دعا ، معانی ، مفہوم اور آداب
***قاری محمد اقبال عبد العزیز۔ ریاض***
oدعا کی لغوی اصلیت:
دعا کا لفظ مادہ (دع و) سے ماخوذ ہے اوریہ آواز او رکلام کے ساتھ کسی چیز کی طرف مائل ہونے کا نام ہے اور اس اصل کی بنا پر دعا کا معنیٰ ہوگا : اللہ عز وجل کی طرف رغبت کرنا۔اس کی جمع ا¿دعیة آتی ہے۔ اور اس کا فعل ”دعا ، یدعوآتاہے اور اس سے مصدر 5 صورتوں میں آتاہے۔ اس کا مشہور ترین مصدر (دُعاء)ہے۔قرآن وحدیث اور لغت میں دعا کے مختلف معانی بیان ہوئے ہیں ۔ چند ایک حسب ذیل ہیں:
٭ عبادت:دعا کا ایک معنیٰ عبادت ہے ۔نبی کریم کا وہ فرمان عالی شان اس سلسلہ میں بنیادی رہنمائی فراہم کرتا ہے جو سنن ابی داو¿د اور سنن ابن ماجہ میں وارد ہے ۔سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،میں نے رسول اللہ کی زبان اقدس سے سنا۔ آپ فرما رہے تھے:
”دعا عین عبادت ہے ، اس کے بعد آپ نے کلام الٰہی سے یہ آیت کریمہ پڑھی: تیرے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا کو قبول کروں گا۔ یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ جلد ہی ذلیل ہو کر جہنم میں پہنچ جائیں گے۔ “(غافر60)۔
فرمان سید البشر کے بعد مزید کسی بشر کے کلام کی کوئی ضرورت تو نہیں رہتی مگر اسی فرمانِ عالی شان کی تائید اور توضیح میں علمائے لغت اور تفسیر کے چند اقوال بھی نقل کیے جاتے ہیں:
*معروف لغوی اور مفسرابو اسحاق زجاج اللہ تعالیٰ کے ارشاد :اُد±عُو±ا رَبَّکُم± تَضَرُّعًا وَّخُف±یَةً(الÉعراف55)کی شرح میںلفظ”خفیة“ کی تفسیرمیں کہتے ہیں :
”اپنے دلوں میںاپنے رب کی عبادت کا اعتقاد رکھو ،کیونکہ دعا کا معنیٰ عبادت ہے۔“
*مشہور لغوی امام محمد بن احمدازہری رقمطراز ہیں:
کبھی دعا کا معنی ٰعبادت ہوتا ہے جیسےاکہ اللہ عز وجل کا یہ فرمان ذی شان کہ:
اِنَّ الَّذِی±نَ تَد±عُو±نَ مِن± دُو±نِ اللّٰہِ عِبَادµ اَم±ثَالُکُم± (الÉعراف194)'
”جن لوگوںکی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہی تو ہیں۔“
اس کے بعد اللہ تعالی کایہ فرمان نقل کرتے ہیں : لَن´ نَد´عُوَ مِن´ دُونِہِ Êِلَہًا(الکہف14)۔
ازہری کہتے ہیں کہ سیدنا سعید بن مسیبؓ سے اس کی یہ تفسیر منقول ہے: ناممکن ہے کہ ہم اُس (اللہ) کے سوا کسی دوسرے کی عبادت کریں۔
oآواز دینا:
دعاکاایک معنیٰ ”ندا“ یعنی آواز دینا بھی ہے،اور اسی سے کہتے ہیں ”دَعاَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ دَع´وًی وَدُعَائً “ یعنی آدمی نے آدمی کو آواز دی۔اور ”دُعَاةµ“ ایسے لوگوں کو کہا جاتاہے جو ہدایت یا گمراہی کی طرف لوگوں کو بلائیں۔ اس کا واحد ”دَاعٍ‘آتاہے اور ”چرَجُلµ داعِیَةµ“ ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو دین کی طرف یا بدعت کی طرف لوگوں کو بلائے۔اس میں (ة)مبالغہ کے لیے لگائی گئی ہے۔
oنام رکھنا:
امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں : کبھی دُعا کا لفظ تسمیہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ۔مثلا ًعرب کہتے ہیں: دَعَو´تُ اب´نِ¸ زَی´دًا۔ یعنی میں نے اپنے بیٹے کانام زید رکھا۔قرآن مجید میں اس کی مثال درج ذیل آیت میں موجود ہے:
”لے پالکوں کو ان کے باپوں کی طرف نسبت کرکے پکارو ، اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہی ہے۔“(الÉحزاب5)۔
oطلب اور سوال:
*امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حقیقت او رشریعت میں دعا کے معانی کسی شے کی طلب کے ہیں۔
*حافظ ابوبکر بن العربی المالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : دعا کا معنیٰ لغت میں او ر حقیقت میں کسی چیز کی طلب ہے۔
ان کے علاوہ دیگر بہت سے علما نے بھی دعا کے یہی معانی بیان کیے ہیںاور یہی معانی کتاب وسنت ، کلام صحابہ اور سلف صالحین کے کلام میں زیادہ تر استعمال ہوئے ہیں۔قرآن مجید کی جن آیات میں یہ معانی استعمال ہوئے ہیں ، ان میں سے ایک درج ذیل ہے:
وَ لَمَّا وَقَعَ عَلَی±ھِمُ الرِّج±زُ قَالُو±ایٰمُو±سَی اد±عُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَھِدَ عِن±دَکَ (الÉعراف134)۔
”اور جب ان پر کوئی عذاب واقع ہوتا تو یوں کہتے: اے موسیٰ! ہمارے لیے اپنے رب سے اس بات کی دعا کردیجیے جس کا اس نے آپ سے عہد کررکھاہے۔“
اور حدیث میں اس لفظ کا استعمال بخاری کی اس روایت میں دیکھا جاسکتاہے کہ ہجرت کے سفر میں جب سراقہ بن مالک بن جعشم نے آپ کا پیچھا کیا اور اس کا گھوڑا سینے تک زمین میں دھنس گیاتو اس نے کہا:
”میرے لیے اللہ سے دعا کیجیے، میں آپ() کو کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کروں گا چنانچہ آپ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔“
مگر دعا کا یہ معنیٰ طلب ،مجرد طلب نہیں بلکہ ایک خاص قسم کی طلب ہے چنانچہ اگر یہ طلب ادنیٰ کی طرف سے اعلیٰ کے لیے ہو تو ”دعا“ کہلاتی ہے لیکن اگر یہ طلب اعلیٰ کی طرف سے ادنیٰ کے لیے ہو تو ”امر“ کہلاتی ہے اوراگر اپنے ہم مرتبہ کے لیے ہو تو” التماس“ کہلاتی ہے۔غرض ایک ہی لفظ کے معانی طالب اور مطلوب کے احوال کے اعتبار سے مختلف ہو سکتے ہیں۔
o قول وکلام:
دعا اور اس فعل کے دیگر مصادر گاہے بات اور کلام کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوتے ہےں۔درج ذیل آیت کریمہ اس پر شاہد ہے:
فَمَا کَانَ دَع±وٰھُم± اِذ± جَآئَ ھُم± بَا±سُنَآ اِلَّآ اَن± قَالُو±ٓا اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِی±ن(الÉعراف5)۔
”اس وقت ان کے منہ سے کوئی بات نہ نکلی بجز اس کے کہ واقعی ہم ظالم تھے۔“
نیز یہ ارشاد باری تعالیٰ:
فَمَا زَالَت± تِّل±کَ دَع±وٰھُم± حَتّٰی جَعَل±نٰھُم± حَصِی±دًا خٰمِدِی±نَ(الانبیائ15)۔
”پھر تو ان کا یہی قول رہا یہاں تک کہ ہم نے انہیں جڑ سے کٹی ہوئی کھیتی اور بجھی پڑی آگ (کی طرح )کردیا۔“
اور مشہور عرب شاعر عنترہ کا شعر ہے:
یَد´عُونَ عَن´تَرَ وَالرَّمَاحُ کَا¿َنَّہَا
ا¿َش´طَانُ بِئ´رٍ فِ¸ لَبَانِ الا¿َد´ہَمِ
(یدعون عنترَ)کہتے ہیں : اے عنتر! ا¿شطان(شطن کی جمع ہے) کنویں کے ڈول سے باندھی جانے والی طویل رسی کو کہتے ہیں۔لبان (سینہ )اورا¿دہم( گھوڑا)۔
لوگ کہتے ہیں : اے عنتر! ایسے وقت میں جب میرے گھوڑے کے سینے کی طرف تیر کنویں کی رسیوں کی طرح مسلسل آرہے ہوتے ہیں۔
بہت سے اہل علم نے اس کا یہ معنیٰ بیان کیا ہے ،کہ یہ لفظ کسی چیز کی ترغیب دلانے اورشوق پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔
اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اس کی مثال اس آیت کریمہ میں موجود ہے:
وَ اللّٰہُ یَد±عُوٓا±اِلٰی دَارِالسَّلٰمِ وَ یَھ±دِی± مَن± یَّشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّس±تَقِی±م ( یونس25)۔
” اللہ سلامتی کے گھر کاتمہیںشوق دلاتا ہے اور جسے چاہتاہے راہ راست پر چلنے کی توفیق دیتاہے۔“
نیز یہ آیت کریمہ بھی اسی معنی کو ظاہر کرتی ہے:
قَالَ رَبِّ السِّج±نُ اَحَبُّ ِالَیَّ مِمَّا یَد±عُو±نَنِیٓ اِلَی±ہِ(یوسف33)۔
”( یوسف علیہ السلام نے کہا)اے میرے رب! جس کام کی یہ عورتیں مجھے رغبت دلا رہی ہیں اس سے تو مجھے جیل خانہ بہت پسند ہے۔“
oمدد طلب کرنا:
دعا کے معانی میں مدد طلب کرنے اور مشکل میں کسی کو حل مشکلات کے لیے پکارنے کا معنیٰ بہت سے علمائے لغت اور علمائے تفسیر نے بیان کیا ہے۔اس کے استعمال کی مثالوںمیں اللہ رب العزت کا یہ فرمان عالی شان ہے:
وَ اد±عُو±ا شُھَدَآئَ کُم± مِّن± دُو±نِ اللّٰہِ اِن± کُن±تُم± صٰدِقِی±نَ(البقرة23)۔
”تمہیںاختیار ہے کہ اللہ کے سوا اپنے مدد گاروں کو بھی بلا لواگر تم سچے ہو (تو اس جیسی ایک سورة بنا کر لے آو¿)۔“
”وَ اد±عُو±ا شُھَدَآئَ کُم“یعنی اپنے معبودوں اور خداو¿ں سے مدد طلب کرو۔
یہ اس طرح کی بات ہے جیسے آپ کی دشمن سے تنہا مڈ بھیڑ ہو جائے اور آپ کہیں:مسلمانوں کو بلاو¿ ، یعنی انہیں مدد کے لیے بلاو¿،تو دعا یہاں استغاثہ کے معنیٰ میں ہے۔
دعا کے معانی کی یہ قسم دراصل سوال اور طلب ہی کے قبیل سے ہے۔ یہ الگ قسم نہیں۔
oکسی ناپسندیدہ جگہ پہنچادینا:
دعا کا ایک معنیٰ یہ بھی ہے کہ کسی شخص کو ایسی منزل پر اتار دیا جائے جو اسے پسند نہ ہو۔یا کسی ایسے حادثہ سے دوچار کردیا جائے جو اس کے لیے غیر متوقع اور ناگوار ہو۔ علمائے لغت کے ایک گروہ نے دعا کے یہ معانی بیان کیے ہیں۔
اس کی مثال یوں ہے کہ عرب کہتے ہیں: دَعَاہُ اللّٰہُ بِمَا یَک´رَہُ۔یعنی اللہ نے اس کو ایسی جگہ پہنچا دیا جسے وہ ناپسند کرتا تھا۔اس کی تائید میں اہل علم ایک شعر بھی پیش کرتے ہیں:
دَعَاکَ اللّٰہُ مِن´ قَی´سٍ بِا¿َف´عَی
Êِذَا نَامَ ال´عُیُونُ سَرَت´ عَلَی´کَا
” اللہ تعالیٰ تجھ پر بنو قیس میں سے ایک سانپ مسلط کرے کہ جب لوگ سورہے ہوں تو وہ تجھ پر چڑھ دوڑے۔“
oدعا کے اصطلاحی معانی:
*امام طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اصطلاح میں دعا کا مطلب ہے اللہ کے لیے حد درجہ کی ذلت ، محتاجی اورکمزوری کا اظہار کرنا۔ “( فتح الباری)۔
*علامہ مناوی فرماتے ہیں:
”دعا کا اصطلاحی معنیٰ ہے محتاجی کی زبان کی اضطرار کی حالت سے تشریح کرنا۔“(التوقیف علی مہمات التعریف )۔