فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
اللہ بخش فریدی۔فیصل آباد
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر
آج ہم جس قدر افتراق وانتشار کا شکار ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ بقائے معاشرہ کیلئے ہمیں ایک مرکز پر اکٹھے ہوناہوگا ،اپنی صفوں میں اتحاد و یکجہتی پیدا کرنا ہوگی ورنہ یہ عظیم غلطی ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی ۔ ایک مقولہ مشہور ہے کہ ’’خدا انسان کو معاف کر دیتا ہے ، انسان انسان کو معاف کر دیتا ہے مگر انسان کی غلطی انسان کو کبھی معاف نہیں کرتی ‘‘۔اتحاد زندگی ہے اور اختلاف موت۔ جب تک ہم لا مرکزیت کا شکار رہیں گے زمانہ کبھی ہمارے حال پرترس نہیں کھائے گااور جب چاہے گا ہمیں اچک لے جائیگا اور صفحہ ہستی سے مٹا دے گا۔
قرآن مجید میں کئی جگہوں پر باہمی تعاون و اتحاد ، اخوت ، ہمدردی و مساوات کی پر زور تاکید کی گئی ہے اور باہمی تنازعہ اور تفرقہ بازی سے بچنے نہایت سختی سے منع کیا گیا ہے ۔
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَلَا تَفَرَّقُوْا(آل عمران 103)۔
’’اور سب کے سب مل کر اللہ کے دین کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔‘‘
وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْاوَ تَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَ اصْبِرُوْا، اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(الانفال 46) ۔
’’اور اللہ عزوجل اور اس کے رسول () کی اطاعت کرواورآپس میں مت جھگڑو(اختلاف مت کرو) ورنہ( تم ہمت ہار جائو گے اور) بز دلی کرو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ (باہمی اتحاد و یکجہتی کی طاقت ) جائیگی اور صبر کرو ، بیشک اللہ صبر کرنے والو ں کے ساتھ ہے۔‘‘
10ہجری کاواقعہ ہے کہ حضور نبی کریم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نجران کے ایک معزز قبیلے بنو حارث کو اسلام کی دعوت دینے کیلئے بھیجا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد نبوی کی تعمیل کرتے ہوئے اُن کے ہاں پہنچے اور انہیں اسلام کی دعوت دی جو ان لوگوںنے فوراً قبول کرلی ۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُن کے اسلام لانے کی اطلاع حضور نبی کریم کو لکھ بھیجی ۔ آپ اس اطلاع پر بہت خوش ہوئے اور ہدایت فرمائی کہ اُن کا ایک وفد ساتھ لے کر مدینہ آئیں، چنانچہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن کا ایک وفد لے کر مدینہ پہنچے ۔ وفد کے شرکاء آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے سامنے اپنے اسلام لانے کا اقرار کیا اور آپ کی نبوت کی صداقت کی گواہی دی ۔ یہ لوگ بہت بہادر تھے اور ہمیشہ اپنے دشمن پر غالب آنے کی شہرت رکھتے تھے۔ حضور اقدس نے اِن سے پوچھاکہ تم کس وجہ سے اپنے دشمن پر غالب آتے ہو؟ انہوںنے جواب دیا کہ’’ ہم ہمیشہ اس لیے دشمن پر غالب آتے ہیں کہ ہم آپس میں متفق رہتے ہیں ، اختلاف نہیں کرتے، باہم لڑتے جھگڑتے نہیں، ایک دوسرے سے حسد نہیں کرتے اور سختی اور مصیبت کے وقت صبرکرتے ہیں۔‘‘
آپ نے فرمایا۔
’’سچ کہتے ہو۔‘‘
جی ہاں!یہ حقیقت ہے کہ ہمیشہ آپس میں متحد رہنے والے ، باہمی اختلاف اور جھگڑوں سے بچنے والے ، ایک دوسرے سے بغض و حسد نہ رکھنے والے اور مصائب و مشکلات کے وقت صبرو استقامت کا مظاہر ہ کرنے والے ہی کامیاب ہوا کرتے ہیں۔ایسے ہی لوگ ہمیشہ اپنے دشمن پر غالب آتے ہیں ، فتح ایسے ہی لوگوں کا مقدر بنتی ہے، عزت و سربلندی کا تاج ایسے ہی لوگوںکے سر پر رہتاہے ، کامیابیاں و کامرانیاںایسے ہی لوگوںکی دہلیز پر قدم رکھتی ہیں ، ہمیشہ سر اٹھا کر جینے والوں کی علامات اور نشانیاںیہی ہیں۔ یہ قوت بخش خوبیاں جہاں پائی جاتی ہیں کامیابیاں چل کر وہاں پہنچتی ہیں اوران کے قدم چومتی ہیں خواہ مشرق ہو یا مغرب ۔ جو قوم ان صفات کواپنے اندر پیدا کر لیتی ہے یہ اس کیلئے عزت ووقار ، عظمت و سربلندی اور ترقی و عروج کا زینہ بن جاتی ہے خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ اسکے بر عکس آپس کی نااتفاقی و انتشار ، باہمی اختلاف و نزاع ، ایک دوسرے کے ساتھ بغض وحسد اور مصیبت و آزمائش کے وقت بے صبری کا مظاہرہ وہ خامیاں ہیں جو تباہی و بربادی، ذلت ورسوائی اور شکست و ناکامی کا سبب بنتی ہیں خواہ وہ کسی قوم میں ہوں ۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
قرآن وحدیث میں یہ بات بہت وضاحت کے ساتھ بتائی گئی ہے اورتاریخ نے بھی بار ہا اس سبق کو نہایت جلی حروف میں لکھا ہے ۔ ابتدا میں جب مٹھی بھر مسلمانوں میں یہ صفات پائی جاتی تھیں تو انہوں نے نصف صدی کے اندر اندر آدھی دنیا کو اپنازیر نگیں بنا لیا۔ بیک وقت ایک طرف سندھ اور ہند کے دروازے پر دستک دینے لگے اوردوسری طرف سر زمین فارس وروم کو ڈھیر کرکے رکھ دیا اور تیسرے افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں سے گزر کر اندلس کی سرزمین ا سپین اور کو ہ پائر نیز کی چوٹیاں عبور کرکے فرانس تک جا پہنچے۔ یوںاسلامی معاشرہ میں ملکوں ملکوں کے باشندے، مختلف رنگوں اور نسلوں کے لوگ اور مختلف نقطہ ہائے نگاہ کے حامل لوگ شامل ہوگئے مگر اس رنگا رنگ کے باوجود ملت اسلامیہ جسد واحد کی طرح متحد رہی ۔
’’اسلام قبول کرو یا جزیہ دو ،ورنہ تمہیں ایسی قوم سے واسطہ پڑے گا جو موت کی اتنی ہی خواہش مند ہے جتنی کہ تم زندگی کی تمنا رکھتے ہو۔‘‘
یہ اُس خط کے الفاظ ہیں جو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہرمز کو لکھا تھا۔ ہرمز کسریٰ کی طرف سے عراق کا گورنر تھا ۔ مٹھی بھر مسلمانوں نے دنیا کی ظالم و جابر سپر طاقت کو للکاراچنانچہ ہرمز مسلمانوں کو اس گستاخی کی سزا دینے کیلئے نکلاکہ ان ننگے ، بھوکے ، پیاسے مسلمانوں کی یہ جرأت کہ دنیا کی سپر طاقت کو اس طرح للکاریں اور اس کے سامنے سر اٹھائیں۔ہم انہیں اس گستاخی کی ایسی سزا دیںگے اور ایسا سبق سکھائیں گے کہ دنیا یاد رکھے گی۔فوجیں آمنے سامنے ہوئیں، مقابلہ ہوا اور پھر دنیا نے دیکھا اور یاد رکھا وہ حشر مگر کس کا ؟ مٹھی بھر مسلمانوں کانہیں بلکہ اس عظیم سپر طاقت کا ۔عراق ہی کی سرزمین پر لڑ ی جانے والی جنگِ سلاسل ، جنگِ نذار، جنگِ بابل کے واقعات اور اس کے علاوہ دوسری جنگیں او ر غز وات مٹھی بھر مسلمانوں کی شجاعت و بہادری کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور اپنی زبانِ حال سے مسلمانوں کی جرأت ، بہادری و عظمت کی داستان سنا رہی ہیں ۔
دور صدیقی میں عراق و شام کے کئی علاقے فتح ہوگئے، مسلمانوں کا رعب، دبدبہ چار سو پھیل گیا، مسلسل فتوحات مسلمانوں کے قدم چومنے لگیں۔
دورفاروقی آیا تو مسلمان اِس عروج اور بلندی پر پہنچ گئے کہ اُس دور کی سپر طاقتیں فارس و روم مسلمانوں کے سامنے تھرتھر کاپنے لگیں اورپھر دیکھتے ہی دیکھتے ان کا غرور و تکبر خاک میں مل گیا ،ظلم و ستم کادور مٹ گیا، جہالت وگمراہی کے بادل چھٹ گئے، جور جفا کی آندھیاں تھم گئیں اور دین حق کے پھیلنے سے دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بنی۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں شام ، مصر ، ایران ، عراق، جزیرہ، خوزستان، آرمینیا، آذر بائیجان، فارس، روم ، کرمان، خراسان، مکران اور کئی دوسرے علاقے فتح ہوکر سلطنت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ آخر یہ سب کس کا نتیجہ تھا؟باہمی اتحاد و یکجہتی کا۔یہی وجہ تھی کہ اس دور میں ہوائیں پورے عالم میں مسلمانوں کی فتوحات کی نوید سنایا کرتی تھیں ۔سورج کی کرنیں مسلمانوں کے عدل و انصاف ، مساوات، رواداری اور عظمت و بزرگی کی گواہ بن کر چار سو پھیل جایا کرتی تھیں۔دجلہ و فرات کاپانی مسلمانوں کی جرأت ، ہمت ، شجاعت اوردلیری و بہادری کے گن گایا کرتا تھا۔
مگر آج سورج کی کرنیںکیا دیکھ رہی ہیں ؟ ہوائیں کیاپیغام سنا رہی ہیں ؟وہی جو کبھی مسلمانوںکے جرنیل حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس دور کی عظیم سپر طاقت کو دیا تھامگر آج یہ پیغام کون کس کو دے رہا ہے؟ افسوس ! آج سب کچھ الٹ ہوگیا ۔جاگنے بلکہ جگانے والے سو گئے ،بہادر بزدل اور بزدل بہادر بن گئے۔دنیا کے مظلوموں کو ظالموں کے پنجوں سے آزاد کرانے والے آج خود ظالموں کے چنگل میں پھنس گئے۔دنیا پر حکومت کرنے والے آج محکوم بن گئے۔دنیاکو علم و حکمت کا درس دینے والے آج غیروں کی شاگردی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے۔ جن کے ناموں سے کفار اپنے بچوں کو ڈرایا کرتے تھے آج ان کے بچوں کے دلوں میں کفار کی عظمت اور دبدبے کارعب بیٹھ گیا۔جوکبھی ایک بہن کی پکار پر تڑپ اٹھتے تھے آج انہوں نے کشمیر ، فلسطین،شام ، صومالیہ ، افغانستان و عراق کی لاکھوں کروڑوں مائوں بہنوں اور بیٹیوں کوکس کے رحم وکرم پر چھوڑ رکھا ہے؟کون لاکھوں کروڑوں مظلوم مسلمان بچوں کے مستقبل اور ا ن کے حقوق کو پامال کر رہاہے ؟کس جرم کی سزا میں ان پر بم ، میزائل وغیرہ
برسائے جا رہے ہیں ؟آخر ان کا قصور کیا ہے؟ان سے کیا خطا سرزد ہوئی ہے؟ کیا ان کا قصور یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے بچے ہیں ؟یا یہ کہ وہ انگریزی کی بجائے عربی اور دوسری زبانیں بولتے ہیں؟کوئی بتائے ان کا جرم، کوئی بتائے ان کا قصور؟ انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں کہاں ہیں ؟ کیا وہ اس انتظار میں ہیں کہ جب وہ مر جائیں توا ن کے کفن و دفن کے نام پر ساری دنیا سے چندہ اکٹھا کیاجائے؟عالمی امن وسلامتی کے دعویدار اب کہاںہیں؟کوئی ہے جو ان مظلوموں کے حق میں آواز اٹھائے؟ کوئی ہے جو ظالم کا ہاتھ روکے؟کوئی ہے جو ان معصوم مسلمان بچوں کو دلاسا دے، حق کی آواز بلند کرے؟کوئی ہے مظلوم ماؤں ، بہنوں، بیٹیوں کی آواز پر لبیک کہنے والا؟کیاانسانیت دم توڑ چکی ہے؟کیا اخوت ، ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات مٹ چکے ہیں؟ مسلمانوں کی غیرت کہاں ہے؟ کیادنیا کے چوتھائی ( سوا ارب سے زائد) مسلمانوں کی غیرت دم توڑ چکی ہے؟ کیا اب کوئی مظلوموں کی داد رسی کرنے کیلئے ایوبی، ابن قاسم ، غزنوی ، طارق و خالد بن کر نہیں آئے گا؟
مغرب سے آنے والی ہوائیں ہمارا مذاق اڑاتی ہیں اور طرح طرح کے طعنے دیتی ہیں۔ سورج کی کرنیں ہم پر ہنستی ہیں ،مغرب سے اٹھنے والے بادل ہمارا تمسخر کرتے ہیں۔ عراق وار کے دوران ایک ڈیوڈ (Davaid) نامی یہودی کا بیا ن شائع ہوا جس نے میرے دل و دماغ کو جھنجوڑ کر رکھ دیا کہ ’’ تمہارے 57اسلامی ممالک کے حکمران ہماری ڈکٹیشن پر اپنے ملکی و غیر ملکی مفادات کے فیصلے صادر کرتے ہیں۔ اگر وہ ہماری حکم عدولی کریں تو سانسوں کے بندھن سے آزاد ہو جاتے ہیں( یعنی موت کے گھاٹ اتار دئیے جاتے ہیں) ۔ طاقتور میڈیا ہمارے کنٹرول میں ہے،دنیا میں کہیں کوئی مسلم آواز فیصل ، قذافی ،بھٹو ،سوئیکارنو وغیرہ کی صورت میں یہودیت کے خلاف اٹھتی ہے تو ہمارے ذرائع ابلاغ اسے عوامی نظروں میں اتنا خونخوار کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ کیلئے عوامی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔دنیا کی سپر پاور امریکی صدر کے داخلی اور خارجی فیصلے سینیٹ کے ا ن ارکان کے مرہون ِ منت ہیں جن کی اکثریت میری قوم (یہودیت ) سے تعلق رکھتی ہے ۔تمہارے دانشور سچ کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ ہماری لونڈی ہے۔اقوام متحدہ کے 10اہم ترین اداروں کے اہم ترین عہدوں پر 73یہودی فائز ہیں ۔اقوام متحدہ کے نیویارک آفس میں 22شعبوں کے سربراہ یہودی ہیں ۔یہ تمام شعبے حساس قسم کے ہیں جوبین الاقوامی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں ۔عالمی مالیاتی اداروں آئی ایم ایف کے 9ارکان اور ورلڈ بینک کے 6 اہم شعبوںکے سربراہ یہودی ہیں ۔جومسلم حکمران ہماری مرتب کردہ پالیسیاں اپنی عوام پر مسلط نہیں کرتے ہم اس کی معیشت کا تختہ دھڑن کر دیتے ہیں‘‘ ۔
سنو! ہم صلیبی جنگ کا آغازکر چکے ہیں ۔ 1909ء میں یروشلم میں ہمارے صلیبی سپاہیوں نے مسجد عمر میں گھس کر تمہاری قوم ( مسلمانوں ) کا قتل عام کیا ۔اس وقت دل ہلا دینے والے شور وغل میںکسی کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی ۔ مسجد عمر کے صحن میں جو وسیع و عریض تھا تمہارے 70ہزار سے زائد مسلمانوں کا خون بہا ۔ موجودہ قتل عام بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے اور ایریل شیرون کی موجودہ الیکشن میں کامیابی اسے جلا بخشے گی ۔اکتوبر 1918ء میں ہمارے جنرل گورو نے تمہاری قو م کے عظیم محسن صلاح الدین ایوبی کی قبر پر پاؤں کی ٹھوکر مارتے ہوئے کہا تھا کہ ۔’’لو صلاح الدین ! ہم یہاں تک پہنچ آئے ،ہم نے شام بھی فتح کرلیا ،تم کب تک سوئے رہو گے ؟‘‘
