اسلامی قوانین آزمودہ ہیں ، لمبے عرصے سے نافذ رہے ہیں اور دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ سماج میں ان کے اثرات کتنے بہتر رہے ہیں
حافظ محمد ہاشم صدیقی مصباحی۔جمشید پور
اللہ تعا لیٰ نے انسان کو اشرف ا لمخلو قات کے در جہ سے سر فراز فر مایا اور اس کی جان ومال، عزت و آبرو(عصمت،ناموس، پاک دامنی) کی حفا ظت کے قوانین بھی بتا ئے اور فر مایا کی زمین میں فساد نہ پھیلائو، امن وسکون سے رہو۔قرآن کریم اس کیلئے واضح حکم دے رہا ہے:
’’بیشک جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ اور زمین میں فساد کرتے پھر تے ہیں(یعنی مسلما نوں میں خونریزی،رہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مر تکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا پھانسی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخا لف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین میں ( چلنے پھر نے) سے دور یعنی قید یا ملک بدر کردیئے جائیں( کہ وہ اللہ اور اسکے رسول سے لڑ تے ہیں اور ملک میں فساد کرتے پھر تے ہیں، ان کا بدلہ یہی ہے کہ گن گن کر قتل کر دیئے جا ئیں)، یہ دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ہے ،مگر وہ جنھوں نے تو بہ کر لی اس سے پہلے کہ تم ان پر قابو پائو تو جان لو کہ اللہ بخشنے والا مہر بان ہے ۔‘‘(المائدہ34,33)۔
فساد فی الارض کی تفصیل بہت لمبی ہے۔چند اہم ملاحظہ فرمائیں۔
فساد فی الارض کو اللہ رب ا لعزت نے اللہ ورسول سے جنگ قرار دیا۔ یوں تو قر آن کریم میں4جرم ایسے آتے ہیں جو حدود(شرعی احکام کے مطابق سزا دینا) کے در جہ میں آتے ہیں وہ جرم ہیں: *زنا*چوری*رہزنی(ڈکیتی)* کسی پر بد چلنی کا بہتان لگا نا۔
یاد رہے فساد فی الا رض کی جو سزا ئیں بیان ہوئی ہیں،وہ صرف ڈکیتی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اُن سب مجرموں کے لیے ہیں جو قانون سے بغا وت کرتے ہیں، لو گوں کی جان، مال،عزت وآبرولوٹتے ہیں۔ چنا نچہ قتل، دہشت گردی، زنا، زنا با لجبر(یاد رہے: چاہے وہ نابالغ سے ہو یا بالغ سے ہو ، ز ور زبر دستی ہو یا راضی بہ رضاسے ہو)، چو ری ڈاکہ بن جائے یا بد کاری(زنا) کو لوگ پیشہ بنا لیں( جیسا کہ مو جودہ زمانہ میں عام ہو گیا ہے) یا کھلم کھلا اوبا شی پر اتر آئیں یا اپنی آوارہ گردی جنسی بے راہ روی کی بنا پر شریفوں کی عزت وآبروکے لیے خطرہ بن جائے یا انسا نیت کے کا موں کے خلاف بغاوت کے لیے اٹھ کھڑ ا ہو یا اغوا تخریب کاری اور سنگین جرائم سے حکو مت اور عوام کے لیے امن وامان کا مسئلہ پیدا کرے تو یہ سب فساد فی ا لارض زمرے میں آئے گا اور مجرم کو جرم کی نو عیت پر قا ضی یا عدالت اس میں جو سزا مناسب سمجھے وہ دے سکتی ہے۔ خیال رہے موت کی سزا قتل اور فساد فی الا رض کی سزا قتل کے سوا کسی اور جرم میں نہیں دی جاسکتی۔ اللہ تعالیٰ نے تفصیل کے ساتھ قرآن مجید میں فر مایاہے۔ان 2 جرائم کو چھوڑ کر فرد ہو یا حکو مت، یہ حق کسی کو بھی نہیں حاصل ہے کہ وہ کسی کے جان کے درپے ہو اور اسے قتل کرے۔ جان کاری کے لیے اسلامی کتب کا مطا لعہ فر مائیں۔
جرائم کی وبا:
دور حاضر میں جرائم نے ایک وبا کی صورت اختیار کر لی ہے۔دنیا کا کو ئی خطہ جرائم سے محفوظ نہیں ۔ تمام ممالک، خواہ ترقی یافتہ ہوں، یا ترقی پذ یر، یا پس ماندہ، جرائم کی لپیٹ میں ہیں۔ جرا ئم کا دائرہ تمام طبقات تک وسیع ہے۔ خود ہما را ملک ہندوستان بھی اس معا ملہ میں کسی سے پیچھے نہیں حتیٰ کہ سپریم کورٹ کے بھیجے ہوئے آفیسروں کو بھی جان سے مار دیا جارہا ہے۔ہماچل پر دیش میں غیر قانونی ہو ٹلوں کو منہدم کر انے گئی خاتون افسر شیر بالا کو گولی مار دی گئی اور وہ اسی وقت مر گئی۔ سپریم کورٹ نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور اسے شر مناک بتایا اور چیف جسٹس کے سامنے اس واقعے کو پیش کیا ہے۔جب اتنے بڑے افسروں کی جان کی حفاظت نہیں ہو پا رہی تو جرا ئم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ حالات تقا ضا کر تے ہیں کہ اسلام کے تعزیری قوانین کا تقابلی مطالعہ (comparing study ) کیا جا ئے اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ اسلامی قوانین جرا ئم کی کمی میں کس حد تک معا ون ہیں، ان شا ء اللہ اس کے بے شمار فوائد و نتا ئج ملیں گے۔
اسلام کے ماننے والوں اور اس کی تر جمانی کرنے والے علما ئے کرام پر بھی اس کی ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ وہ ان قوانین کی اہمیت وافادیت کو بتائیں اور ان کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کریں۔ اسلامی شریعت میں جو احکام مسلما نوں کو اجتما عی یا انفرادی دیئے گئے ہیں، ان کو اللہ رب ا لعز ت نے مقر ر فر مادیا ہے۔یہ سزائیں کیا ہیں؟ ان کی تفصیل بہت لمبی ہے۔ ایک مقا لہ میں سب کا ذکر ممکن نہیں۔یہ تفصیل کا تقاضا کر تی ہے۔ ابھی جو سب سے اہم مسئلہ ہے، کٹھوا کی 8 سالہ آصفہ کے ساتھ انتہائی درندگی کے ساتھ زنا کاری کے بعد بے در دی کے ساتھ قتل اور انا ئو کی لڑکی کے ساتھ زیادتی کر نا اور بوڑھے باپ کو قتل کر دینا انتہا ئی شرمناک واقعہ ہے جس سے پوری دنیا میں ہندوستان کی بدنا می ہوئی ،جس کی وجہ کر ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا سے آواز اٹھ رہی ہے کہ زانی کو پھا نسی کی سزا دی جائے۔ ہندو، مسلمان تمام مذاہب کے لوگ یہ مانگ کر رہے ہیں۔ خوشی کی بات ہے ہما رے ملک میں اس کا قانون بھی بنا دیا گیا ہے۔ عوام کی زبر دست مانگ سے مر کزی کا بینہ نے ایک آر ڈ یننس صدر جمہوریہ ہند کو پیش کیا۔ اس کا مقصد تعزیرات ہند میں شا مل،CRPC ، EVIDENCE ACTاور POSCO ACT میں نظر ثانی اور تر میم ہے۔اس کے مطابق اب12 سال کی بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی پاداش میں سزائے موت کا نظم کیا جائے گا۔ بہر حال زانی کو سزا ئے موت ہو زیادہ تر لوگ یہی چاہتے ہیں۔
اسلام میں زانی کی سزا اور اس کی حکمت:
زنا ایک انتہائی شرمنا ک اور گھنا ئو نی حر کت ہے۔عزت وناموس جان سے زیادہ قیمتی چیز ہے۔ زانی اور زانیہ کنوار ے ہوں یا شادی شدہ، زنا کی شرعی سزا وہی ہے جو قر آن مجید کی سورہ نور،آیت 2 و3 میں بیان ہوئی ہے:
’’ جو عورت بدکار ہو اور جو مردتو ان میں ہر ایک کو 100کوڑے لگائو اور تمھیں ان پر ترس نہ آئے اگر تم ایمان لاتے ہواللہ پر اور قیامت کے دن پر، اور چا ہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا گروہ حاضر ہو۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خطبے میں حمدو ثنا کے بعد فر مایا کہ لو گو! اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد کو حق کے ساتھ بھیجا اور آپ پر اپنی کتاب نا زل فر مائی۔ اس کتابُ اللہ میں رجم( پتھر مار مار کر مار نے) کے حکم کی آیت ہے جسے ہم نے تلاوت کیا اور اس پر عمل بھی کیا۔ خود حضور کے زمانے میں رجم ہوا اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا ،مجھے ڈر لگتاہے کہ کچھ زمانہ گزر نے کے بعد کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کو کتابُ اللہ میں نہیں پاتے، ایسا نہ ہوکہ وہ اللہ کے اس فریضے کو جسے اللہ تعا لیٰ نے اپنی کتاب میں اتا را ہے چھوڑ کر گمراہ نہ ہو جائیں( مسلم) ۔
کتابُ اللہ میں رجم کا مطلق حکم ہے اُس پر جو زنا کرے۔آج وہی زمانہ بلکہ اس سے بدتر زمانہ آ گیا ہے جس کی نشاندہی ایک جلیل القدر صحا بی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فر مائی تھی۔ آج اسلا می سزا کو انسانوں پر ظلم بتا یا جا رہا ہے اور نا م نہاد دانشور بھی اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔فہرست لمبی ہے۔ اللہ ان گمراہوں کو ہدایت نصیب فر مائے۔آمین۔
زنا کی کثرت علامات قیا مت میں سے ہے۔حضرت انس بن مالکؓسے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا:
’’علا مات قیا مت میں سے یہ ہے کہ(دینی) علم اٹھ جائیگا اور جہل ہی جہل ظاہر ہو جائیگا،(علانیہ) شراب پی جا ئیگی اور زنا پھیل جائیگا۔‘‘(بخاری)۔
مخبرصادق کی د ونوں باتیں سچ ثابت ہورہی ہیں۔ زنا عام ہو گیا ۔شراب مسلم بستیوں میں عام طور پر پوچ میں بک رہی ہے اور قوم کا نوجوان اپنا مستقبل بر باد کرر ہا ہے اور جاہل اسٹیجی مقرر بھی غیر ذمہ دارانہ بیان کر کے عوام کو گمراہ کرر ہے ہیں۔ نبی نے اپنے زمانے میں زنا کے بعض مجرموں کو رجم،یعنی سنگ ساری کی سزا دی۔یاد رہے کہ زنا کی سزا کے لیے 4 گواہوں کی جو شرط قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے، وہ زنا بالر ضا کے لیے ہے( یعنی دونوں کی رضا سے حرام کاری کر نا، جسے آج کورٹ زنا ہی نہیں مانتا)۔ اس کا اطلاق زنا با لجبر پر نہیں کیا جاسکتا،چنانچہ اگر کوئی عورت اپنے خلاف زنا کی شکایت لے کر آتی ہے تو وہ قاذف (تہمت لگانے والی) نہیں بلکہ فر یادی ہے ۔ قانون اس کا پا بند ہے کہ اس کی فر یاد سنے اور جس شخص پر الزام لگا یا گیا ہے،اس کا جرم جس طریقے سے بھی ثا بت ہو جا ئے(جیسے آجکل ڈی این اے ٹسٹ وغیرہ) اُسکو اس بر بر یت گھنا ئو نے جرم کی سزا ضرور دی جائے۔ جدید زما نے میں زانی کو پتہ لگانے کے بہت سے معتبر طریقے موجود ہیں جیسے نار کو ٹسٹ وغیرہ وغیرہ جو فا رنسک رپورٹ میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی کا پتہ دے دیتی ہے۔ اگر ایمان داری سے کیا جائے، جیسے کٹھوا آصفہ کے کیس میںجموں کشمیر کی فارنسک لیب نے گول مول کر دیا تھا لیکن ایماندا رپولیس آفیسر نے رپورٹ دہلی بھیج دی اور دہلی کی فارنسک لیب نے 11صفحے کی رپورٹ میں سبھی مجرموں کی نشاندہی کر دی اور یہ کیس کی اہم کڑی ثابت ہوئی( بھلا ہو دہلی کے ایمان دارڈاکٹروں و لیب کے ذمہ داروں کا)۔ آگے دیکھئے کیا ہو تا ہے۔ دعا کریں اللہ ظالموں کی پکڑ فر مائے۔آمین۔
