”شاعرکو محبوب ہوئی میں، ورنہ غزل ہے بے معنی“
شہزاد اعظم
مجھے احساس تھا کہ غزل نے لندن سے روانگی کے وقت میری فرمائش پر ساڑھی پہنی تھی ، ابھی تک وہ اسی میں ملبوس تھی۔ میں نے غزل کو مخاطب کر کے کہا کہ میرے کہنے پر تم نے ساڑھی پہنی اس لئے میں نے تمہاری پسند کی بلیو جینز اور پرپل ٹی شرٹ لا کر رکھی ہے، یہ کہہ کر میں نے غزل کی الماری کا ایک دروازہ کھولا تو سامنے ہینگر پرجینز اور ٹی شرٹ موجود تھی۔ اس نے دیوانوں کی طرح اسے الماری سے نکالا اور پوچھنے لگی کہ اس کی قیمت کتنی ہے۔ میں نے کہا کہ ابھی ادا کرنی ہے، اس نے داہنے ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کو نیم دائروی شکل میں خم دے کر، ہتھیلی کوآسمان کی جانب سوالیہ انداز میںگھما کر،ابروﺅں کی تنی ہوئی کمانوں کو اور زیادہ تان کراستفسار کیا وہ کب اورکیسے؟ میں نے کہا ابھی اور ایسے کہ ”پرائس ٹیگ“ دیکھ لیجئے۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو پینٹ کی بائیں جیب کے ساتھ ٹیگ جھول رہا تھا جس پر ”پرائس“ کے آگے تحریر تھا:
”ہو چاندنی جب تک رات، دیتا ہے ہرکوئی ساتھ
تم مگر اندھیروں میں، نہ چھوڑنا میرا ہاتھ“
یہ ٹیگ دیکھتے ہی اس نے مصافحے کیلئے میرا ہاتھ تھاما اور سرِ تسلیم خم کرنے کے انداز میں کہنے لگی”پرائس پیڈ، میں نے قیمت ادا کر دی، اب آپ بھی رسید دیجئے ، وعدہ کیجئے کہ زندگی میں کبھی طلاق جیسا لفظ زبان پر نہیں لائیں گے۔“میں نے کہا کہ سورج سے برف برسنے لگے، یہ ممکن ہے، سنگلاخ چٹانوں میں گلاب کھل اٹھیں ، یہ ممکن ہے،اندھیرے سے روشنی کشید ہونے لگے، یہ ممکن ہے،برف کی ٹھنڈک سے صحرا بھسم ہوجائے، یہ ممکن ہے لیکن آپ کے شاعر کی زبان پر طلاق کا لفظ آجائے، یہ ممکن نہیں کیونکہ غزل سے جدا ہو کر تو شاعری زندہ رہ سکتی ہے اور نہ شاعر۔
میرا جواب سن کر غزل کے لبوں پر تومسکراہٹ کھیل رہی تھی مگر آنکھوں سے نکلنے والے آنسو ساڑھی کے پلو پر گر رہے تھے۔ میں نے کہاتم پینٹ اور ٹی شرٹ پہنو، میں کھانا لگاتا ہوں۔ میں نے بریانی گرم کی اور میز پر لاکر رکھی پھر آواز لگائی کہ:
” سندھی بریانی تیار ہے، سندھن حاضر ہو“
اسی اثناءمیں وہ جینز، ٹی شرٹ اور ہائی ہیل پہنے نمودار ہوئی اور خود ہی تبصرہ کیا کہ اب لگ رہاہے کہ یوکے سے آئی ہوں، ساڑھی میں تو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ یو کے نہیں یوپی سے آرہی ہوں۔وہ میرے برابر والی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی، ایک پلیٹ میرے سامنے رکھی اور ایک اپنے سامنے ، اس نے اپنی پلیٹ میں چاول اتارے اور میں نے اپنی پلیٹ میں۔ اب غزل نے پلیٹیں بدل دیں ۔ میں نے کہا یہ کیا؟ اس نے کہا میں نے بتایا نہیں تھا کہ :
”جد اجد اتھے کبھی، آج یہ حقیقت ہے “
اسے بھی پڑھئے:یہ میرے عشق کا ادنیٰ سا استعارہ ہے
اب اس نے اپنے ہاتھ سے مجھے نوالہ کھلاتے ہوئے شعر مکمل کیاکہ:
”نہ یہ ترا ہے، نہ میرا، یہ سب ہمارا ہے“
غزل کی عادت تھی، وہ محبت کے کینوس کا کوئی رنگ پھیکا پڑتے نہیں دیکھ سکتی تھی،وہ ایسے لفظ تراشتی رہتی تھی جو خالی جگہوں کو پُر کر کے کتابِ زندگی کی تحریر کو معنی عطا کر دیں۔وہ ڈش لے کر باورچی خانے میں گئی، اَوَن میں بریانی گرم کر کے لائی اور ڈش میز پر رکھتے ہوئے بولی”سندھن بریانی تیار ہے، سندھی حاضر ہو“ میں نے کہا یہ سندھن بریانی کے کیا معنی تو کہنے لگی ، یہ بریانی ہے اور میں سندھن،ہوگئی ناں سندھن بریانی؟میں صرف” غزل“ ہی نہیں، اک شاعر کی شریکِ حیات بھی ہوں چنانچہ گنگنائے جانے کا ہی نہیں بلکہ خود گنگنانے کا حق بھی رکھتی ہوں تو عرض کیا ہے:
میں سندھن اور یہ بریانی، ہوگئی” سندھن بریانی“
ہر جملے کا مطلب سادہ، لفظ نہیں کوئی لا یعنی
میں ہو ں غزل اور ذات پہ اپنی حق ہے مجھے کچھ کہنے کا
شاعرکو محبوب ہوئی میں، ورنہ غزل ہے بے معنی
انہی ”کہہ مکرنیوں“میں وقت گزرتا گیا،رات کے 11بج گئے، غزل نے اچانک یوں فلسفہ بگھارنا شروع کیا کہ میں سمجھتی ہوں کہ خواتین کو اپنے شوہروں کو”امپاسیبل مشن“ سونپ کر خواہ مخواہ مشکل میں نہیں ڈالنا چاہئے کہ جاﺅ اور آسمان سے تارے توڑ کر لاﺅ۔ میرے خیال میں شوہر کو ”ایزی ٹاسک“ دینا چاہئے، یہی سوچ کر میں آپ سے انتہائی سہل اور قابلِ عمل”تحکمانہ درخواست “ کر رہی ہوں کہ مجھے ہل پارک سے کون آئسکریم کھلا کر لائیے۔میں نے بصد حیرت استفسار کیا کہ یہ ”تحکمانہ درخواست “ کیا معنی؟جواب ملاکہ استفسار بے کارکیونکہ مطلب واضح ہے ، دیکھئے ناں!میں”کاشانہ غزل“ کی ملکہ مگرملکیت آپ کی،اسی طرح ملکہ میں مگر میرے سر کا تاج ہیں آپ۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ جیسے ”جبرِ اختیاری“ یا” قیدِ آزادی “، اسی دوران اس نے عبایہ زیبِ تن کیا اور گویا ہوئی کہ ذرا بے چارگی ملاحظہ ہو کہ ملکہ عالیہ ، دست بستہ اپنے حکم کی تعمیل کی منتظر ہیں۔ یہ کہہ کر اس نے دروازہ کھولا اور مجھے پہلے باہر نکلنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ”پہلے آپ، کیونکہ شاعرہو تو غزل ہوتی ہے ورنہ چاہت بھی بے محل ہوتی ہے ۔“
(باقی آئندہ)