تمہارے کاسی کیس کی سماعت کے دوران ہمارے وکیل نے غلط ریمارکس نہیں دئیے تھے کہ پاکستانی پیسوںکی خاطر اپنی مائیں بیچ ڈالتے ہیں ۔ایمل کاسی کے سودے میں تمہارے ایک نامور سابق وزیر نے خوب ڈالر کمائے۔
11ستمبر کا حادثہ بھی ہمارے ایک ’’ ماسٹر مائنڈ ‘‘ کی اختراع تھی ۔ افغانستان کی دھرتی پر ایک اور عمر پیدا ہو چکا تھا جس نے 14سو سال پہلے کی خلافت راشدہ کے قیام کو عملی شکل دی تھی۔ فلسطین کی کسی مظلوم بیٹی کی آواز پر آج تمہارا کوئی صلاح الدین نہیں آئے گا ،حماس کی آواز پر کوئی طارق بن زیاد ’’ ہر ملک ملک ماست‘‘ کا نعرہ رستا خیز نہیں کرے گا ۔تم تعداد میں ایک عرب 25کروڑ ہونے کے باوجود سمندر کی جھاگ کی طرح بے وزن ہو ۔
آج اسلام دشمن یہو د ونصاریٰ و ہنود ، امریکہ اور اس کے حلیف مسلمانوں کے ایک کے بعد دوسرے ملک کو تاراج کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔مسلم حکمرانوں کو اب یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ طاقتور دشمن کامقابلہ اکیلے نہیں کیا جاسکتا ،اس کیلئے ہمیں باہمی تعاون ، اتحاد و یکجہتی کی ایک مضبوط دیوار تعمیر کرناہوگی، اپنے آپ کو ایک جسد واحد کی طرح بنانا ہوگا۔ جیسا کہ رسول معظم و مکرم حضورنبی آخر الزما ں نے فرمایا:’’مسلمانوں کی مثال آپس کے لطف و محبت اورہمدردی میں ایسی ہے جیسے کہ ایک جسم۔جب اس کے کسی عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم بے چین وبے قرار ہوجاتا ہے اور بخار کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔‘‘
حضورنبی کریم نے مسلمانوںکی مثال ایک انسانی جسم سے دیکر مسلمانوں کے باہمی تعاون، اتحادو یکجہتی کو ایک عمدہ مثال کے ذریعے ذہن نشین کرایا ہے ۔ انسان کے جسم میں بظاہر مختلف اعضاء اور جوراح ہوتے ہیں ۔ہر عضو کی شکل الگ ، مقام الگ ، کام الگ ہے مگر اس کے باوجود ایک دوسرے سے اس طرح وابستہ ہیں کہ سب کو ملا کر ایک انسان بنتا ہے ۔اگر کسی عضوکو الگ کر دیا جائے تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا ۔اسی طرح تمام مسلمان گروہوں، جماعتوں، ملکوںاور ریاستوں کو ملاکر ایک مسلمان قوم بنتی ہے۔ اگر کسی ایک گروہ کو الگ کر دیا جائے تو وہ قوم باقی نہیں رہتی ۔ اگرچہ جسم کے تمام عضو مختلف ہیں ، ان کے کام مختلف ہیں مگراس کے باوجود ان کا حکمران ایک ہے جس کا نام دل ہے ۔ اسی کے حکم سے آنکھ دیکھتی ہے، کان سنتے ہیں ، ناک سونگھتی ہے، زبان بولتی ہے، ہاتھ اٹھتے ہیں ،پائوںچلتے ہیں ۔ان میں اکثریت کے باوجود ایسا اتحاد ہے کہ جب کسی ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو تمام عضو ، سارا جسم بے قرار ہوجاتا ہے۔ہر عضو یہ سمجھتا ہے کہ یہ تکلیف اسے نہیں بلکہ مجھے ہے۔
پیارے نبی کا بھی یہی مقصد تھا کہ جس طرح جسم کے تمام اعضا ء ایک دوسرے سے متصل ہیں ،ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں ، ایک کی راحت دوسرے کی راحت اور ایک کی تکلیف دوسرے کی تکلیف ہے اور سب کا مرکز ایک ہے، اسی طرح تمام مسلمان بھی ایک ہو جائیں ، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں ، ایک کی راحت دوسرے کی راحت اور ایک کی تکلیف دوسرے کی تکلیف ہواور سب کا مرکز بھی ایک ہو جسے امیرالمومنین یا خلیفۃ المسلمین کا نام دیا جاتا ہو۔
(جاری ہے)