میری چادر دیدو، اللہ کی قسم! اگر ان جنگلی درختوں کے برابر بھی میرے پاس اونٹ ہوتے تو میں سب تم کو دیدیتا ،تم مجھ کو بخیل نہ پاتے
* * * * مولانا امان اللہ اسماعیل ۔ جدہ* * * *
سخا وت ایک ایسا وصف ہے جو ایک داعی اور مبلغ میں لا زمی ہونا چاہئے ۔ بخل، سخا وت کی ضد ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ سخی آدمی لوگوں سے قریب، اللہ سے قریب، جنت سے قریب اور دوزخ سے دور ہے اور بخیل آدمی لوگو ں سے دور، اللہ سے دور اور دو زخ سے قریب ہے ۔مندرجہ ذیل سطو ر میں قارئین رسول اللہ کی مبا رک زند گی میں سخا وت کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھیں گے جو ہمیں حیران کر دیگی کہ آپ کی لو گو ں پر مہربانی اور سخاوت اور احسان کی اس صفت نے لو گو ں کے دلو ں کو بفضل ِ تعالیٰ کس قدر نرم کر دیاتھا کہ لوگ جوق در جوق اسلام کی طرف را غب ہو گئے۔ آج ہم دوسرے لو گو ں سے مانگتے ہیں اسلئے لوگ ہم سے بدکتے ہیں اور آپ دوسرے لوگو ں کو نوا زتے تھے تو لو گ آپ کی طرف لپکتے تھے اور آپ اُن کو اسلام کی آغوش میں لے لیتے تھے۔ ہم قرآن مجید کے مطالعے میں دیکھتے ہیں کہ نبی سے اپنی امت کو کہلوا یا گیا ہے : ’’میں تم سے اس تبلیغ کے بدلے میں کوئی بدلہ یا اجر نہیں چا ہتا، میرا اجر تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔‘‘ سخا وت ہمارے نبی کی فطرت تھی۔ حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ آپ تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے، خصوصاً رمضان کے مہینہ میں آپ اور زیادہ سخاوت فرماتے تھے (بخاری) ۔ آپ تمام عمر کسی کے سوال پر ’’نہیں‘‘ کا لفظ نہیں فرمایا (بخاری) ۔
حضورنے فرمایا: ’’میں تو صرف بانٹنے والا اور خازن ہوں، دینے والا تو اللہ ہے۔‘‘(بخاری) ۔ ایک مرتبہ ایک شخص خدمتِ اقدس میں آیا اور دیکھا کہ دور تک آپ کی بکریوں کا ریوڑپھیلاہوا ہے،اُس نے آپ سے درخواست کی تو آپ نے سب کی سب بکریاں اس کو دیدیں، اس نے اپنے قبیلہ میں جاکر کہا : ’’لوگو! اسلام قبول کرلو،محمد()ایسے فیاض ہیں جنہیں مفلس ہوجانے کی پروا نہیں۔‘‘ ( مسلم ) ۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ سے کچھ مانگا، آپ نے فرمایا: ’’ اس وقت میرے پاس کچھ نہیں، تم میرے ساتھ آئو۔‘‘ حضرت عمرؓ بھی ساتھ تھے، عرض کی کہ آپ ()کے پاس کچھ موجود نہیں تو آپ() پر کیا ذمہ داری ہے۔ ایک اور صاحب حاضر تھے، انہوں نے کہا یا رسول اللہ()! آپ() دیئے جایئے۔ عرش والا آپ() کو محتاج نہ کریگا،اُن صاحب کی اِس بات پر آپ خوشی اور بشاشت سے مسکرادیئے ( ادب المفرد)۔ آپ کی عام فیاضی کا یہ حال تھا کہ جو شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا اگر آپ کے پاس کچھ سرمایہ موجود ہوتا تو اس کو کچھ نہ کچھ ضرور عطا فرماتے ورنہ وعدہ فرماتے۔ اس معمول کی بنا پر لوگ اس قدر دلیر ہو گئے تھے کہ ایک مرتبہ عین اقامتِ نماز کے وقت ایک بدو آیا اور آپ کا دامن پکڑ کر کہا: میری ایک معمولی سی حاجت باقی رہ گئی ہے، خوف ہے کہ میں اس کو بھول نہ جائوں اس کو پورا کر دیجئے چنانچہ آپ اس کے ساتھ تشریف لے گئے اور اس کی حاجت برآری کر کے آئے پھر نماز پڑھی (بخاری) ۔
بعض اوقات ایسا ہو تا کہ آپ ایک شخص سے ایک چیز خرید تے ، قیمت چکادینے کے بعد پھر وہ چیز اسی کو بطور تحفہ کے عنایت فرمادیتے۔ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ سے ایک اونٹ خریدا اور پھر اسی وقت وہ اونٹ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو دیدیا۔ حضرت جابرؓ کے ساتھ بھی اس قسم کا ایک واقعہ مذکور ہے۔ رسول اللہ کھانے پینے کی چیزوں میں معمولی سے معمولی چیز بھی تنہانہ کھاتے بلکہ تمام صحابہ کو شریک فرمالیتے تھے۔ کسی غزوہ میں 130 صحابہ آپ کے ہمراہ تھے۔ آپ نے ایک بکری خرید کر ذبح کروائی اور کلیجی بھوننے کا حکم دیا۔ وہ تیار ہوئی تو تمام صحابہ کو تقسیم فرمایا اور جو لوگ وہاں اُسوقت موجود نہ تھے ان کا حصہ الگ محفوظ رکھا ( مسلم) ۔ جو چیز آنحضرتکے پاس آتی، جب تک صَرف نہ ہوجاتی، آپ کو چین نہ آتا، بیقراری سی رہتی۔ حضرت اُم المومنین اُم سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ() گھر میں تشریف لائے تو چہرہ متغیر تھا، میں نے عرض کیا: یارسول اللہ()! خیر تو ہے؟ فرمایا’’ کل جو7 دینار آئے تھے، شام ہو گئی اور وہ بستر پر پڑے رہ گئے۔‘‘( مسند) ۔ حضرت ابوذرؓ سے مروی ہے کہ ایک شب کو وہ رسول اللہ ()کے ساتھ ایک راستہ سے گزر رہے تھے۔
آپ()نے فرمایا: ’’ ابوذر! اگر احد کا پہاڑ میرے لئے سونا ہوجائے تو میں کبھی یہ پسند نہ کروں گا کہ 3 راتیں گزرجائیں اور میرے پاس ایک دینار بھی رہ جائے لیکن ہاں وہ دینار جس کو میں ادائے قرض کیلئے چھوڑدوں۔‘‘(بخاری) ۔ آپ کا معمول تھا کہ گھر میں نقد ی موجود ہو تی تو جب تک کُل خیرات نہ کردیجاتی، گھر میں آرام نہ فرماتے۔ رئیسِ فدک نے ایک مرتبہ 4 اونٹ پر غلہ بارکر کے خدمتِ نبوی میں بھیجا۔ حضرت بلالؓ نے بازار میں وہ غلہ فروخت کرکے ایک یہودی کا قرض تھا وہ ادا کیا، پھر آنحضرت کی خدمت میں آکر اطلاع کی۔ آپ نے پوچھا ’’کچھ بچ تو نہیں رہا؟ ‘‘عرض کیا : ہاں کچھ بچ بھی رہا۔ فرمایاکہ’’ جب تک کچھ باقی رہے گا میں گھر نہیں جاسکتا۔ ‘‘حضرت بلالؓ نے عرض کیا کہ میں کیا کروں، کوئی سائل نہیں۔ آنحضرت نے مسجد میں رات بسر کی۔ دوسرے دن حضرت بلالؓ نے آکر کہا: یا رسول اللہ() ! اللہ نے آپ() کو فا رغ کردیا یعنی جو کچھ باقی تھا وہ بھی تقسیم کردیاگیا۔ آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اٹھ کر گھر تشریف لے گئے (ابوداؤد)۔
