس مسجد کی بابت ہمیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ رسول اللہ یا صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم یا سلف صالحین میں سے کوئی یہاں سے گزرا ہو ۔ بورڈ پر اس قسم کی معلومات کیوں تحریر کی گئیں ؟اس کا باعث یہ ہے کہ بعض لوگوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ رسول اللہ نے یہاں نماز پڑھی تھی اور اس مسجد کیلئے خیر و برکت کیلئے دعا کی تھی ۔ اس تناظر میں بہت ساری عجیب و غریب خرافاتی سرگرمیاں دین اسلام کا حصہ بنا دی گئیں ۔ کئی لوگ یہاں مسجد سے تبرک کیلئے آتے ہیں ۔ دیواروں کو اس احساس کے ساتھ چھوتے ہیں گویا انہیں رسول اللہ کی زیارت نصیب ہو رہی ہے ۔
مسجد فن تعمیر کے لحاظ سے بیحد سادہ ہے ۔ اس کے گیٹ پر پانی کا ایک حوض ہے ۔ مسجد 2 ہالوں پر مشتمل ہے ۔ دونوں میں قالین بچھا ہوا ہے ۔ ایک ہال میں قبلہ بھی ہے ۔ اس مسجد میں باجماعت نماز نہیں ہوتی ۔ زائرین اسے دیکھنے کیلئے آتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ یہاں نماز کا اہتمام کرتے ہیں ۔ یہ مسجد محکمہ سیاحت و قومی آثار کے ماتحت ہے ۔
طائف میں دوسری مسجد ’’القنطرہ‘‘دیکھی۔ ٹورسٹ گائیڈ مشعل عوض میرے ہمراہ تھے ۔ مسجد کے دروازے پر ایک بورڈ نصب تھا جس میں تحریر تھا کہ زائرین بدعت و خرافات سے دور رہیں ۔یاد رکھیں کہ یہ ایسی جگہ نہیں جہاں رسول اللہ تشریف فرما ہوئے ہوں ۔ مسجد کا دروازہ پتھر وں کا بنا ہوا ہے۔ مسجد سے متصل بالائی کمرہ بھی ہے ۔ یہ کشادہ ہال پر مشتمل ہے ۔ اس کی چھت لکڑی کی ہے۔ 2ستونوں پر بنائی گئی ہے ۔ اس کا منارہ بڑا خوبصورت ہے ۔ 15میٹر اونچا ہے ۔ یہ اسلامی دور کے آغاز میں میناروں کی سادہ شروعات کا پتہ دیتا ہے ۔ ایک مرتبہ اس مسجد میں آگ لگ گئی تھی تاہم اسے تباہ ہونے سے بچالیا گیا ۔
میرا خیال ہے کہ شہزادہ سلطان بن سلمان نے سعودی آثار قدیمہ کو بچانے کیلئے جو عظیم الشان منصوبہ تیار کیا ہے وہ متوازن اور مناسب شکل میں آگے بڑھ رہا ہے ۔ ان دونوں مساجد کی ترمیم کا بھی پروگرام ہے ۔ یہ دونوں اسلامی تاریخ کی اہم مساجد ہیں ۔ یہاں چوکیدار نہ دیکھ کر حیرت ہوئی ۔
طائف میں تاریخی محل بھی ہیں ۔ اچھے لگتے ہیں ۔ ان میں الکاتب اور الحدیدی محل قابل ذکر ہیں ۔ حماد الساعی نے ان محلوں کی تاریخ بیان کی ہے ۔ یہ محکمہ سیاحت و قومی آثار کے ماتحت نہیں، ان کے مالکان ان کی قیمت بہت زیادہ طلب کر رہے ہیں ۔ محل کا مالک تجدید یا ترمیم کا کوئی بھی کام محکمہ سیاحت کی منظوری کے بغیر نہیں کر سکتا ۔ اب اسکے سامنے محل کو حکومت کے ہاتھوں فروخت کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ۔ مصر میں یہ کام میں بھی کر چکا ہوں ۔ ان میں قاہرہ ، المنصورہ اور اسیوط شہروں میں واقع اہم محل قابل ذکر ہیں۔