جو لوگ ا سلا می سزا ئوں کو ظالما نہ،وحشیانہ،غیر انسانی طریقہ بتا تے ہیںان کا اسلا می تعلیم سے دور دور تک واسطہ نہیں، اسلامی تعلیمات کا مطالعہ نہیں۔ وہ صرف اسلام سے بغض و عناد کی وجہ سے اسلام کو بدنام کرتے ہیں۔ وہ ذرا اپنے گر یبا نوں میں جھانکیں! وہ کتنا غیر انسانی اور وحشیانہ بر تا ؤ انسانوں پر کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں ۔نا گا ساکی،ہیرو شیما پر بمبا ری کر کے لا کھوں انسانوں کو موت کی نیند سلا چکے ہیں اور لاکھوں آج بھی کراہ رہے ہیں۔ آج لیبیا ، عراق ، شام ، افغا نستان، قندوز ، غوطہ وغیرہ کے دلدوز مناظر انہیں دکھا ئی نہیں پڑتے، اندھے ہیں کیا ؟یہ صرف اسلام دشمنی و مسلمان دشمنی ہے۔
اسلا می سزا ؤں میں حالات وکوائف کا بڑا خیال واحترام کیا جا تاہے۔ قاضی اس بات کا خیال رکھتا ہے جرم کی نوعیت اور مجرم کی صورتحال کیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔خود حضور اورصحا بہؓ کے زمانہ میں کئی واقعات بڑے دلچسپ ہیں۔ ضرورت ہے اسلا می لٹریچر کے اسٹڈی کر نے کی…کہ شاید اتر جائے تیرے دل میں میری بات اے ساقی؟
ایک حدیث مطالعہ فر مائیں۔نبی رحمت نے فر مایا :
’’ قحط سالی کے زمانے میں چو روں کے ہاتھ نہیں کاٹے جائیں چنا نچہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مر وی ہے’’لا قطع فی زمن المجاع‘‘ قحط سالی کے زمانے میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں۔‘‘(کنز العمال ) ۔
اس حدیث کی بنیاد پرحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زمانہ قحط سالی میں یہ سزا موقوف فر مادی۔
اسلام نے سزائوں پر شہادت کا ضابطہ بڑا سخت اور مضبوط بنا یا ہے۔ یہ دنیا وی کورٹ نہیں جس میں جھوٹی قسمیں کھا کھا کر، جھوٹی گواہیاں دے دِلاکر، گواہوں کو ڈرا کر دھمکا کر دولت مند لوگ اور دبنگ مجرم اپنے کو قا نو نی پکڑ سے بچا لیتے ہیں۔ آپ دن رات دیکھ رہے ہیں۔ چا ہے وہ امت شاہ ہوں ،اسیما نند ہوں، دیس کے سب سے بڑے عہدہ پر فائز ہوں، مکہ مسجد بم بلاسٹ کے مجرم ہوں ، سادھوی پرا چی ہوں، ملک کے سب سے بڑے صوبے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یو گی، جن کے اوپر36سنگین جرم کے الزام لگے ہیں اور وہ وزیر اعلیٰ بنے ہوئے ہیں۔صوبے کے 150سے زیادہ ار کان پار لیمنٹ کے اوپر سنگین الزامات ہیں مگر وہ سر کاری خزانے پر عیش کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ دنیا کی عدالتوں میں تو چل جا رہا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے یہاں ممکن نہیں۔اللہ رب ا لعزت قادر مطلق ہے۔ سب کی پکڑ کی قوت رکھتا ہے۔ وہاں کسی پر بال کی نوک کے برابر ظلم نہیں ہو گا۔وَلَایُظْلَمُوْنَ فَتِیْلَاً (النساء49) تر جمہ: اور ان پر ایک دھا گہ کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائیگا۔ اللہ کے یہاں سب کے ساتھ برابر کا انصاف ہو گا۔زنا انتہائی برا کام ہے۔زنا نہ صرف مذ ہبی طور پر بری چیز ہے بلکہ سماجی طور پر بھی انتہائی غلیظ مانا جاتاہے،اسکے باوجود اتنے زیادہ واقعات کیوں ہو رہے ہیں؟ اسکے جو عوامل ہیں ان سے بھی عوام کو دور کر نے کی ضروت ہے۔اسلام اس کی پہلی سیڑھی سے ہی روک لگا تا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
’’اور تم زنا(بد کاری) کے قریب بھی مت جانا ،بیشک یہ بے حیائی کا کام ہے اور بہت بری راہ ہے۔‘‘( بنی اسرا ئیل32) ۔
بے حیا ئی ،فیشن کے نام پر آدھے لباس کیساتھ گھو منا پھر نا،اخبارات سے لیکر ٹی وی تک اور اب تو ساری کسر موبائل نے پوری کردی ہے ۔گندی تصویریں، فحش گانے، ہیجان پیدا کر نیوالی فلمیں،اس طرح کے عوامل سے انسانی دل و دماغ شہوت زدہ ہوجاتا ہے اور انسا نی عقل پر پردہ پڑ جاتاہے۔ پھر انسان وہ کر بیٹھتا ہے جو اسکے اور سماج دو نوں کیلئے شرم کا باعث ہو تا ہے۔ امام حضرت امام غزالی علیہ رحمہ فر ماتے ہیں:انسانی عقل کی نافر مان چیزوں میں غصہ سے بھی زیادہ نا فرمان شہوت(sex) ہے ۔جب انسان شہوت زدہ ہو جاتا ہے تو کچھ نہیں سمجھ میں آتا ۔ جا نوروں سے بھی زیادہ بد تر ہو جاتاہے اور آج آپ دیکھ رہے ہیں کیسے کیسے ذلیل و دل ہلا دینے والے واقعات ہورہے ہیں اسی لئے کلا م الٰہی میں زناکے مجرموں کی سزا ’’رجم‘‘ (موت) اور قتل کے بدلے قتل کی سزا مقرر فرمائی ہے۔ان سزا ئوں کا مقصد محض جرم کا خاتمہ ہی نہیں کر نا بلکہ دوسروں کیلئے عبرت ناک ( نصیحت،خوف،سبق حاصل کرنا )بنانا ہے تا کہ دوسرے بھی دیکھ کر ڈریں ۔
موجودہ صورتحال اس بات کا تقا ضا کرتی ہے کہ اسلام کے تعزیری قوا نین(قوا نین کا وہ مجموعہ جس میں جرائم کی تعریف اور ان کی سزائوں کا مفصل بیان ہو) یعنیPENAL CODE کا مطالعہ کیا جائے اور لو گوں کو بتا یا جائے کہ اسلامی قوانین جو کہ حقیقت میں خدائی قوانین ہیں، اس سے جرائم کو کم کر نے میں بہت مدد ملے گی۔ اسلام کے علم بر داروں خصوصاً علمائے کرام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلامی قوانین کی اہمیت و معنو یت کوبتائیں اور ان کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کریں۔ اسلامی قوانین آزمودہ ہیں ، لمبے عرصے سے یہ ایک خطۂ زمین میں نافذ رہے ہیں اور دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ سماج میں ان کے اثرات کتنے بہتر رہے ہیں۔ کیسا امن و امان کا دور رہا ہے۔حضرت عدی بن حاکم رضی اللہ عنہ جو 9ھ میں مشرف بہ اسلام ہوئے، فر ماتے ہیں کہ ایک مو قع پر اللہ کے رسول نے انھیں مخا طب کر کے فر مایا:اے عدی! اگر تم کچھ عرصہ مزید زندہ رہے تو ضرور دیکھ لو گے کہ ایک عورت’’حیرہ‘‘ سے سفر کر کے مکہ پہنچے گی اور خانہ کعبہ کا طواف کریگی، پورے سفر میں اسے اللہ کے سوا اور کسی کا خوف نہ ہو گا۔
حضرت عدی بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ کی اس پیشن گوئی کو پورا ہوتے ہوئے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں(بخاری، کتاب ا لمنا قب، باب علاما ت النبوۃ فی ا لاسلام) ۔
دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو اسلامی قوانین کے جاننے اور اس پر عمل اور زنا جیسے موذی گناہ سے بچنے کی توفیق دے، آمین ۔