امریکی یونیورسٹی سے آلو پیاز کے ریٹ تک، مشیر وزیراعلٰی پنجاب سلمیٰ بٹ
امریکی یونیورسٹی سے آلو پیاز کے ریٹ تک، مشیر وزیراعلٰی پنجاب سلمیٰ بٹ
پیر 21 اپریل 2025 5:56
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
پاکستان کی سیاست میں موروثیت ہمیشہ زیرِ بحث رہتی ہے اور عمومی تاثر ہے کہ سیاست میں وہ لوگ آتے ہیں جن کا سیاسی بیک گراؤنڈ ہوتا ہے۔ تاہم ایک بڑی تعداد ایسے سیلف میڈ سیاستدانوں کی بھی ہے جنہوں نے اپنے بل بوتے پر راستہ بنایا۔
گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی رکن پنجاب اسمبلی سلمٰی بٹ کو ہی لیجیے جو آج کل وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز کی مشیر برائے پرائس کنٹرول مینجمنٹ سسٹم ہیں۔
سلمٰی بٹ سوشل میڈیا پر بہت متحرک رہتی ہیں اور اکثر فروٹ اور سبزی منڈیوں میں ریٹ کنٹرول کرنے لیے موجود ہوتی ہیں۔
اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جب سے مجھے وزیراعلٰی پنجاب نے یہ منصب دیا ہے تو میں نے اس کو بھی اسی انداز سے کیا ہے جس طرح میں سیاست کرتی ہوں۔ یعنی سب کچھ اپنے کام کو دے دینا۔ اپنا سارا وقت اور توانائی۔ سبزیوں کے ریٹ چیک کرتے ہوئے اب میں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں آلو، پیاز، ٹماٹر والی مشہور ہو گئی ہوں۔‘
سلمیٰ بٹ نے بتایا کہ ’اب کسی دوست یا فیملی ممبر کی سالگرہ ہو اور میں کہوں کہ میں آ رہی ہوں تو جھٹ سے سننے کو ملتا ہے کہ پلیز اب آلو، پیاز ٹماٹر نہ لے آنا۔ ایک طرح سے میری پہچان بن گئی ہے۔ اور مجھے اس پہچان پر فخر ہے کہ یہ رمضان ہماری حالیہ تاریخ کا سب سے سستا ترین رمضان گزرا ہے۔ کسی چیز کی شارٹیج نہیں ہوئی، میں 36 اضلاع کی منڈیوں میں اٹک سے راجن پور تک پھری ہوں۔‘
اپنی کہانی سناتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے پبلک پالیسی میں امریکہ سے ڈگری لی۔ اور پاکستان واپس آ کر سوشل اور ڈیویلپمنٹ سیکٹر میں کام شروع کیا۔ پھر 2010 میں اٹھارویں ترمیم آئی تو پھر میں نے اس وقت اور اس کے بعد سے سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور ن لیگ مجھے اس لیے پسند تھی کہ یہ صرف ترقی کی بات کرتے تھے ان کی سیاست ہی ترقی کے منصوبوں سے شروع ہو کر انہی منصوبوں پر ختم ہوتی تھی۔‘
سلمٰی بٹ جب سیاست میں آئیں تو ان کو بھی اسی طرح کی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا جیسا کسی بھی مڈل کلاس کے شخص یا خاتون کو کرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم انہوں نے بہت ہی مختلف طریقوں سے اپنی موجودگی کا احساس پارٹی کو دلانا شروع کیا جو اس سے پہلے نہیں تھا۔
ن لیگ پر 2017 میں جب کڑا وقت آیا اور اس وقت کی سپریم کورٹ نے نواز شریف کی وزارت عظمٰی ختم کی اور بعد ازاں نواز شریف اور مریم نواز پر مقدمات بنے اور وہ جیل چلے گئے تو اس وقت بھی سلمٰی بٹ اپنا سیاسی کام کر رہی تھیں۔
پھر جب مسلم لیگ ن کا ’برا وقت‘ ختم ہوا اور پہلے مریم نواز اور بعد میں نواز شریف لندن سے پاکستان آئے تو خوش آمدید کرنے والے جلسوں میں سینکڑوں لڑکیوں کو خاص طرح کے سٹیکر، بیج اور پوسٹر دے کر جب وہ جلسہ گاہوں میں لے کر آئیں تو وہاں سے سلمٰی بٹ ایک بار پھر قیادت کی نظر میں آ گئیں۔
اپنے سیاسی سفر سے متعلق ایک واقعہ بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’جب میں پہلی مرتبہ رکن اسمبلی بنی تو اپنا بینک اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے گئی، لیکن بینک نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ آپ کا تعلق سیاست سے ہے اس لیے سٹیٹ بینک کی پالیسی کے مطابق اکاؤنٹ نہیں کھل سکتا تو میں ہکا بکا رہ گئی کہ سسٹم کے اندر سیاستدانوں کی کیا وقعت ہے۔ اور پھر مجھے چار مہینے لگے اور ذاتی تعلق استعمال کر کے اکاؤنٹ کھلوایا۔‘
پرائس کنٹرول مینیجمنٹ کی ذمہ داری سے متعلق بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’وزیراعلٰی مریم نواز نے جب مجھے یہ ذمہ داری دی تو میرے پاس اس کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ میں نے کہا مجھے کچھ وقت دیں میں دیکھوں گی کہ میں یہ کام کر بھی سکتی ہوں یا نہیں۔ تو چند ہی دنوں میں مجھے انہوں نے کہا کہ یہ کام آپ ہی کریں گی۔‘
سلمٰی بٹ کے مطابق ن لیگ اس لیے پسند تھی کہ یہ صرف ترقی کی بات کرتی تھی۔ (فائل فوٹو)
پنجاب کی منڈیوں میں قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا نظام نافذ کرنے کے تجربات سے متعلق سلمٰی بٹ کہتی ہیں کہ ’منڈیوں کے آڑھتیوں کا خیال تھا کہ یہ کام ایک عورت کیسے کر سکتی ہے۔ جب میں نے پوچھا کہ بولی کتنے بجے ہوتی ہے تو بتایا گیا صبح پانچ بجے تو میں اگلے دن صبح پانچ بجے منڈی میں تھی۔ اور وہ سب حیران ہوئے۔ صرف یہی نہیں میں تو رات 12 بجے بھی منڈی پہنچ جاتی ہوں۔ اب میرے فون میں اپنے قریبی لوگوں سے زیادہ دکانداروں اور آڑھتیوں کے نمبر ہیں اور میں ہروقت مارکیٹ سے مکمل رابطے میں ہوتی ہوں۔‘
سلمٰی بٹ کے منڈیوں کے دورے اور اشیائے خورد ونوش کے بھاؤ معلوم کرنے کے انداز کی ویڈیوز سوشل میڈیا خاص طور پر ٹک ٹاک پر وائرل ہیں۔
سلمٰی بٹ کہتی ہیں کہ اب تو لوگ دور سے دیکھ کے شروع ہو جاتے ہیں کہ وہ دیکھو ’آلو، پیاز، ٹماٹر والی آ گئی ہے۔‘