Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک اور غیر ملکی نیٹ ورک بے نقاب

کراچی ( صلاح الدین حیدر) پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے خواہ ان کا تعلق سول اور ملٹری اداروں سے ہوں ایک اور شاندار کارنامہ انجام دیا ہے۔ انہوں نے غیرملکی نیٹ ورک کا کھوج لگا کر کے اسے بے نقاب کردیا ۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ دہشتگردوں اور دشمنوں کی سرگرمیوں کو ختم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ باوثوق ذرائع کے مطابق ایک سینئر پاکستانی عہدے دار سمیت 5 افراد کو گرفتار بھی کرلیا گیا ۔ ایجنسی کا نام تو نہیں بتایا گیا لیکن آئی ایس آئی جو کہ اپنی کارکردگی کی وجہ سے دنیا میں نام پیدا کرچکا ہے اسی کا کارنامہ لگتا ہے۔ نیٹ ورک کا تعلق بہت ہی طاقتور ملک سے ہے۔ گرفتار افراد میں ایک عہدے دار بیرون ملک پاکستانی سفارت خانے میں کام کررہا تھا۔ جبکہ اس نیٹ ورک کا لیڈر ایک ریٹائرڈ افسر تھا۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ سول یا ملٹری ایجنسی سے تھا یا پھر کسی اہم وزارت یا محکمہ میں لازم تھا۔ نیٹ ورک کا کام ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے بارے میں اطلاعات جمع کرنا اور انہیں نیٹ ورک کو جس کا اب مکمل طور پر خاتمہ کردیا گیا ہے فراہم کرنا تھا۔ اس سے پہلے بھی کئی ایک بیرونی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے خلاف ایکشن لیا گیا تھا۔ ایبٹ آباد واقعہ میں جس میں اسامہ بن لادن کو گرفتار کیا گیا تھا میں حقانی نیٹ ورک شامل تھا۔ ایک اور رپورٹ بھی سامنے آئی تھی کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے 9/11 کے بعد امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کو پاکستانی قبائلی علاقوں سے لوگوں کو بھرتی کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ مشرف کے قریبی ساتھی طارق عزیز کے مطابق مشرف نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے سے بھی امریکہ کو نہیں روکا۔ آصف زرداری نے بھی ان کی مخالفت نہیں کی۔ نواز شریف نے 2013ءکے بعد اقتدار میں آتے ہی ان کی روک تھام کی لیکن ان میں کمی تو آئی لیکن مکمل طور پر یہ موجودہ حکومت کے اعتراض کے بعد بند ہوئے۔ مشرف اور بینظیر کے دورحکومت میں ان خفیہ ایجنسیوں کے لوگوں کو ملک بھر میں آزادی سے گھومنے کی اجازت تھی بلکہ ایئر پورٹ میں بھی ان کے آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں تھی ان کا سامان بھی چیک نہیں ہوتا تھا۔ سفارتی آداب کے مطابق ملک میں بیرونی سفارت خانوں کو ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کیلئے وزارت خارجہ کو مطلع کرنا ضروری ہے لیکن اس بات کو بالکل ہی نظر انداز کردیا گیا تھا۔ 2009ءمیں اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا کے حکم کے تحت یہ اجازت ختم کردی گئی تھی۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی اور امیگریشن کے اہلکاروں کو بھی رپورٹس نہیں ملتی تھی کہ کون ملک میں آیا اور کون گیا۔ اب یہ سلسلہ بند ہوچکا ہے۔
 

شیئر: