مکہ مکرمہ کے تاریخی مقامات
ملتزم کے معنیٰ ہے چمٹنے کی جگہ،حجر اسود اور بیت اللہ کے دروازے کے درمیان ڈھائی گز کے قریب کعبہ کی دیوار کا جو حصہ ہے وہ ملتزم کہلاتا ہے
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی۔ ریاض
بیت اللہ:
بیت اللہ شریف اللہ تعالیٰ کا گھر ہے جس کا حج اور طواف کیا جاتا ہے۔ اس کو کعبہ بھی کہتے ہیں۔ یہ پہلا گھر ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کیلئے زمین پر بنایا جیسا کہ سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
"اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کیلئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ مکرمہ میں ہے جو تمام دنیا کیلئے برکت وہدایت والا ہے۔"
بیت اللہ مسجد حرام کے قلب میں واقع ہے اور قیامت تک یہی مسلمانوں کا قبلہ ہے۔24 گھنٹوں میں صرف فرض نمازوں کے وقت خانہ کعبہ کا طواف رکتا ہے باقی دن رات میں ایک گھڑی کیلئے بھی بیت اللہ کا طواف بند نہیں ہوتا ۔ بیت اللہ کی اونچائی14میٹر ہے جبکہ چوڑائی ہر طرف سے کم وبیش 12 میٹر ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی 120رحمتیں روزانہ اس گھر (خانہ کعبہ) پر نازل ہوتی ہیں جن میں سے 60 طواف کرنے والوں پر، 40وہاں نماز پڑھنے والوں پر اور 20خانہ کعبہ کو دیکھنے والوں پر ۔
اگر بیت اللہ کا قریب سے طواف کیا جائے تو7 چکر میں تقریباً30 منٹ لگتے ہیں، لیکن دور سے کرنے پر تقریباً ایک سے2 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ طواف زیارت (حج کا طواف) کرنے میں کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ بیت اللہ پر پہلی نظر پڑنے پر جو دعا مانگی جاتی ہے وہ اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ حضور اکرم کی سنت کے مطابق بیت اللہ شریف کو ہر سال غسل بھی دیا جاتا ہے۔
حطیم:
یہ دراصل بیت اللہ ہی کا حصہ ہے، لیکن قریش مکہ کے پاس حلال مال میسر نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے تعمیر کعبہ کے وقت یہ حصہ چھوڑکر بیت اللہ کی تعمیر کی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں کعبہ شریف میں داخل ہوکر نمازپڑھنا چاہتی تھی۔ رسول اللہ میرا ہاتھ پکڑکر حطیم میں لے گئے اور فرمایا: جب تم بیت اللہ (کعبہ) کے اندر نماز پڑھنا چاہو تو یہاں (حطیم میں) کھڑے ہوکر نماز پڑھ لو۔ یہ بھی بیت اللہ شریف کا حصہ ہے۔ تیری قوم نے بیت اللہ (کعبہ) کی تعمیر کے وقت (حلال کمائی میسر نہ ہونے کی وجہ سے ) اسے (چھت کے بغیر) تھوڑا سا تعمیر کرادیا تھا۔ بیت اللہ کی چھت سے حطیم کی طرف بارش کے پانی کے گرنے کی جگہ (پرنالہ) میزاب رحمت کہی جاتی ہے۔
حجر اسود:
حجر اسود قیمتی پتھروں میں سے ایک پتھر ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کی روشنی ختم کردی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرتا تو یہ پتھر مشرق اور مغرب کے درمیان ہر چیز کو روشن کردیتا۔
حجر اسود جنت سے اترا ہوا پتھر ہے جو کہ دودھ سے زیادہ سفید تھا لیکن لوگوں کے گناہوں نے اسے سیاہ کردیا ہے ۔ حجر اسود کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایسی حالت میں اٹھائیں گے کہ اس کی دو آنکھیں ہوںگی جن سے وہ دیکھے گا اور زبان ہوگی جن سے وہ بولے گا اور گواہی دے گا اُس شخص کے حق میں جس نے اُس کا حق کے ساتھ بوسہ لیا ہو۔ حجر اسود کے استلام سے ہی طواف شروع کیا جاتا ہے اور اسی پر ختم کیا جاتا ہے۔ حجر اسود کا بوسہ لینا یا اس کی طرف دونوں یا داہنے ہاتھ سے اشارہ کرنا استلام کہلاتا ہے۔
مُلتزم:
ملتزم کے معنیٰ ہے چمٹنے کی جگہ۔حجر اسود اور بیت اللہ کے دروازے کے درمیان ڈھائی گز کے قریب کعبہ کی دیوار کا جو حصہ ہے وہ ملتزم کہلاتا ہے۔حضور اکرم نے اس جگہ چمٹ کر دعائیں مانگی تھیں، یہ دعاؤں کے قبول ہونے کی خاص جگہ ہے۔
رکن یمانی:
بیت اللہ کے تیسرے کونہ کو رکن یمانی کہتے ہیں۔ رکن یمانی کو چھونا گناہوں کو مٹاتا ہے۔ رکن یمانی پر 70 فرشتے مقرر ہیں۔ جو شخص وہاں جاکر یہ دعا پڑھے: رَبّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْآخِـرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النّارِ ، تو وہ سب فرشتے آمین کہتے ہیں ، یعنی یا اللہ! اس شخص کی دعا قبول فرما۔
مقام ابراہیم:
یہ ایک پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کو تعمیر کیا تھا۔ اس پتھر پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشانات ہیں۔ یہ کعبہ کے سامنے ایک جالی دار شیشے کے چھوٹے سے قبہ میں محفوظ ہے جس کے اطراف میں پیتل کی خوشنما جالی نصب ہے۔حجر اسود کی طرح یہ پتھر بھی جنت سے لایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی روشنی ختم کردی ہے۔اگر اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرتا تو یہ مشرق اور مغرب کے درمیان ہر چیز کو روشن کردیتا۔ طواف سے فراغت کے بعد طواف کی 2رکعت اگر سہولت سے مقامِ ابراہیم کے پیچھے جگہ مل جائے تو مقام ابراہیم کے پیچھے ہی پڑھنا بہتر ہے ۔
مسجد حرام:
مسلمانوں کی سب سے بڑی مسجد (مسجد حرام) مقدس شہر مکہ مکرمہ کے وسط میں واقع ہے۔ مسجد حرام کے درمیان میں بیت اللہ ہے جس کی طرف رخ کرکے دنیا بھر کے مسلمان ایمان کے بعد سب سے اہم رکن یعنی نماز کی ادائیگی کرتے ہیں۔ دنیا میں سب سے پہلی مسجد مسجد حرام ہے جیساکہ حدیث میں ہے ۔حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلی کون سی مسجد بنائی گئی؟ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: مسجد حرام۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ اس کے بعد کون سی؟ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: مسجد اقصیٰ۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ دونوں کے درمیان کتنے وقت کا فرق ہے؟ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: 40 سال کا۔
حضور اکرم نے ارشاد فرمایا:
3"مساجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد کا سفر اختیار نہ کیا جائے: مسجد نبوی، مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ۔"
حضور اکرم نے ارشاد فرمایا:
"میری اس مسجد میں نماز کا ثواب دیگر مساجد کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ ہے سوا ئے مسجد حرام کے اور مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے ثواب کے برابر ہے۔"
صفا ومروہ:
صفا ومروہ 2پہاڑیاں ہیں۔صفا کو شیشوں کے حصار میں لے لیا گیا ہے جبکہ مروہ کی پہاڑی کاتھوڑا حصہ نظر آتا ہے۔صفا ومروہ اور اس کے درمیان کا مکمل حصہ ایئرکنڈیشنڈ ہے۔ صفا ومروہ کے درمیان حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کیلئے پانی کی تلاش میں7 چکر لگائے تھے اور جہاں مرد حضرات تھوڑا تیز چلتے ہیں یہ اُس زمانہ میں صفا مروہ پہاڑیوں کے درمیان ایک وادی تھی جہاں سے ان کا بیٹا نظر نہیں آتا تھا، لہذاسیدہ ہاجرہ ؑ اس وادی میں تھوڑا تیز دوڑی تھیں۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی اس عظیم قربانی کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرماکر قیامت تک آنے والے تمام مرد حاجیوں کواس جگہ تھوڑا تیز چلنے کی تعلیم دی ۔ شریعت اسلامیہ نے صنف نازک کے جسم کی نزاکت کے مدنظر اس کو صرف مردوں کیلئے سنت قرار دیا ہے۔ سعی کا ہر چکر تقریباً395میٹر لمبا ہے، یعنی 7 چکر کی کُل مسافت تقریباً پونے3 کیلومیٹر بنتی ہے۔ نیچے کی منزل کے مقابلہ میں اوپر والی منزل پر ازدحام کچھ کم رہتا ہے۔ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس پہاڑی سے ایک ایسا جانور نکلے گا جو انسانی زبان میں بات کرے گا۔
منیٰ:
منیٰ مکہ مکرمہ سے 5,4کیلومیٹرکے فاصلہ پر دو طرفہ پہاڑوں کے درمیان ایک بہت بڑا میدان ہے۔ حجاج کرام 8 ذی الحجہ کو اور اسی طرح11، 12 اور 13 ذی الحجہ کومنیٰ میں قیام فرماتے ہیں۔ منیٰ میں ایک مسجد ہے جسے مسجد خیف کہا جاتا ہے۔ اسی مسجد کے قریب جمرات ہیں جہاں حجاج کرام کنکریاں مارتے ہیں۔منیٰ ہی میں قربان گاہ ہے جہاں حجاج کرام کی قربانیاں کی جاتی ہیں۔
عرفا ت:
عرفات منیٰ سے تقریباً10,8 کیلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ میدان عرفات کے شروع میں مسجد نمرہ نامی ایک بہت بڑی مسجد ہے جس میں زوال کے فوراً بعد خطبہ ہوتا ہے پھر ایک اذان اور دو اقامت سے ظہر اور عصر کی نمازیں جماعت سے ادا ہوتی ہیں۔اسی جگہ پر حضور اکرم نے خطبہ دیا تھا جو" خطبہ حجۃ الوداع" کے نام سے معروف ہے۔ مسجد نمرہ کا اگلا حصہ عرفات کی حدود سے باہر ہے ۔ منیٰ ومزدلفہ حدود حرم کے اندر، جبکہ عرفات حدود حدود حرم سے باہر ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں حج کا سب سے اہم رکن ادا ہوتا ہے، جس کے متعلق حضور اکرم نے ارشاد فرمایا کہ وقوف عرفہ ہی حج ہے۔
مزدلفہ:
9 ذی الحجہ کو غروب آفتاب کے بعد حجاج کرام عرفات سے مزدلفہ آکر عشاء کے وقت میں مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کرتے ہیں۔ یہاں رات کو قیام فرماتے ہیں اور نماز فجر کے بعد قبلہ رخ کھڑے ہوکر دعائیں کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَاِذَا اَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْکُرُوااللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ (البقرۃ198)
"جب تم عرفات سے واپس ہوکر مزدلفہ آؤ تو یہاں مشعر حرام کے پاس اللہ کے ذکر میں مشغول رہو۔"
اس جگہ ایک مسجد بنی ہوئی ہے جس کو مسجد مشعر حرام کہتے ہیں۔ مزدلفہ منی سے4,3 کیلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔
وادی محسر:
منیٰ اور مزدلفہ کے درمیان میں ایک وادی ہے جس کو وادی محسر کہتے ہیں۔یہاں سے حضور اکرم کی تعلیمات کے مطابق گزرتے وقت تھوڑا تیز چل کر گزرا جاتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے ابرہہ بادشاہ کے لشکر کو ہلاک وتباہ کیا تھا جو بیت اللہ کو ڈھانے کے ارادہ سے آرہا تھا۔
جمرات:
یہ منیٰ میں 3 مشہور مقام ہیں جہاں اب دیوار کی شکل میں بڑے بڑے ستون بنے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم، نبی اکرم کے طریقہ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اتباع میں ان جگہوں پر کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ ان میں سے جو مسجد خیف کے قریب ہے، اسے جمرہ اولیٰ، اس کے بعد بیچ والے جمرہ کو جمرہ وسطیٰ اور اس کے بعد مکہ مکرمہ کی طرف آخری جمرہ کو جمرہ عقبہ یا جمرہ کبریٰ کہا جاتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو شیطان نے ان 3 مقامات پر بہکانے کی کوشش کی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان 3 مقامات پر شیطان کو کنکریاں ماری تھیں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس عمل کو قیامت تک آنے والے حاجیوں کیلئے لازم قرار دیدیا۔ حجاج کرام بظاہر جمرات پر کنکریاں مارتے ہیں لیکن درحقیقت شیطان کو اس عمل کے ذریعہ دھتکارا جاتا ہے ۔رمی یعنی جمرات پر کنکریاں مارنا حج کے واجبات میں سے ہے۔ دسویں، گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ کو رمی کرنا (یعنی49کنکریاں مارنا) ہر حاجی کیلئے ضروری ہے۔ تیرہویں ذی الحجہ کی رمی (یعنی21کنکریاں مارنا) اختیاری ہے۔
مولد النبی :
مروہ کے قریب حضور اکرم کی پیدائش کی جگہ ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں9 یا 12 ربیع الاول کو نبی اکرم رحمۃ للعالمین بن کر تشریف لائے تھے۔ اس جگہ پر اِن دنوں مکتبہ (لائبریری) قائم ہے۔
غار ثور:
یہ غار جبل ثور کی چوٹی کے پاس ہے۔ یہ پہاڑ مسجد حرام سے تقریباً10کیلومیٹر کے فاصلہ پر ہے اور غار ایک میل کی چڑھائی پر واقع ہے۔ حضور اکرم نے مکہ مکرمہ ہجرت کے وقت اسی غار میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ3 دن قیام فرمایا تھا۔
غار حِرا:
یہاں قران کریم نازل ہونا شروع ہوا تھا۔ سورہ اقراء کی ابتدائی چند آیات اسی غار میں نازل ہوئی تھیں۔یہ غار جبل نور (پہاڑ) پر واقع ہے۔ یہ پہاڑ مکہ مکرمہ سے منیٰ جانے والے اہم راستہ پر مسجد حرام سے تقریباً4کیلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اس کی اونچائی تقریباً 2 ہزار فٹ ہے۔
جنت المعلّٰی:
یہ مکہ مکرمہ کا قبرستان ہے۔ یہاں پر ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، صحابۂ کرامؓ، تابعین، تبع تابعین اور اولیاء اللہ مدفون ہیں۔