تسنیم امجد۔ریا ض
فر ی سے ہماری ملاقات دو برس بعد ہو ئی تھی ۔چچی نے فون کیا تھا کہ بیٹا آ جاﺅ فری کی طبیعت ذرا خراب ہے ورنہ وہ خود تم سے ملنے آ جاتی۔ ہم نے کہا کہ فری سے بات کرا دیں لیکن انہو ں نے فون بند کر دیا ۔اسی شام ہم ان کے ہا ں چلے گئے ۔فری سے مل کر بہت خو شی ہوئی ۔شادی کے بعد ہماری یہ پہلی ملاقات تھی ۔ہم ہائی اسکول سے ایک دوسرے کے کزن کے ساتھ ساتھ دوست بھی تھے ۔اتفاق سے کالج اور پھر یو نیورسٹی میں بھی ساتھ رہا ۔میں ایم فل کے لئے یو نیورسٹی جانے لگی جبکہ فری کی شادی چھو ٹے چچا کے گھر ہو گئی ۔
فر ی چائے بہت اچھی بناتی تھی ۔اب بھی میں نے اس سے چا ئے کی فر ما ئش کر دی ۔چچی ہمارے پاس تھو ڑی دیر بیٹھ کر کام میں مشغول ہو گئیں۔چائے کے سپ لیتے ہوئے اس سے پہلا سوال یہی کیا کہ کیسی گزر رہی ہے ؟ اس پر وہ اداس ہو کر بو لیں کہ وہ تو ٹھیک ہیں لیکن میں بہت اداس ہوں۔اب بھی گھر وا لو ں سے نا را ضی کی سی کیفیت میں آ ئی ہو ئی ہوں ۔افسوس تو یہ ہے کہ شو ہر خاموش رہتے ہیں۔ ذرا بھی میرا سا تھ نہیں دیتے ۔
مزید بات ہو ئی تو پتہ چلا کہ جٹھا نی یعنی طاہرہ بھا بی کی لگائی ہوئی آگ اپنا اثر دکھا جا تی ہے ۔کہنے لگیں کہ میں نے تو جلد ہی چچا چچی کے دل جیت لئے تھے۔کام کی شروعات ہو ئی تو مجھے زردہ پکانے کے لئے کہا گیا ۔میں نے کسی منجھے ہو ئے با ور چی کی طر ح اس میںمیوے شیوے ڈال کر بہت اچھا زردہ بنا یا ۔چچا تو قربا ن ہو ئے جا تے تھے ۔اسی خو شی میں انہو ں نے ڈنر کہیں با ہر کھلانے کا اعلان کر دیا ۔اس پر سبھی اپنی پسند کی جگہیں بتانے لگے ۔طا ہرہ بھا بی نے اپنی طبیعت کی خرابی کا بہانہ بنا کرہمارے ساتھ جانے سے انکار کر دیا ۔واپسی پر میرے ہی ا صرار پر ان کے لئے کھانے کا پیک بنوایا گیا ۔ جیٹھ جی چچا کے ا صرار پر سا تھ تو چل دیئے لیکن بجھے بجھے رہے ۔گھر آ کر جب میں نے انہیں پیک دیا تو کہا ریفریجریٹر میں رکھ دو ابھی تو میرا جی نہیں چا ہ رہا ۔
اگلے دن انہو ں نے وہ پیک ا ٹھا کر کام والی کو دے دیا تو میں حیران رہ گئی ۔ان کے لہجے کی تلخی پہ مجھے حیرت تھی ۔یہ ابتدا تھی ۔ آہستہ آ ہستہ ان کی چغلیا ں بڑ ھتی گئیں ۔چچی بھی اب تو اکھڑ نے لگی تھیں ۔گھر میں ٹینشن کا ما حول مجھے اور میرے شو ہر کو پریشان کرتا تھا۔ ایک دن مجھے کہنے لگے کہ تمہارا بھی فر ض ہے کہ بھا بی اور امی کا ہا تھ بٹا ﺅ ۔میں نے انہیں بتا یا کہ چچی نے مجھے کچھ کام سو نپے ہو ئے ہیں اور میں انہیں با قا عدگی سے کر تی ہو ں ۔اس پر انہیں افسوس ہوا کہ اماں نے غلط بیانی سے کام کیو ں لیا ۔صبح آ فس جاتے ہو ئے مجھ سے بو لے کہ اپنے حصے کے کام آج جلد ختم کر لینا ۔آج شام کسی دوست کے ہاں مد عو ہیں ۔وہ تو یہ کہہ کر چلے گئے لیکن چچی اور بھا بھی کا مو ڈ سخت خراب ہو گیا ۔کہنے لگیں کہ یہ کیا جا ہلوں کی طرح ہر بات میا ں کو بتا تی ہو ۔اس دن مجھے کو ئی کام نہ کرنے دیا ۔میں کمرے میں ہی رہی ۔شو ہر گھر آئے تو نہ جانے کیا بات کی گئی کہ ان کا بھی مو ڈ خراب ہو گیا اور دوست کے گھر بھی نہیں گئے ۔صبح میں نے ان سے کہاکہ امی کی طرف چھو ڑتے جائیں تو بو لے چلو ،کچھ دن وہیں رہنا ۔گھر کی ٹینشن ذرا کم ہو گی تو تمہیں لینے آ جا ﺅ ں گا ۔یہ کہہ کر وہ رونے لگی۔کہنے لگی کہ آج ایک ہفتہ ہو نے کو ہے، ان کا فون بھی نہیں آ یا ۔
فری کی شادی کو10 برس ہو چکے ہیں ۔دو بچے ہیں ۔وہ آج بھی طا ہرہ بھا بی کے تلخ رویے کا شکار ہے ۔کبھی کبھی اس سے بات ہوتی ہے تو افسوس ہوتا ہے کہ ہماری خواتین اپنی توا نا ئیا ں مسا بقتی دوڑ میں ضا ئع کر رہی ہیں ۔ہم سب رشتو ں کی ڈور سے بند ھے ہیں۔ ہر رشتہ اپنی پہچان اور اہمیت رکھتا ہے ۔اگر یہ ذرا سا بھی سرک جائے تو اپنا ئیت یا مان کھو دیتا ہے ۔ہمارے مشترکہ خاندانی نظام میں دیورانی، جٹھانی لٹھم لٹھا رہتی ہیں ۔ایک دوسرے کے خلاف سا ز شوں کے منصوبے انہیں چین سے نہیں بیٹھنے دیتے ۔
رشتوں کی اس رقا بت میں جھو ٹ اور چغلی نہا یت مہارت سے اپنا وار کرتی ہے ۔توڑ پھوڑ میں شیطان مسکراتا ہے ۔سسرال کا
مقصد مطلب براری ہو تا ہے ۔دیورانی کے سامنے جٹھانی اور جٹھانی کے سامنے دیورانی کی تعریفیں کر کے سسرالی رشتے تما شہ دیکھتے ہیں ۔
مو قع شناسی سے دونوں یا تینوں رشتوں کے ما بین مقابلہ کر کے استفادہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔اکثر شوہر بھی بڑی بھا بی کے قصیدے جان بو جھ کر بیان کرتے ہیں ۔یہ چال بھی شایدزیادہ خدمت کروانے کے لئے چلی جاتی ہے ۔انہیں یہ علم نہیں کہ خدمت اور محبت جیسے جذبات و افعال تو ا خلاص کے متقا ضی ہیں جس کا تعلق دل سے ہے، مقابلے سے نہیں ۔اکثر تحریریں ساس بہو پر ہی لکھی جا تی ہیں ۔یہ عجیب تعلق ہے جو کبھی بو ڑھا نہیں ہوتا ۔بعض اوقات بہو ئیں اپنی رقا بت کا الزام ساس پر لگا دیتی ہیں جبکہ حقیقتاً وہ معصوم ہو تی ہے بلکہ ریفری کا کردار ادا کر رہی ہو تی ہے ۔چغلیوں کا پول کھلنے پر وہ دکھی ہو جاتی ہے ۔
تجز یہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ سب احساسِ کمتری کی وجہ سے ہے ۔ایک دوسرے کی خو بیوں کو سرا ہنے کی بجائے ،حسد کرنا ،ان حالات کی وجہ ہے ۔اس کے بر عکس اگر دوسروں کی خو بیوں سے سیکھا جائے تو گھر بھی ہنستا بستا رہے گااور خود بھی مثبت جانب ہی قدم اٹھیں گے۔زندگی ایک ایسی کتاب ہے جس کے ہر صفحے پر مختلف ا حساسات بکھر ے ہو ئے ہیں ۔محبتیں ،عنایتیں اگر بے لوث ہوں گی تو خود بخود ہی دوسروں کے دلوں میں جگہ بنتی چلی جا ئے گی ۔کیا خوب کہا گیا ہے:
اناﺅ ں ، نفر تو ں خود غر ضیوں کے ٹھہرے پانی میں
محبت گھو لنے والے بڑے درویش ہوتے ہیں