ڈاکٹر ساجد خاکوانی۔اسلام آباد
خطوط کی ترسیل ایک زمانے سے انسان کا مسئلہ رہاہے،جس کی وجہ انسانوں کے درمیان پائی جانے والی دوریاں ہیں۔بہت محبت کرنے والے انسان اکٹھے رہتے ہیں ،خاص طور پر اکٹھے پلتے بڑھتے ہیں ،ایک ہی چولھے کے گرد بیٹھ کر پیٹ بھرتے ہیں،مٹی کے گھروندے بناتے ہیں،گلیوں اور محلوں کے درمیان آنکھ مچولیاں کھیلتے ہیں،پانی کے کھالوں میں ایک دوسرے کے ساتھ نہاتے ہیں،ہاتھوں پاؤں پر مہندی لگاتے ہیں،پہروں کے حساب سے شب و روز اکٹھے گزارتے ہیں،کبھی نہ ختم ہونے والی باتیں اور کبھی نہ ختم ہونے والے کھیل تماشے اور کسی مطلب و مقصد اور حرص و طمع سے ماورا یہ تعلقات اپنی محبت و الفت اورچاہت و پیارسے انسانوں کوماضی کی یادوں میں اس طرح باندھ دیتے ہیں کہ پھر وہ انسان چاہے بھی تو کبھی ان سے نجات حاصل نہیں کرپاتا بلکہ عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ اِن یادوں کی لذت سوزن میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے اور یاد ماضی انسان کا بہت قیمتی اثاثہ بن جاتی ہے۔
وقت اپنی رفتار سے بڑھتارہتاہے اور بہت جلد حسین یادوں کا یہ دور ختم ہوکر تو انسانوں کے درمیان جدائیاں ڈال دیتاہے۔کسی کو قسمت ،کسی کو رزق،کسی کو مجبوریاں اور کسی کو پیا کاگھراپنے بچپن سے دور بہت دور لے جاتے ہیں۔اب دوستوں کی یادیں اور خاص طور اُس وقت کے دوستوں کی یادیں جب دوستی کا تعلق صرف خلوص و محبت پر ہی مبنی ہوتاتھابہت ستاتی ہیں۔ پس یہیں سے انسانی جذبات شروع ہوتے ہیں اور پھر خطوط کی ترسیل کاکام کیاجاتا ہے تاکہ اپنے چاہنے والوں کی خیریت وعافیت سے آگاہی حاصل کی جاسکے۔
خطوط کے اجراکا دوسرا مقصداحکامات کی بروقت ترسیل بھی ہے۔ریاستیں بڑھتے بڑھتے بہت زیادہ رقبہ گھیر لیتی ہیںاورایک اعلان کے ذریعے سب لوگوں تک اطلاعات پہنچانا ممکن نہیں رہتااور پھر ایسی اطلاعات بھی تو ہوتی ہیں جنہیں ہر کس و ناکس تک پہنچانا مقصود بھی نہیں ہوتاتب کسی مخصوص فرد تک اس سے متعلق اطلاع ایک بند لفافے میں لکھی ہوئی چٹھی ہی پہنچاسکتی ہے جہاں سے ڈاک کا عمل شروع ہوتا ہے۔کسی کی تعیناتی،کسی کی برخواستگی اور کسی کی ترقی اور کسی کی تنزلی ان سب امورکی اطلاع کسی چٹھی کے ذریعے ہی پہنچائی جاتی ہے تاکہ اسناد کا باقی رہنا ممکن ہو سکے اور یہاں پھرڈاک کی ضرورت پڑتی ہے ایک جگہ کے خطوط دوسرے جگہ متعلقہ فرد تک پہنچانے کاکام یہی محکمہ کرتاہے۔بعض اوقات ایک ادارہ دوسرے ادارے سے دفتری تعلقات استوارکرتاہے اور2 ادارے یا2 دفاتریا2محکمے اپنی جملہ خط و کتابت کے لیے اگرچہ اپنے ہرکارے بھی تعینات کرتے ہیں لیکن جب کام اس قدر بڑھ جائے کہ ہرکاروں کے بس سے باہر ہوجائے تو پھر محکمہ ڈاک کی ضرورت پڑتی ہے جو اس طرح کے امور کی نگرانی کرتاہے اور پوری ذمہ داری اور تندہی سے ایک جگہ کی تحریری اطلاعات دوسری جگہ پہنچاتاہے اور اس کے بدلے ایک مناسب عوضانہ بھی وصول کرتا ہے جسے بخوشی اداکر دیاجاتاہے۔
ہم کہہ سکتے ہیںکہ پیغام رسانی کے لیے سب سے پہلے اﷲ تعالیٰ نے جبریل ؑ کا انتخاب کیا جو آسمان سے اطلاعات زبانی اور تحریری دونوں صورتوں میں اﷲ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں تک پہنچایاکرتے تھے۔گویا محکمہ ڈاک کی تاسیس وحی کے مقدس فریضے سے ہوئی ۔
حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے وقت تو اﷲ تعالیٰ نے براہ راست وحی کی اور حضرت آدم علیہ السلام کوچیزوں کے نام سکھائے لیکن بعد کے آنیوالے دنوں میں اﷲ تعالیٰ اپنا پیغام جبریل امین ؑ کے ذریعے سے اپنے انبیاء علیہم السلام تک پہنچاتا تھا۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کام میں جبریل ؑ اکیلے نہیں تھے بلکہ فرشتوں کی ایک بہت بڑی تعداد تھی جو ان فرائض کی بجاآوری میں جبریل ؑ کا ساتھ دیتی تھی گویا آسمان پر اﷲ تعالیٰ نے ایک محکمہ بنایا تھا جس کے نگران جبریل علیہ السلام تھے اور ان کی سربراہی میں دیگر بہت سے فرشتے تھے جو اس کام میں ان کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔کبھی یہ پیغام رسانی زبانی ہوتی تھی اور جبریل ؑ اﷲ تعالیٰ کا پیغام انبیاء علیہم السلام کے قلب مبارک میں ڈال دیتے تھے اور کبھی کبھی تحریری پیغام رسانی بھی ہوا کرتی تھی جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت کے تحریری نسخے نازل کیے گئے تھے۔
پیغام رسانی کاایک سلسلہ ہر انسان کے ساتھ بھی ہمہ وقت موجود رہتاہے۔2فرشتے جنہیں ’’کراماً کاتبین‘‘کہاگیاہے وہ ہر وقت انسان کے کندھوں پر براجمان انسانی اعمال کی ایک یادداشت خط کی صورت میں محوتحریررہتے ہیں۔یہ مرتب شدہ نامہ اعمال گویاخط کی شکل میں ہر دن میں 2باراﷲتعالیٰ کے حضورپیش کیاجاتاہے۔یہ خط رساں فرشتے اﷲتعالیٰ کو اس دنیامیں موجود ہرہرانسان کی کارکردگی فرداََ فرداََ پیش کرتے ہیں۔اربوںانسان کے خطوط کادفترایک دن میں 2بار پیش ہوناانسانی عقل سے ماوراء ہے۔اﷲتعالیٰ کی قدرت کاملہ اگرانسان کی عقل میں سماجائے تو یقیناوہ انسانی عقل سے چھوٹی ہوجائے جو کہ محال ہے۔پس روایات میں بتایاگیاہے کہ ہر انسان کے 2,2فرشتے فجراورعصر کے اوقات میں تبدیل ہوتے ہیں۔دائیں کندھے پر موجود فرشتہ نیکیاں اور بائیں کندھے والا برائیاں ضبطِ تحریر لاتاہے اور نامہ اعمال کے یہ خطوطِ بے بہالے جاکر انسانوں کے خالق کے حضورپیش کرتے ہیں۔اﷲ تعالی فرداًفرداً ہر ہر فرشتے سے ہرہرانسان کے بارے میں استفسارکرتاہے اور فرشتوں سے پوچھتاہے کہ تم نے میرے بندے کو کس حال میں پایااورکس حال میں چھوڑا۔جو نامہ بر کسی نمازی کانامہ لے کر حاضر بارِالٰہ ہوتے ہیں تووہ اﷲتعالیٰ سے عرض کرتے ہیں کہ جب گئے تو وہ فجرکی نماز میں مشغول تھااورجب چھوڑ کر آئے تو عصر کی نماز میں مصروف تھا۔اﷲ تعالیٰ ان فرشتوں کو گواہ کرکے اس نمازی انسان کی مغفرت کاوعدہ فرمادیتاہے۔اگرفرشتے کسی بے نمازی کے نامے لے کر پہنچیں تواﷲ تعالیٰ کے پوچھنے پر وہ بتاتے ہیں کہ جب ہم گئے تووہ میٹھی نیندکے مزے لے رہاتھااورجب چھوڑ کرآئے تواموردنیامیں مشغول تھااور اے خالق کائنات! وہ انسان تجھ سے غافل تھا۔اﷲ تعالیٰ فرماتاہے کہ جس طرح اس نے مجھے بھلادیامیں نے بھی اسے بھلادیا۔
پیغام رسانی کا سلسلہ ابنیاء علیہ السلام نے بھی جاری رکھااور حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے ذریعے اپنے والد بزرگوارحضرت یعقوب علیہ السلام کواپنی قمیص بھجوائی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کے درمیان بھی پیغام رسانی کی اطلاعات ملتی ہیں۔آخری نبی نے بھی خطوط رسانی کے سلسلے کو جاری رکھا۔ریاست مدینہ کی تاسیس کے بعد پورے عرب سے عام طور پر اور مکہ مکرمہ سے خاص طور پرخفیہ اطلاعات کی ترسیل کے لیے پورا ایک نظام وضع کیاگیاتھا۔اس نظام کے تحت پل پل کی خبریں تحریری اور زبانی طور پر آپ کے گوش گزار کی جاتی تھیں ۔دوسرے ممالک سے رابطے کے لیے آپ نے ایک صحابی کومنتخب فرمایا۔حضرت دحیہ کلبی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سفیر رسول تھے اور بادشاہوں کے دربار میں محسن انسانیت کے پیغامات و خطوط لے کر جاتے تھے۔خاتم الانبیا نے خفیہ خطوط کے طریقے کو بھی رائج کیااور رسول اللہ کے اصحابؓ کے بعض گروہوں کو ایک بند لفافے میں احکامات دیئے جاتے اور انہیں کہاجاتا کہ اتنی دور فلاں سمت میں پہنچ جانے کے بعد اسے کھول کر پڑھنا اور لکھی ہوئی ہدایات پر عمل کرنا۔فتح مکہ کے لیے روانگی کے بعد ایک عورت سے غداری کاخط بھی حضرت علیؓ اور انکے ساتھیوں نے پکڑا تھا۔اسی طرح جب فتح مکہ کے بعد حضرت ابوبکرؓ کو امیر الحج بناکر بھیجا تو بعد میں حضرت علی کرم اﷲ وجھہ کے ہاتھوں ایک پیغام ارسال فرمایا جس میں مسجد حرام سے متعلق نازل ہونے والے چند احکامات کا اعلان مقصود تھا۔خطوط نبوی کے نام سے ایک مجموعہ شائع بھی ہوچکاہے۔
بعد کے ادوار میں محکمہ برید کے نام سے باقاعدہ ایک سرکاری محکمہ بنایا گیاجو لوگوں کے خطوط اورسرکاری چِھٹیاں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کاکام کرتا تھا۔امیرالمومنین حضرت عمر ؓنے اس کام پر خصوصی توجہ دی اور بعد کی دنیاکے ایک ہزار سالہ اسلامی دور حکومت میں ڈاک کی ترسیل کا تیزترین نظام کام کرتا رہا ۔تیزرفتار ہرکارے اپنے گھوڑوں پر تیاررہتے تھے ۔خاص خاص فاصلوں پر چوکیاں بنائی گئی تھیں جہاں گزشتہ چوکی کا ہرکارہ پہنچتاتو اگلا ہرکارہ تازہ دم گھوڑالیے تیار باش ہوتا اور ڈاک کا تھیلا بہت سبک رفتاری سے اس طرح اپنی منزل کی طرف بغیر کسی توقف کے اور بغیر کسی تاخیر کے تیزگام رہتااور بہت لمبے لمبے فاصلے دنوں دنوں میں طے کر لیے جاتے۔
