یمن کا مستقبل ، اسٹاکہوم اور اقوام متحدہ کے دوراہے پر
عبداللہ بن بجاد العتیبی ۔ الشرق الاوسط
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے سویڈن میں حوثیوں اور یمنی حکومت کے کارندوں کے درمیان مکالمے کے نتیجے میں طے پانے والے اسٹاکہوم معاہدے کی تائید و حمایت کردی۔ سلامتی کونسل نے حمایت بالاتفاق کی۔ قرارداد نمبر 2451 جاری کرکے اس امر کی تاکید کی گئی کہ یمن کا تنازع خلیجی فارمولے ، یمن کے قومی مکالمے کی قراردادوں اوراقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 2216کے مطابق طے پائیگا۔
اقوام متحدہ کی نئی قرارداد دو ٹوک ہے۔ اس میں بارودی سرنگیں بچھانے ، بچوں کو عسکری امو رکی تربیت دینے اور شہریوں کی نقل و حرکت کی آزادی کو مقید کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ یہ تینوں کام صرف اور صرف حوثی باغی کررہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کا ا یک اہم پہلو یہ ہے کہ اس کے تحت جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے اندراج کےلئے بین الاقوامی مبصر تعینات ہونگے۔ یہ مبصر ہفتہ واری رپورٹیں سیکریٹری جنرل کو پیش کرینگے اور ماہ رواں کے اختتام تک تجاویز بھی دینگے۔
یمن کے عوام اور حکومت نے جنوب سے لیکر شمال تک بڑا لمباسفر طے کیا۔ اقوام متحدہ کی نگرانی اور عرب اتحاد کی حمایت کی بدولت مذکورہ معاہدہ طے پاسکا۔ اسکی بدولت2 اہم مسئلے حل ہورہے ہیں۔ ایک تو اعتماد کا ماحول ساز گار ہوگا۔ دوم حوثیوں سے معاہدے کی پابندی کرائی جائیگی۔
توجہ طلب امر یہ ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے میں زمان و مکان کا تعین کردیا گیاہے۔ معاہدے سے قبل یمنی فوج کی فتوحات اور تمام محاذو ںپر پے درپے کامیابیوں ، خصوصاً مغربی ساحل، الحدیدة اور اس کی بندرگاہوں کی طرف سرکاری افواج کی یلغار نے حوثیوں کو یہ یقین دلادیا کہ اب انکی ہر طرف سے ناکہ بندی کرلی گئی ہے، فنڈنگ کے راستے مسدود کردیئے گئے،اسلحہ کی فراہمی کا سلسلہ روک دیا گیا ۔انہیں یہ احساس ہوگیا کہ اب وقت انکے حق میں نہیں۔اسی احساس کے تحت حوثیوں نے پسپائی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اقوام متحدہ کی سرپرستی میں طے پانے والے معاہدے کو بنیاد بناکر حوثی اب بھی رائے عامہ کو گمراہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
اسٹاکہوم معاہدے کے بعد بہت سارے سوالات اٹھے ہیں۔ ایک سوال یہ ہے کہ کیا حوثی معاہدے پر دستخط کرینگے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے معاہدے کی حمایت ،قرارداد نمبر 2451کے اجرا اور دنیا بھر کی جانب سے اسکی پذیرائی کے تناظر میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی اس مرتبہ بھی عہد و پیمان پر پورے اتریں گے یا ماضی کی طرح عہد و پیمان پس پشت ڈال کر ایک بار پھر انحراف کا مظاہرہ کرنے لگیں گے؟
عرب اتحاد کے ترجمان نے حوثیوں کی جانب سے اعدادوشمار کی زبان میں جنگ بندی کے معاہدے کی سیکڑوں خلاف ورزیوں کا دعویٰ کیا ہے۔ انکا کہناہے کہ حوثی باغی پورے ملک میں دھڑا دھڑ خلاف ورزیاں کررہے ہیں۔ عرب اتحاد میں شامل ممالک نے اسٹاکہوم معاہدے اور سلامتی کونسل کی قرارداد کا خیر مقدم کیا۔ یہ فطری امر ہے۔ سعودی عرب نے چھوٹے چھوٹے مسائل سے نمٹنے کیلئے اسٹراٹیجک اقدام بھی کیا۔ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے کہنے پر مملکت نے بحر احمر اور خلیج عدن کے ساحلوں پر آباد ممالک کے نئے اتحاد کے قیام کا اعلان کیا۔ اس کا مقصد خطے میں امن و استحکام و ترقی کو فروغ دینا ہے۔ بحر احمر کے ساحلی ممالک میں سعودی عرب، یمن، اردن ، مصر ، سوڈان، ایتھوپیا، جیبوتی اور صومالیہ شامل ہیں۔ سعودی عرب کے زیر قیادت بحر احمر کے علاقے کو شمال سے لیکر جنوب تک عظیم الشان منصوبوں سے آراستہ کرکے ترقی کے بام عروج تک پہنچایا جاسکے گا۔
ایران کے حمایت یافتہ حوثی طاقت اور ہتھیا ر کی زبان کے سوا کوئی اور زبان نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ مذاکرات کی میز پر اسی وقت آئے جب انہیں ہر طرف سے گھیر لیا گیا۔ بڑے منظر نامے میں2 بنیادی چیزیں ہمارے سامنے ہیں۔ ایک تو مشرق وسطیٰ کو نیا یورپ بنانے والا منصوبہ ہے جس کا اعلان سعودی ولی عہد کئے ہوئے ہیں۔ دوسری چیز ایران کا منصوبہ ہے ۔یہ خطے کے تمام ممالک میں انارکی، بدامنی ، تباہ کاری اور عدم استحکام کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ یمن میں الاخوان کا خطرہ بھی اپنی جگہ پر قائم ہے۔ یہ بھی حق اور سچ ہے کہ مشرقی یمن میں مشکوک سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں۔ دنیا الحدیدة اور اسکی بندرگاہوں کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف ہے جبکہ مشرقی یمن میں کچھ اور خطرات سر ابھارنے لگے ہیں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ یمن کا مستقبل ریاست اور عوام کے ہاتھ میں ہے۔ اس حوالے سے عبوری حل نامناسب ہونگے۔ دائمی اور جامع حل ہی یمنی بحران کا حقیقی حل ثابت ہونگے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