غزوئو حنین میں جو کچھ ملا، آنحضرت اس کو خیرات فرما کر واپس آرہے تھے۔ راہ میں بدوؤں کو خبر ملی کہ ادھر سے آنحضرت کا گزر ہونے والا ہے۔ آس پاس سے دوڑ دوڑ کر آئے اورآپسے لپٹ گئے کہ ہمیں بھی کچھ عنایت ہو۔ آپ ایک درخت کی آڑمیں کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے ردائے مبارک تھام لی، بالآخر اس کشاکشی میں جسم اطہر سے چادر اتر کر بدوئوںکے ہاتھ میں رہ گئی۔ فیاضِ عالم نے فرمایا : ’’ میری چادر دیدو، اللہ کی قسم! اگر ان جنگلی درختوں کے برابر بھی میرے پاس اونٹ ہوتے تو میں سب تم کو دیدیتا اور پھرتم مجھ کونہ بخیل پاتے، نہ جھوٹ بولنے والااور نہ ہی بزدل۔‘‘(بخاری) ۔ آپ کی طرف سے لوگوں کو عام حکم تھا کہ’’ جو مسلمان مرجائے اور اپنے ذمہ قرض چھوڑ جائے تو مجھے اطلاع دو، میں اس کو ادا کردوں گا اور جو ترکہ چھوڑ جائے وہ وارثوں کا حق ہے،مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں۔‘‘ (ابوداؤد) ۔ ایک مرتبہ آپ صحابہ کے مجمع میں تشریف فرماتھے۔ ایک بدو آیا اور آپ کی چادر کاایک گوشہ زور سے کھینچ کر بولا: محمد() !مجھے اس مال میں سے دیں۔ آپ نے اُس کے اونٹ کو جَو اور کھجوروں سے لدوادیا ( ابوداؤد) ۔
ایک مرتبہ بحرین سے خراج آیا اور اس قدر کثیر رقم تھی کہ اس سے پہلے کبھی دارالاسلام میں اتنی کثیر رقم نہیں آئی تھی۔ آپ نے حکم دیا کہ’’ اس کو صحنِ مسجد میں ڈلوادو۔‘‘ اس کے بعد جب آپ مسجد میں تشریف لائے تو خراج پر مڑکر بھی نظر نہ ڈالی۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ نے اس کی تقسیم شروع فرمائی،جو سامنے آتا اس کو دیتے چلے جاتے۔ حضرت عباسؓ کو جو غزوئہ بدر کے بعد دولتمند نہیں رہے تھے، اتنا دیا کہ اٹھکر چل نہیں سکتے تھے، اسی طرح قادر لوگوں کو بھی عنایت فرمایا۔ جب کچھ نہ رہا توآپ کپڑے جھاڑ کر کھڑے ہوگئے(بخاری) ۔ اسلام میں قاعدہ یہ ہے کہ اگر کوئی آزاد شدہ غلام مرجائے تو اس کا ترکہ اس کے آقا کو ملتا ہے۔ ایک مرتبہ آپ کا اسی قسم کا ایک غلام مرگیا، لوگ اس کا متروکہ سامان اٹھاکر آپ کے پاس لائے، آپ نے دریافت فرمایا کہ’’ کوئی اس کا یہاں ہم وطن ہے؟‘‘ لوگوں نے کہاہاں ہے، آپ نے فرمایا کہ’’ یہ تمام چیزیں اسی کے حوالہ کردو۔‘‘( ابن حنبل) ۔ ایک مرتبہ چند انصاری صحابہ کرامؓ نے آپ سے کچھ مانگا۔ آپ نے دیدیا، آپ نے پھر دیدیا ،جب تک آپ کے پاس مال رہا آپ دیتے رہے یہاں تک کہ آپ کے پاس کچھ نہیں رہا ۔ اس کے باوجود حاضر لوگوں نے مزید کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا’’ میرے پاس جو کچھ ہوگا ،میں اس کو تم سے بچا کر نہیں رکھوں گا۔‘‘(بخاری) ۔