کم و بیش اسی طرح کا نظام سمندروں اور دریائی علاقوں کے اندر بھی اپنا کام بہت تیزرفتاری سے سرانجام دیتاتھا۔بعض لوگ انفرادی طور پر سدھائے ہوئے کبوتروں س بھی یہ کام لیتے تھے لیکن اس طرح پیغام ضائع ہونے کا اندیشہ بھی رہتاتھا چنانچہ لکھاہوا پیغام کبوتر کی ٹانگ پر باندھ دیاجاتا اور اسے منزل مقصود کی طرف اڑا دیا جاتا،شکاری پرندوں اور موسموں کی شدت سے بچ جانے کی صورت میں یہ پرندہ اپنے مقام پر بہت جلد پہنچ جاتا تھا اور یوں پیغام رسانی مکمل ہو جاتی۔
وقت کے ساتھ ساتھ ڈاک کا نظام انسانی معاشر کا جزو لازم بن گیا اور ماضی قریب میں خطوط کا بہت زیادہ رواج ہو گیا حتیٰ کی طالب علموں کو ان کی نصابات میں باقائدہ سے سکھایا جاتا تھا کہ خط کس طرح لکھتے ہیں اور خط میں مخاطبت کے کیاکیا آداب ہیں ۔کسی بڑے کو خط لکھنے میں کس آغاز کرنا ہے،چھوٹے کو لکھتے ہوئے کس طرح مخاطب کرنا ہے،خط کے شروع میں کیا لکھنا ہے اور خط کے آخر میں کیا لکھنا ہے اور خط کااختتام کن کن الفاظ پر کرنا ہے وغیرہ اور بے تکلف دوستوں کو کس طرح خط لکھنااور پرتکلف دوستوں کو کیاکیا لکھنا ہے وغیرہ۔اردو معلی کی تاریخ میں تو خط باقائدہ سے ایک صنف ادب کی صورت میں سامنے آیا اور اردو کے مشاہیرنے جو خطوط لکھے انہیں کتابی شکل میں جمع کیاگیا،شائع کیاگیااور ایک دنیا نے انہیں پڑھا اور انکے اسلوب کو اپنے خطوط میں ؤاختیار کیا۔یہ وہ دور تھا جب خط اپنی سرکاری حیثیت سے نجی حیثیت کی طرف گامزن تھااور اشرافیہ سے عوام الناس میں بھی قبولیت اختیار کررہاتھا۔
مغرب سے درآمدشدہ آلات کے باعث رابطوں کے تیزرفتار سلسلوں نے خط کی اہمیت کو ماند کر دیا ہے،اب خط لکھناایک تکلف سمجھاجاتاہے اور گفتگوکرنا ظاہر ہے کہ آسان ہو گیاہے اورعوام الناس آسانی کی طرف زیادہ مائل ہو گئے ہیں۔فاصلے سمٹ جانے سے ہوناتویہ چاہیے تھاکہ انسان باہم قریب ترآجاتے لیکن افسوس صد افسوس کہ سیکولرمغربی تہذیب کے رنگ میں رنگ جانے کے باعث ان تیزرفتار مرابطی آلات کے باوجود بھی انسان دوسرے انسانوں سے دور ترہوتاچلاجارہاہے ۔یہ برقی آلات انسانی خونی وازدواجی رشتوں میں بھی دوری کاباعث بنتے چلے جارہے ہیں۔بہت تکلیف دہ مشاہدہ ہوتاہے جب ایک ہی چھت کے نیچے بیٹھے چند انسان ایک دوسرے
سے بے نیاز اپنے اپنے ہاتھ میں پکڑے ان مذکورہ آلات میں محو تسکین ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ڈاک کی اہمیت میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ ڈاکیاآج بھی ہماری ثقافت کا حصہ ہے ،دروازے پر ڈاکیے کا انتظار آج بھی افسانوںاور ناولوں اور حتیٰ کہ بعض نظموں اور غزلوں کا بھی عنوان بن جاتا ہے ۔وقت کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ڈاک کی اہمیت ایک بار پھر دوبالا ہوگی اور یہ خدمت نت نئے رنگوں سے انسانی زندگی کے خالی خانوں کو قوس قزع کی مانند حسن و زیبائش سے آشنا کر دے گی۔