سپریم کورٹ کے حکم سے کراچی میں بحران؟
کراچی ( صلاح الدین حیدر) سپریم کورٹ کے اس حکم نے کراچی میں بحران پیدا کردیا جس کی بازگشت اسلام آباد اور پارلیمنٹ تک میں سنی گئی کہ فلاحی قطعہ اراضی پر بنائے گئے مکانات، دکانیں، شادی ہال وغیرہ مسمار کردیئے جائیں تاکہ شہر میں ٹریفک کی روانی میں آسانی ہو ۔ بات یہاں تک آپہنچی کہ سندھ حکومت کو اپنی پالیسی کھل کر بیان کرنی پڑی۔ صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی تو پہلے سے ہی اس کے مخالف تھے۔ اب انہوں نے ایسا کرنے سے سرے سے انکار کردیا۔ صوبائی اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے انہوں نے صاف طور پر کہہ دیا کہ فلاحی قطعہ اراضی پر جہاں عرصہ دراز سے لوگ رہائش پذیر ہیں انہیں بے دخل کرنے یا ان کے گھر گرانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم لوگوں کی جان و مال کے محافظ ہیں۔ انہیں پریشانی میں نہیں ڈال سکتے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے اس بات کی تفصیل سے وضاحت کی کہ حکومت پر عدلیہ کا احترام واجب ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی۔ ہم اس بات سے تو متفق ہیں کہ کراچی کی پرانی شان و شوکت کو بحال کرنا چاہیے۔ حکومت اس کے اصل پلان پر عمل بھی کرے گی۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ کراچی دوبارہ وہ مقام حاصل کر لے جس سے وہ پورے ملک اور دنیا بھر میں مشہور تھا لیکن ایسا کرتے وقت لوگوں کی حفاظت بھی مدنظر رکھنا پڑے گا۔ وزیر اعلی مراد علی شاہ نے فیصلہ سنا دیا کہ حکومت عدالت عظمیٰ سے اپنے فیصلے پر نظرثانی کیلئے کہے گی۔ سعید غنی نے یاد دلایا کہ برسوں سے فلاحی قطعہ اراضی پر پارکس وغیرہ پر رہائشی کمرشل عمارتیں کھڑی کر لی گئی تھیں اس وقت انہیں روکا جانا چاہیے تھا لیکن اب انہیں اکھاڑ پھینکنا سخت ناانصافی ہوگی۔ ملک میں آہ بکاہ شروع ہوجائے گی جس کی بازگشت ابھی سے سنی جاسکتی ہے۔ ہم آئین کے تحت عدلیہ کے احکامات کے پابند ہیں لیکن یہ سماجی مسئلہ ہے۔ اس لئے لوگوں کو بھی گھر سے نہیں نکالا جاسکتا۔ تجاوزات کے خلاف کارروائی میں جو کہ کئی ہفتوں سے جاری ہے اب تک ہزاروں لوگوں کو بے گھر اور ان کا کاروبار خراب کردیا ۔ حکومت کو ان کی بحالی پر اب خطیر رقم خرچ کرنا پڑے گی جو کی جائے گی۔ کوئی حکومت ایسا کام نہیں کرسکتی جو عوام کی تکلیف کا باعث بنے۔