Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وفاق اور سندھ میں محاذ آرائی بڑھ گئی

کراچی ( صلاح الدین حیدر) پاکستان کا جنوبی صوبہ سندھ اوروفاق کے درمیان ہمیشہ ہی محاذ آرائی رہی لیکن اس مرتبہ اس میں کچھ زیادہ ہی شدت آگئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے حکومتی اہلکار اور وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے تو بہت کچھ کہا لیکن اب تو صوبے کی تمام سیاسی تنظیمیں سندھ کے مفاد کے لئے متحد نظر آتی ہیں۔ ان میں ایم کیو ایم، پیرپگارا کی فنکشنل لیگ نے جو کہ ڈیموکرٹیک الائنس کا حصہ ہے اسمبلی میں یک زبان ہوکر سندھ کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی ہے۔ آج سے 12 سال پہلے جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں جب علی محمد مہر اور ارباب غلام رحیم کی حکومت تھی، اس نے بھی سندھ کے بارے میں آواز اٹھائی۔ اس وقت کے وزیر خزانہ سید سردار احمد نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ سندھ کو نہ تو اس کے حصے کا پانی ملتا ہے، نہ ہی قومی فنانس کمیشن اس کے حصے کی رقم ادا کرتا ہے۔ دریائے سندھ کا زیادہ تر پانی پنجاب میں ہی روک لیا جاتا ہے۔پنجاب کو وفاقی خزانے سے اس کے حصے سے زیادہ رقم فراہم کی جاتی ہے۔ سندھ کی تمام پارٹیاں یک زبان ہوکر حکومتی حمایت میں بولیں کہ سندھ کو قومی فنانس کمیشن سے اس کا حق دیا جائے۔ موجودہ رقم کمیشن کے طے شدہ اصولوں سے کہیں کم ہے جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔ عمران خان 25 جنوری کو قطر سے واپسی پر سندھ کا ایک روزہ دور کریں گے جس میں وہ پیرپگارا، ایم کیو ایم اور دوسرے اہم سیاسی رہنماﺅں سے ملاقاتیں کریں گے۔ اس سے قبل وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے 2 روزہ سندھ کا دورہ کیا ہے تاکہ وزیر اعظم کے دورے کے لئے فضا ہموار کی جائے۔ انہوں نے مختلف جماعتوں کے رہنماوں سے ملاقاتیں کی لیکن ایک طرف تو بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے حکومت سے نکلنے کی دھمکی دے دی ہے تو دوسری طرف ایم کیو ایم جس کی وفاقی حکومت میں شمولیت ہے۔ ایم کیو ایم کے گورنر خالد مقبول صدیقی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر ہیں لیکن پھر بھی ایم کیو ایم حکومتی اقدامات سے خوش نظر نہیں آتی۔ اس نے ایک چارٹر آف ڈیمانڈ تیار کرلیا ہے جس میں عمران خان کے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا مطالبہ سرفہرست ہے۔
 

شیئر: