ساحل کو چھو کر:چڑیاں گھونسلوں کی جانب لوٹ رہی تھیں
منزہ کام نمٹا کر درخت کے قریب بچھے تخت پر بیٹھی تھی،دونوں ہاتھ دھاگوں میں الجھے ہوئے تھے اور ذہن پر کوئی خوبصورت ڈیزائن کی آمد تھی جسے وہ دھاگوں میںسمورہی تھی
ناہیدطاہر ۔ ریاض
منزہ نے نانی جان کو لے کر آنگن عبور کیا اور چھوٹے سے ڈرائنگ روم کی جانب قدم بڑھا دیئے۔گھر میں داخل ہونے کے لئے ڈرائنگ روم سے گزرنے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا۔دروازے کے باہر سلیقے سے رکھے صاف و شفاف جوتے، گھر میں آئے مہمان کی اطلاع کے ساتھ ساتھ اس کی باوقار شخصیت سے بھی متعارف کروا رہے تھے۔اس نے نانی جان کی جانب دیکھا اور دھیرے سے دروازے پر دستک دیتے ہوئے اندر قدم رکھا۔صوفے پر براجمان شخص پر نظر پڑی توایک لمحے کو منزہ لڑکھڑاگئی۔اونچا قد اور خوبصورت شخصیت کا مالک ! جس نے اپنی گھنی مونچھوں تلے ہلکی سی مسکان سجائے اس کی جانب دیکھ کر چہرے کا رخ پھیر لیا تھا۔
منزہ نے آہستگی سے سلام کیا،وہ اٹھ کر نانی جان کے قریب آیا اور بہت مہذہب انداز میں سلام پیش کیا۔نانی جان نے اسے ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا۔منزہ نانی جان کا ہاتھ تھامے کھڑی رہی۔وہاں سے فوراً فرار ممکن نہیں تھا۔اسے مجبوراً رکنا پڑا۔ابو مسکرا کر تعارف پیش کرنے لگے،منزہ ! یہ مسڑ راحیل انصاری ہیں ۔جی ! منزہ نے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجاتے ہوئے ایک اچٹتی نگاہ راحیل پرڈالی۔ راحیل یہ میری بیٹی منزہ ! راحیل نے دیکھا۔نازک اندام ، حسین دوشیزہ ۔اس نے فرطِ مسرت سے جی ! کہا۔ اخلاق کے دائرے میں سمٹ کر دھیمی مسکان تلے دوبارہ اس کی جانب دیکھا اور نظر جھکادی۔
وہ شاید ابو کے ساتھ کاروبار سے منسلک تھا۔اس بات کا علم منزہ کو نہیں تھا کیونکہ اس سے پہلے ان موصوف کو اس نے کبھی دیکھانہیں تھا۔اتنے اونچے قد اور مضبوط جسم کا مالک ہونے کے باوجود وہ منزہ کے مختصر سے وجود سے متاثر ہو گیا تھا۔اس کی خوبصورتی سے شاید مرعوب بھی تھا۔ راحیل کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں ابھر آئی تھیںجنہیں دیکھ کر منزہ دل ہی دل میں مسکرائی اور نانی جان کی کلائی تھام کر اندر راہداری کی جانب قدم بڑھا دیئے۔
اس شام اس نے اپنے ہاتھوں سے بنائی چائے اور ساتھ میں چند لوازمات فرحین کے ذریعے ڈرائنگ روم میں بھجوائے۔ راحیل کے جانے کے بعد ابو نے بتایا کہ راحیل نے چائے اور پکوڑوں کی بہت تعریف کی ہے۔منزہ کو یہ سن کر اچھا لگا۔وہ شرما گئی۔پھرابو نے راحیل کے تعلق سے تفصیل بتائی کہ وہ کام کے سلسلے میں ابو کی مدد چاہتا ہے کیونکہ نئے کاروبار کی وجہ سے اس کے پاس تجربے کی کمی تھی۔
اتوار کا دن تھا،ابو بازار سے عامر کے لئے نئی گینداوربلا خرید لائے تھے۔ عامر کرکٹ کا بڑاشوقین تھا۔تپتی دوپہر وہ باہر محلے کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کی ضد کئے جارہا تھا۔تب منزہ نے اپنی دونوں چھوٹی بہنوں کو لے کر ٹیم بنائی اور آنگن میں عامر کے ساتھ کرکٹ کھیلنے لگی۔عامر بڑے جوش میں بلا اٹھاتا پھر دوڑ لگاتا۔فرحین بے چاری کب سے انتظار میں کھڑی تھی کہ عامر کے بعد خود بلے بازی کرے گی لیکن عامر بلا دینے کو تیار ہی نہیں تھا۔وہ دھوپ میں پسینے سے شرابور ہوتی کئی مرتبہ چلائی۔منزہ سے شکایت بھی کی لیکن عامر ماناہی نہیں۔ آخر فرحین کو بھائی پر بہت غصہ آیا اور اس نے گیند اٹھا کر اس کے سر پر دے ماری۔بے چارے نے بلا پھینک کردردکے مارے سر تھام لیا اور روتا ہوا امی سے شکایت کرنے کی غرض سے گھر کے اندر دوڑا۔منزہ ، فرحین کو ڈانٹنے لگی۔ فرحین جواب میں رونے لگی تو منزہ نے اسے اپنے سے قریب کیا۔اس کے آنسوؤں کو دھیرے سے صاف کیا اور مسکرا کر گویا ہوئی،اتنا غصہ ٹھیک نہیں۔اگلی بار تمہیں بلے بازی کا موقع دوں گی اورعامر بولنگ کریگا۔
بھائی کو چوٹ لگی ہے ۔ وہ عامر پر گیند پھینک کر نادم بھی تھی اورشاید اسے بھائی کے درد کا احساس بھی بے چین کئے ہوئے تھا۔
منزہ بے اختیار ہنس دی اور شفیق لہجے میں گویا ہوئی،ٹھیک ہے تم اندر جاکر بھائی سے معافی مانگ لو۔اس سے عامر کا درد رفع ہوگا۔تم بھی اچھا محسوس کروگی۔
ہاں یہ ٹھیک ہے۔وہ روتی ہوئی مسکرائی اور وہاں سے بھاگ گئی۔اچانک دروازے پر ہلکی سی ضرب سنائی دی۔منزہ نے اس تیز دھوپ میں آنے والے مہمان کے تعلق سے سوچتے ہوئے آواز لگائی،کون؟
جی میں راحیل !وہ دروازے کی جانب بڑھ گئی۔درواز کھولا ، راحیل سامنے کھڑا تھا۔دھوپ کی وجہ سے اس کاچہرہ سرخ ہوگیا تھا۔وہ پسینے میں شرابورتھا۔انکل گھر پر ہیں؟ اس نے آہستگی سے ماتھے کا پسینہ خشک کرتے ہوئے سوال کیا۔
نہیں!ابو کسی کام سے باہر گئے ہیں۔اچھا،وہ جواب سن کرمایوس نظر آیا۔آپ انتظار کرسکتے ہیں، شاید ابو کچھ دیر میں آجائیں۔
اس کی ضرورت نہیں،چلتا ہوں۔یہ کہہ کروہ گھوما اور اچانک رکا،جیب سے ایک مڑا کاغذ نکالا۔اس پر موبائیل نمبر لکھا،یہ آپ انکل کودے دیجئے گاکیونکہ میرا نمبر انکل کے پاس نہیں ہے، ان سے کہئے مجھے کال کرلیں۔جی بہتر !
منزہ نے کاغذ کو دیکھا، وہ کسی بس کا ٹکٹ تھا جس پر راحیل نے نمبر لکھا تھا۔منزہ نے کاغذ کو مٹھی میں بھینچ لیااور اپنی خوبصورت آواز میں گویا ہوئی،آپ ابو کا نمبر مجھ سے لے سکتے ہیں۔
جی ضرور!یہ خیال مجھے کیوں نہیں آیا۔لہجے میںمسرت کے ساتھ شرمندگی بھی تھی۔ وہ ہنسا،منزہ بھی ہنس پڑی۔پھر وہ نمبر بتانے لگی، راحیل نے موبائل میں نمبر نوٹ کرتے ہوئے ایک دو مرتبہ اس کے چہرے کو دیکھا ،جس کی وجہ سے منزہ کی آواز لڑکھڑائی اور وہ نمبر بھی بھول گئی پھر جلدی سے دوبارہ دہرانے لگی۔ نمبر سیو کرکے وہ پرسکون انداز میں مسکراتے ہوا شکریہ ادا کر کے چلا گیا۔منزہ نے بڑی حفاظت سے اس کاغذ کو مٹھی میں دبایا اوراپنے کمرے میں پہنچ کر بند مٹھی سے کاغذ کو آزاد کیا اور ڈائری میں اسے محفوظ کرلیا۔
ایک شام حسب معمول منزہ کام نمٹا کر درخت کے قریب بچھے تخت پر بیٹھی تھی۔دونوں ہاتھ تیزی کے ساتھ دھاگوں میں الجھے ہوئے تھے اور ذہن پر کوئی خوبصورت ڈیزائن کی آمد تھی جسے وہ دھاگوں میںسمورہی تھی۔ابو، راحیل کے ساتھ اندر بیٹھے گفتگو میں مصروف تھے۔منزہ کا دھیان دھاگوں سے الجھ کر کبھی راحیل کی طرف چلا جاتا۔چڑیاں اپنے گھونسلوں کی جانب لوٹ رہی تھیں، ماحول میں مترنم چہچہاہٹ سنائی دے رہی تھی ۔سورج کے ڈوبنے سے پہلے یہ شور مکمل تھم جاتا تھا۔ اچانک کسی خیال کے تحت اس نے دھاگوں کو اپنی انگلیوں کی قید سے آزاد کیا اور وہاں سے اٹھ گئی۔
(باقی آئندہ: ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