چین، آنے والے برسوں کے دوران عظیم اقتصادی اور سیاسی طاقت کے طور پر ابھرنے والا ملک ہے۔ یہ دنیا کی عظیم طاقت امریکہ کیلئے چیلنج بنے گا۔معروف قلمکار ’’تھامس فریڈ مین ‘‘نے امریکہ اور چین کے درمیان شرح نمو کا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے پوری دنیا کو یہ بتایا کہ ان دنوں امریکہ کا بنیادی ڈھانچہ اور اس کا لاسلکی نظام تیسری دنیا کے ممالک کی سطح کے قریب ہوچکا ہے جبکہ چین عروج کی طرف گامزن ہے۔ چین اور امریکہ کے درمیان تقابل کو ایک طرف رکھئے۔یہ الگ بات ہے کہ تقابلی مطالعے کا نتیجہ چین کے حق میں ہی برآمد ہوگا تاہم زمینی حقیقت ابھی یہ ہے کہ امریکہ ہی دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اس سے اہم سوال امریکہ اور عرب دنیا کے درمیا ن تقابل کا ہے۔ تھامس فریڈ مین نے اس حوالے سے کچھ بھی نہیں کہا۔مطالعہ بتاتا ہے۔ تقریباً نصف صدی قبل چین کا حال عرب دنیا کے حال سے بہت زیادہ مختلف نہیں تھا بلکہ نصف صدی قبل بعض عرب ممالک کا اقتصادی استحکام او ر عمدہ مالیاتی وسائل چین سے کہیں بہتر تھے۔ لہذا میرا ماننا یہ ہے کہ اگر عربوں کو تقابل ہی کرنا ہے تو وہ چین کے ساتھ اپنے ماضی اور حال کا تقابل کریں۔ بعض لوگ کہہ سکتے ہیں کہ عربوں کی پسماندگی کا اصل سبب یہ ہے کہ عرب ممالک استعماری طاقتوں کا ہدف بنے۔اس کے جواب میں یہی کہا جائیگا کہ یورپ نے 1839ء ،1842کے دوران چین پر ناجائز قبضہ کرکے افیون کی پہلی جنگ چھیڑی تھی جبکہ 1856ء سے 1860ء کے درمیان چین کی دوسری جنگ برطانیہ کے ساتھ ہوئی پھر 1937ء میں جاپان نے چین پر ناجائز قبضہ کیا تھا۔ چینی اسے ذلت آمیز صدی کے نام سے جانتے پہچانتے ہیں۔چین میں خانہ جنگی بھی ہوئی۔ 1949ء میں عوامی لشکر آزادی نے اس کا خاتمہ کیا۔ اس کے بعد ہی یکم اکتوبر 1949ء کو ماؤزے تنگ نے عوامی جمہوریہ چین کے قیام کا اعلان کیا۔ 3عشروں سے بھی کم عرصے میں چین اقتصادی اعداوشمار کے مطابق دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت بن گیا۔1996ء سے امریکہ کے بعد اقتصادی طاقت کے طور پر چین کا ہی نام لیا جارہا ہے۔ چین نے 1980ء سے لیکر آج تک قابل ذکر کامیابی حاصل کی ہے۔ چین نے ایک ریکارڈ پوری دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور وہ یہ کہ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے 500ملین نفوس کو خوشحالی سے ہمکنار کیا۔ یہ ایسا ریکارڈ ہے جس کی نظیر دنیا میں کہیں نہیں نظر آتی۔ ’’روشن دان‘‘: پروفیسر چینگ وی وی کہتے ہیں (21ویں صدی چین کی صدی ہوگی)۔