بلا تفریق احتساب کبھی ہو ہی نہیں سکا
پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کا عمرانی حکومت کیخلاف غیر متوقع طور پر اچانک شیروشکر ہو جانا یا کسی مؤقف پر اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا اُن کے درمیان کسی مکمل اور پائدار ا تحاد اور سمجھوتے کی نشاندہی نہیں کرتا۔ اُن دونوں جماعتوں کے درمیان اُصولوں اور نظریات کی ایک بہت بڑی خلیج حائل ہے ۔ وہ ہمیشہ سے ایک دوسرے کیخلاف الیکشن لڑتے آئے ہیں۔دونوں کے انداز فکر ، طرز عمل اور معاملات کو سمجھنے میںبہت بڑا فرق ہمیشہ ہی سے واضح اور نمایاں رہاہے۔وہ آ ج اگر عمران خان کی حکومت کے خلاف اچانک متحد و یکجا ہوگئے ہیں تو ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ وقتی اور عارضی ہے۔حکومتی حلقوں کی جانب سے اِس پر حیران اور پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہئے۔ یہ بالکل اُسی طرح ہے جیسے نواز شریف حکومت کیخلاف پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی پاناما کیس کے موقعے پر شدید اختلافات اورتحفظات کے باوجودمتحد ہوگئے تھے۔جمہوریت میں جہاں ہمیں کئی اور حسن اور خوبیاں دکھائی دیتی ہیں وہاں یہ ایک خوبصورتی بھی جمہوریت کا خاصہ رہی ہے کہ ایک دوسرے کے کٹر مخالف اور دشمن کب آپس میں ایک دوسرے کیلئے دوست اور مہرباں بن جائیں اورانتہائی قریبی دوست اچانک دشمن بنکر دست و گریباں ہو جائیں۔ ہرگز حیرانی اور اچھنبے کی بات نہیں ہے اِس لئے حکومتی اکابرین کی جانب سے یہ کہنا کہ کرپٹ اور ملک لوٹنے والے اپنے آپ کو بچانے کیلئے ایک ہوگئے ہیں حقائق کے ساتھ کچھ زیادہ میل نہیں کھاتا۔حکومت وقت کیخلاف ہمیشہ ہی سے ایسے اتحاد بنتے آئے ہیں۔آج اگر پی ٹی آئی کی جگہ پاکستان پیپلز پارٹی برسراقتدار ہوتی تو مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی والے بھی اپنے تمام اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کے ساتھ ایسے ہی ہم نوالا اور ہم رکاب بن چکے ہوتے۔اِس لئے یہ کہنا کہ اپوزیشن کا موجودہ اتحاد کرپشن کے الزامات سے بچنے کیلئے کوئی مک مکا ہے ہرگز درست بات نہیں۔ویسے بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ یہاں آج تک بلاتفریق و امتیاز صاف اور شفاف احتساب کبھی ہو ہی نہیں پایا ہے۔ احتساب کے نام پر جب بھی یہاںکوئی حساب کتاب کیاگیا اُس میں صرف چند ناپسندیدہ مخصوص لوگوں ہی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ احتساب کے نام پر بننے والی یہ بیل کبھی منڈھے چڑھ ہی نہیں پائی۔ہم آج بھی یہی کچھ دیکھ رہے ہیں ۔ یہاں جو شخص پی ٹی آئی کی چھت کے تلے پناہ میں آجائے اُس کا کوئی بال بیکا بھی نہیں کرسکتا چاہے اُس نے ماضی میں کتنی ہی بڑی کرپشن کی ہو۔ہمارے یہاں احتساب کے نام پر ایسا ہی ہوتا آیاہے۔ اپنی پسند کے چہروں کا نقشہ جمانا اورناپسند اور غیر مطلوب لوگوں کاراستہ مسدود کرنا ہمیشہ ہی سے مقصد رہا ہے۔کرپشن کا خاتمہ کسی احتساب کا مطمع نظر نہیں رہا ہے۔بیس پچیس سالوں سے ہم یہی تماشہ دیکھتے آئے ہیں۔ احتسابی عمل کی اِسی خرابی نے یہاں کبھی کسی احتساب کو کامیابی سے ہمکنار ہونے نہیں دیا۔
پاناما لیکس سے شروع کیا جانے والا احتساب آج 2 سال گزرنے کے بعد بھی کرپشن کا ایک پیسہ بھی واپس نہیں لاسکا ہے۔480ملزمان میں سے صرف ایک شخص نواز شریف کو بظاہر جزاو سزا سے عمل سے گزار کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کرکے اپنی انا کی تسکین کا سامان تو ضرور پیدا کرلیا گیا لیکن اُس شخص پر ایک پیسے کی کرپشن کا کوئی الزام ابھی تک ثابت نہیں کیاجاسکا۔ہیروں جیسے منفرد قابل اشخاص پر مشتمل جے آئی ٹی کی جانب سے کی گئی تحقیقات کے نتیجے میں مرتب کردہ 10 جلدوں کے صفحات میں کیا کچھ سامنے آیا یہ ابھی تک کسی کو بتایا نہیں گیا۔میاں صاحب کو سزا بھی سنائی گئی تو کرپشن کے کسی الزام کے تحت نہیں بلکہ دبئی میں قائم کسی فرم کا اقامہ رکھنے پر۔ یہی وجہ ہے کہ اِس فیصلے کی وجہ سے وہ ایون فیلڈ معاملے میںنیب عدالت کے ایک دوسرے فیصلے میں مکمل بے قصور قرار دئیے جاچکے ہیں۔اُنہیں اب عزیزیہ ملز کے کیس میں 7 سال قید کی سزا تو سنادی گئی ہے لیکن لگتا ہے اُس فیصلے کا انجام بھی پہلے والے فیصلے سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔
احتساب کے اِس سارے گورکھ دھندے کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں معلوم ہوتا کہ میاں صاحب کو کرپشن یامالی بد عنوانی کی وجہ سے محروم اقتدار نہیں کیاگیا تھا بلکہ پس پردہ کوئی اورانجانی پرخاش اورضد تھی جس کی وجہ سے اُنہیں سبق سکھانے کا فیصلہ کیا گیا۔یہ پرخاش اور دشمنی اندرونِ خانہ ہونے والے کن واقعات کے سبب بڑھتی چلی گئی یہ کچھ کچھ ہم سب لوگ بھی اچھی طرح جانتے ہیں ۔اداروں کا احترام اور توہین عدالت کا خوف ہمیں ایساکرنے سے روکے ہوئے ہے۔میاں صاحب خود آج جیل کے سلاخوں کے پیچھے ہوتے ہوئے بھی کچھ کہہ نہیں پارہے اور کئی مہینوں سے ایک پراسرار خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں تو ہم جیسے کمزور اور بے بس تجزیہ نگار بھلاکس کھیت کی مولی ہیں۔ہمت اور دلیر ی تو آصف زرداری صاحب ہی دکھاسکتے ہیں۔وہ بہت کچھ کہہ کر بھی ابھی تک کسی سزا سے تو کجا گرفتاری سے بھی بچے ہوئے ہیں۔ اُنہیں اچھی طرح پتا ہے کہ جب ایان علی اورڈاکٹر عاصم کا یہ لوگ کچھ بگاڑ نہیں سکے تو بھلا حسین لوائی اور انور مجید کا کیا بگاڑ لیں گے۔ جعلی اکاؤنٹس کی ساری کہانی بھی اصل مالکوں کا سراغ نہ لگنے کے سبب از خود ختم ہوجائے گی۔ آصف زرداری صاحب پر پہلے بھی بہت مقدمات بنائے گئے اور اُنہیں دس گیارہ سال جیلوں میں بھی رکھاگیامگر دیکھنے والوں نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے یہ بھی دیکھا کہ اُسی آصف علی زرداری کو سیدھا جیل سے نکال کر ایوان صدر بھی لایا جاتا رہا اور وہ کرپشن کے بے شمار الزامات کے باوجود نہ صرف کابینہ کے وزیر کی حیثیت سے اپنے فرائض منصبی سر انجام دیتے رہے بلکہ استثنائی لوازمات اور تاحیات مراعات سے مزین اِس مملکت خدادادِ پاکستان کے سب سے بڑے عہدے کی نعمتوں اور فضیلتوں سے لطف اندوز بھی ہوتے رہے۔وہ آج بھی پراعتماد اور مطمئن ہیں۔اُن کا اندازبیان اور طرز تکلم بتارہا ہے کہ احتساب کے نام پر کوئی اُن کاکچھ بگاڑ نہیں سکتا۔وہ سب کی کمزوریاں اچھی طرح جانتے ہیں۔اُن جیساکوئی اور شاطر اور ہوشیار سیاستداں ابھی تک پیدا نہیں ہوا۔وہ بیک وقت بہت سی خوبیوں کے واحد مالک و مختار ہیں۔عمران خان ابھی سیاست میں نئے نئے وارد ہوئے ہیں۔ 2011ء کے بعد سے کسی انجانی قوت نے عمران خان کاہاتھ تھاما تو وہ اِس قابل ہوئے کہ آج اِس ملک کے وزیراعظم بن پائے۔ورنہ بہت ممکن تھا کہ 2018ء کا الیکشن اُن کاآخری الیکشن ہوتا اوراُس کے بعد وہ ناکامیوں اور گمنامیوں کے اندھیروں میں کہیں کھو جاتے ۔پاکستان میں اقتدار ہمیشہ کسی کی مرضی و منشاء کا تابع رہا ہے۔